فہرست خطبات

1- معرفت باری تعالیٰ، زمین و آسمان اور آدمؑ کی خلقت، احکام و حج
2- عرب قبل از بعثت، اہل بیتؑ کی فضیلت اور ایک جماعت کی منقصت
3- (خطبہ شقشقیہ) خلفائے ثلاثہ کی حکومت کے بارے میں آپؑ کا نظریہ
4- آپکیؑ کی دوررس بصیرت، یقین کامل اور موسیؑ کا خوفزدہ ہونا
5- پیغمبرﷺ کے بعد جب ابو سفیان نے آپؑ کی بیعت کرنا چاہی
6- طلحہ و زبیر کے تعاقب سےآپؑ کو روکا گیا تو اس موقع پر فرمایا
7- منافقین کی حالت
8- جب زبیر نے یہ کہا میں نے دل سے بیعت نہ کی تھی تو آپؑ نے فرما
9- اصحاب جمل کا بوداپن
10- طلحہ و زبیر کے بارے میں
11- محمد بن حنفیہ کو آداب حرم کی تعلیم
12- عمل کا کردار اور مدار نیت پر ہے۔
13- بصرہ اور اہل بصرہ کی مذمت میں
14- اہل بصرہ کی مذمت میں
15- عثمان کی دی ہوئی جا گیریں جب پلٹا لیں تو فرمایا
16- جب اہل مدینہ نے آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کی تو فرمایا
17- مسند قضا پر بیٹھنے والے نا اہلوں کی مذمت میں
18- علماء کے مختلف الاراء ہونے کی مذمت اور تصویب کی رد
19- اشعث بن قیس کی غداری و نفاق کا تذکرہ
20- موت کی ہولناکی اور اس سے عبرت اندوزی
21- دنیا میں سبکبار رہنے کی تعلیم
22- قتل عثمان کا الزام عائد کرنے والوں کے بارے میں
23- حسد سے باز رہنے اور عزیزو اقارب سے حسن سلوک کے بارے میں
24- جنگ پر آمادہ کرنے کے لیے فرمایا
25- بسر کے حملے کے بعد جنگ سے جی چرانے والوں سے فرمایا
26- عرب قبل از بعثت اور پیغمبرﷺ کے بعد دنیا کی بے رخی
27- جہاد پر برانگیختہ کرنےکے لیے فرمایا
28- دنیا کی بے ثباتی اور زاد آخرت کی اہمیت کا تذکرہ
29- جنگ کے موقعہ پر حیلے بہانے کرنے والوں کے متعلق فرمایا
30- قتل عثمان کے سلسلے میں آپؑ کی روش
31- جنگ جمل پہلے ابن عباس کو زبیر کے پاس جب بھیجنا
32- دنیا کی مذمت اور اہل دنیا کی قسمیں
33- جب جنگ جمل کے لیے روانہ ہوئے تو فرمایا
34- اہل شام کے مقابلے میں لوگوں کو آمادۂ جنگ کرنے کے لیے فرمایا
35- تحکیم کے بارے میں فرمایا
36- اہل نہروان کو ان کے انجام سے مطلع کرنے کے لیے فرمایا
37- اپنی استقامت دینی و سبقت ایمانی کے متعلق فرمایا
38- شبہہ کی وجہ تسمیہ اور دوستان خدا و دشمنان خدا کی مذمت
39- جنگ سے جی چرانے والوں کی مذمت میں
40- خوارج کے قول «لاحکم الا للہ» کے جواب میں فرمایا
41- غداری کی مذمت میں
42- نفسانی خواہشوں اور لمبی امیدوں کے متعلق فرمایا
43- جب ساتھیوں نے جنگ کی تیاری کے لیے کہا تو آپؑ نے فرمایا
44- جب مصقلہ ابن ہبیرہ معاویہ کے پاس بھاگ گیا تو آپؑ نے فرمایا
45- اللہ کی عظمت اور جلالت اور دنیا کی سبکی و بے وقاری کے متعلق
46- جب شام کی جانب روانہ ہوئے تو فرمایا
47- کوفہ پر وارد ہونے والی مصیبتوں کے متعلق فرمایا
48- جب شام کی طرف روانہ ہوئے تو فرمایا
49- اللہ کی عظمت و بزرگی کے بارے میں فرمایا
50- حق و باطل کی آمیزش کے نتائج
51- جب شامیوں نے آپؑ کے ساتھیوں پر پانی بند کر دیا تو فرمایا
52- دنیا کے زوال وفنا اور آخرت کے ثواب و عتاب کے متعلق فرمایا
53- گوسفند قربانی کے اوصاف
54- آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کا ہجوم
55- میدان صفین میں جہاد میں تاخیر پر اعتراض ہوا تو فرمایا
56- میدان جنگ میں آپؑ کی صبر و ثبات کی حالت
57- معاویہ کے بارے میں فرمایا
58- خوارج کےبارے میں آپؑ کی پیشینگوئی
59- خوارج کی ہزیمت کے متعلق آپؑ کی پیشینگوئی
60- جب اچانک قتل کر دیے جانے سے ڈرایا گیا تو آپؑ نے فرمایا
61- دنیا کی بے ثباتی کا تذکرہ
62- دنیا کے زوال و فنا کے سلسلہ میں فرمایا
63- صفات باری کا تذکرہ
64- جنگ صفین میں تعلیم حرب کےسلسلے میں فرمایا
65- سقیفہ بنی ساعدہ کی کاروائی سننے کے بعد فرمایا
66- محمد بن ابی بکرکی خبر شہادت سن کر فرمایا
67- اپنے اصحاب کی کجروی اور بے رخی کے بارے میں فرمایا
68- شب ضربت سحر کے وقت فرمایا
69- اہل عراق کی مذمت میں فرمایا
70- پیغمبرﷺ پر درود بھیجنے کا طریقہ
71- حسنینؑ کی طرف سے مروان کی سفارش کی گئی تو آپؑ نے فرمایا
72- جب لوگوں نے عثمان کی بیعت کا ارادہ کیا تو آپؑ نے فرمایا
73- قتل عثمان میں شرکت کا الزام آپؑ پر لگایا گیا تو فرمایا
74- پند و نصیحت کے سلسلے میں فرمایا
75- بنی امیہ کے متعلق فرمایا
76- دعائیہ کلمات
77- منجمین کی پیشینگوئی کی رد
78- عورتوں کے فطری نقائص
79- پند و نصیحت کے سلسلے میں فرمایا
80- اہل دنیا کے ساتھ دنیا کی روش
81- موت اور اس کے بعد کی حالت، انسانی خلقت کے درجات اور نصائح
82- عمرو بن عاص کے بارے میں
83- تنزیہ بازی اور پند و نصائح کے سلسلے میں فرمایا
84- آخرت کی تیاری اور احکام شریعت کی نگہداشت کے سلسلے میں فرمایا
85- دوستان خدا کی حالت اور علماء سوء کی مذمت میں فرمایا
86- امت کے مختلف گروہوں میں بٹ جانے کے متعلق فرمایا
87- بعثت سے قبل دنیا کی حالت پراگندگی اور موجودہ دور کے لوگ
88- صفات باری اور پند و موعظت کےسلسلے میں فرمایا
89- (خطبہ اشباح) آسمان و زمین کی خلقت
90- جب آپؑ کے ہاتھ پر بیعت ہوئی تو فرمایا
91- خوارج کی بیخ کنی اور اپنے علم کی ہمہ گیری و فتنہ بنی امیہ
92- خداوند عالم کی حمد و ثناء اور انبیاء کی توصیف میں فرمایا
93- بعثت کے وقت لوگوں کی حالت اور پیغمبرﷺ کی مساعی
94- نبی کریم ﷺ کی مدح و توصیف میں فرمایا
95- اپنے اصحاب کو تنبیہہ اور سرزنش کرتے ہوئے فرمایا
96- بنی امیہ اور ان کے مظالم کے متعلق فرمایا
97- ترکِ دینا اور نیرنگیٔ عالم کے سلسلہ میں فرمایا
98- اپنی سیرت و کردار اور اہل بیتؑ کی عظمت کے سلسلہ میں فرمایا
99- عبد الملک بن مروان کی تاراجیوں کے متعلق فرمایا
100- بعد میں پیدا ہونے والے فتنوں کے متعلق فرمایا
101- زہد و تقو یٰ اور اہل دنیا کی حالت کے متعلق فرمایا
102- بعثت سے قبل لوگوں کی حالت اور پیغمبر ﷺکی تبلیغ و ہدایت
103- پیغمبر اکرمﷺ کی مدح و توصیف اور فرائضِ امام کے سلسلہ میں
104- شریعت اسلام کی گرانقدری اور پیغمبرﷺ کی عظمت کے متعلق فرمایا
105- صفین میں جب حصہ لشکر کے قدم اکھڑنے کے جم گئے تو فرمایا
106- پیغمبرﷺ کی توصیف اور لوگوں کے گوناگون حالات کے بارے میں
107- خداوند عالم کی عظمت، ملائکہ کی رفعت ،نزع کی کیفیت اور آخرت
108- فرائضِ اسلام اور علم وعمل کے متعلق فرمایا
109- دنیا کی بے ثباتی کے متعلق فرمایا
110- ملک الموت کے قبضِ رُوح کرنے کے متعلق فرمایا
111- دنیا اور اہل دنیا کے متعلق فرمایا
112- زہد و تقویٰ اور زادِ عقبیٰ کی اہمیت کے متعلق
113- طلب باران کے سلسلہ میں فرمایا
114- آخرت کی حالت اور حجاج ابن یوسف ثقفی کے مظالم کے متعلق
115- خدا کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرنے کے متعلق فرمایا
116- اپنے دوستوں کی حالت اور اپنی اولیت کے متعلق فرمایا
117- جب اپنے ساتھیوں کو دعوت جہاد دی اور وہ خاموش رہے تو فرمایا
118- اہل بیتؑ کی عظمت اور قوانین شریعت کی اہمیت کے متعلق فرمایا
119- تحکیم کے بارے میں آپؑ پر اعتراض کیا گیا تو فرمایا
120- جب خوارج تحکیم کے نہ ماننے پر اڑ گئے تو احتجاجاً فرمایا
121- جنگ کے موقع پر کمزور اور پست ہمتوں کی مدد کرنے کی سلسلہ میں
122- میدان صفین میں فنونِ جنگ کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا
123- تحکیم کو قبول کرنے کے وجوہ و اسباب
124- بیت المال کی برابر کی تقسیم پر اعتراض ہوا تو فرمایا
125- خوارج کے عقائد کے رد میں
126- بصرہ میں ہونے والے فتنوں، تباہ کاریوں اور حملوں کے متعلق
127- دنیا کی بے ثباتی اور اہل دنیا کی حالت
128- حضرت ابوذر کو مدینہ بدر کیا گیا تو فرمایا
129- خلافت کو قبول کرنے کی وجہ اور والی و حاکم کے اوصاف
130- موت سے ڈرانے اور پند و نصیحت کے سلسلہ میں فرمایا
131- خداوند ِعالم کی عظمت، قرآن کی اہمیت اور پیغمبرﷺ کی بعثت
132- جب مغیرہ بن اخنس نے عثمان کی حمایت میں بولنا چاہا تو فرمایا
133- غزوہ روم میں شرکت کے لیے مشورہ مانگا گیا تو فرمایا
134- اپنی نیت کے اخلاص اور مظلوم کی حمایت کے سلسلہ میں فرمایا
135- طلحہ و زبیر اور خونِ عثمان کے قصاص اور اپنی بیعت کے متعلق
136- ظہورِ حضرت قائم علیہ السلام کے وقت دُنیا کی حالت
137- شوریٰ کے موقع پر فرمایا
138- غیبت اور عیب جوئی سے ممانعت کے سلسلہ میں فرمایا
139- سُنی سُنائی باتوں کو سچا نہ سمجھنا چاہئے
140- بے محل داد و دہش سے ممانعت اور مال کا صحیح مصرف
141- طلبِ باران کے سلسلہ میں فرمایا
142- اہل بیتؑ راسخون فی العلم ہیں اور وہی امامت وخلافت کے اہل ہیں
143- دُنیا کی اہل دُنیا کے ساتھ روش اور بدعت و سنت کا بیان
144- جب حضرت عمر نے غزوہ فارس کیلئے مشورہ لیا تو فرمایا
145- بعثتِ پیغمبر کی غرض و غایت اور اُس زمانے کی حالت
146- طلحہ وزبیر کے متعلق فرمایا
147- موت سے کچھ قبل بطور وصیّت فرمایا
148- حضرت حجتؑ کی غیبت اور پیغمبرﷺ کے بعد لوگوں کی حالت
149- فتنوں میں لوگوں کی حالت اور ظلم اور اکل حرام سے اجتناب
150- خداوند عالم کی عظمت و جلالت کا تذکرہ اور معرفت امام کے متعلق
151- غفلت شعاروں، چوپاؤں، درندوں اور عورتوں کے عادات و خصائل
152- اہل بیتؑ کی توصیف، علم وعمل کا تلازم اور اعمال کا ثمرہ
153- چمگادڑ کی عجیب و غریب خلقت کے بارے میں
154- حضرت عائشہ کے عناد کی کیفیت اور فتنوں کی حالت
155- دُنیا کی بے ثباتی، پندو موعظت اور اعضاء و جوارح کی شہادت
156- بعثت پیغمبرﷺ کا تذکرہ، بنی اُمیّہ کے مظالم اور ان کا انجام
157- لوگوں کے ساتھ آپ کا حُسنِ سلوک اور ان کی لغزشوں سے چشم پوشی
158- خداوندِعالم کی توصیف ،خوف ورجاء، انبیاءؑ کی زندگی
159- دین اسلام کی عظمت اور دُنیا سے درس عبرت حاصل کرنے کی تعلیم
160- حضرتؑ کو خلافت سے الگ رکھنے کے وجوہ
161- اللہ کی توصیف، خلقت انسان اور ضروریات زندگی کی طرف رہنمائی
162- امیرالمومنینؑ کا عثمان سے مکالمہ اور ان کی دامادی پر ایک نظر
163- مور کی عجیب و غریب خلقت اور جنّت کے دلفریب مناظر
164- شفقت و مہربانی اور ظاہر و باطن کی تعلیم اور بنی امیہ کا زوال
165- حقوق و فرائض کی نگہداشت اور تمام معاملات میں اللہ سے خوف
166- جب لوگوں نے قاتلین عثمان سے قصاص لینے کی فرمائش کی تو فرمایا
167- جب اصحاب جمل بصرہ کی جانب روانہ ہوئے تو فرمایا
168- اہل بصرہ سے تحقیق حال کے لئے آنے والے شخص سے فرمایا
169- صفین میں جب دشمن سے دوبدو ہوکر لڑنے کا ارادہ کیا تو فرمایا
170- جب آپؑ پر حرص کا الزام رکھا گیا تو اس کی رد میں فرمایا
171- خلافت کا مستحق کون ہے اور ظاہری مسلمانوں سے جنگ کرنا
172- طلحہ بن عبیداللہ کے بارے میں فرمایا
173- غفلت کرنے والوں کو تنبیہ اور آپؑ کے علم کی ہمہ گیری
174- پند دو موعظت، قرآن کی عظمت اور ظلم کی اقسام
175- حکمین کے بارے میں فرمایا
176- خداوند عالم کی توصیف، دُنیا کی بے ثباتی اور اسباب زوال نعمت
177- جب پوچھا گیا کہ کیا آپؑ نے خدا کو دیکھا ہے تو فرمایا
178- اپنے اصحاب کی مذمت میں فرمایا
179- خوارج سے مل جانے کا تہیّہ کرنے والی جماعت سے فرمایا
180- خداوند عالم کی تنزیہ و تقدیس اور قدرت کی کا ر فرمائی
181- خداوند عالم کی توصیف، قرآن کی عظمت اور عذاب آخرت سے تخویف
182- جب «لا حکم الا اللہ» کا نعرہ لگایا گیا تو فرمایا
183- خداوند عالم کی عظمت و توصیف اور ٹڈی کی عجیب و غریب خلقت
184- مسائل الٰہیات کے بُنیادی اُصول کا تذکرہ
185- فتنوں کے ابھرنے اور رزقِ حلال کے ناپید ہو جانے کے بارے میں
186- خداوند عالم کے احسانات، مرنے والوں کی حالت اور بے ثباتی دنیا
187- پختہ اور متزلزل ایمان اور دعویٰ سلونی «قبل ان تفقدونی»
188- تقویٰ کی اہمیت، ہولناکی قبر، اللہ، رسول اور اہل بیت کی معرفت
189- خداوند عالم کی توصیف، تقویٰ کی نصیحت، دنیا اور اہل دنیا
190- (خطبہ قاصعہ) جس میں ابلیس کی مذمت ہے۔
191- متقین کے اوصاف اور نصیحت پذیر طبیعتوں پر موعظت کا اثر
192- پیغمبر ﷺکی بعثت، قبائلِ عرب کی عداوت اور منافقین کی حالت
193- خداوند عالم کی توصیف، تقویٰ کی نصیحت اور قیامت کی کیفیت
194- بعثتِ پیغمبرؐ کے وقت دنیا کی حالت، دنیا کی بے ثباتی
195- حضورﷺ کے ساتھ آپؑ کی خصوصیات اور حضور ﷺ کی تجہیز و تکفین
196- خداوند عالم کے علم کی ہمہ گیری، تقویٰ کے فوائد
197- نماز، زکوٰة اور امانت کے بارے میں فرمایا
198- معاویہ کی غداری و فریب کاری اور غداروں کا انجام
199- راہ ہدایت پر چلنے والوں کی کمی اور قوم ثمود کا تذکرہ
200- جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے دفن کے موقع پر فرمایا
201- دنیا کی بے ثباتی اور زاد آخرت مہیا کرنے کے لیے فرمایا
202- اپنے اصحاب کو عقبیٰ کے خطرات سے متنبہ کرتے ہوئے فرمایا
203- طلحہ و زبیر نے مشورہ نہ کرنے کا شکوہ کیا تو فرمایا
204- صفین میں شامیوں پر شب و ستم کیا گیا تو فرمایا
205- جب امام حسنؑ صفین کے میدان میں تیزی سے بڑھے تو فرمایا
206- صفین میں لشکر تحکیم کے سلسلہ میں سرکشی پر اُتر آیا تو فرمایا
207- علاء ابن زیاد حارثی کی عیادت کو موقع پر فرمایا
208- اختلاف احادیث کے وجوہ و اسباب اور رواة حدیث کے اقسام
209- خداوند عالم کی عظمت اور زمین و آسمان اور دریاؤں کی خلقت
210- حق کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لینے والوں کے بارے میں فرمایا
211- خداوند عالم کی عظمت اور پیغمبرؐ کی توصیف و مدحت
212- پیغمبرﷺ کی خاندانی شرافت اور نیکو کاروں کے اوصاف
213- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
214- حکمران اور رعیّت کے باہمی حقوق کے بارے میں فرمایا
215- قریش کے مظالم کے متعلق فر مایا اور بصرہ پر چڑھائی کے متعلق
216- طلحہ اور عبد الرحمن بن عتاب کو مقتول دیکھا تو فرمایا
217- متقی و پرہیزگار کے اوصاف
218- ”الہاکم التکاثر حتی زرتم المقابر“ کی تلاوت کے وقت فرمایا
219- ” رجال لا تلہیھم تجارة و لا بیع عن ذکر اللہ “ کی تلاوت کے وق
220- ” یا اٴیھا الانسان ما غرّک بربک الکریم “ کی تلاوت کے وقت فرم
221- ظلم و غصب سے کنارہ کشی، عقیل کی حالت فقر و احتیاج، اور اشعث
222- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
223- دنیا کی بے ثباتی اور اہل قبور کی حالت بے چارگی
224- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
225- انتشار و فتنہ سے قبل دنیا سے اٹھ جانے والوں کے متعلق فرمایا
226- اپنی بیعت کے متعلق فرمایا
227- تقویٰ کی نصیحت موت سے خائف رہنے اور زہد اختیار کرنے کے متعلق
228- جب بصرہ کی طرف روانہ ہوئے تو فرمایا
229- عبد اللہ ابن زمعہ نے آپؑ سے مال طلب کیا تو فرمایا
230- جب جعدہ ابن ہبیرہ خطبہ نہ دے سکے تو فرمایا
231- لوگوں کے اختلاف صورت و سیرت کی وجوہ و اسباب
232- پیغمبر ﷺ کو غسل و کفن دیتے وقت فرمایا
233- ہجرتِ پیغمبر ﷺ کے بعد اُن کے عقب میں روانہ ہونے کے متعلق
234- زادِ آخرت مہیا کرنے اور موت سے پہلے عمل بجا لانے کے متعلق
235- حکمین کے بارے میں فرمایا اور اہل شام کی مذمت میں فرمایا
236- آلِ محمدؑ کی توصیف اور روایت میں عقل و درایت سے کام لینا
237- جب عثمان نے ینبع چلے جانے کے لیے پیغام بھجوایا تو فرمایا
238- اصحاب کو آمادہ جنگ کرنے اور آرام طلبی سے بچنے کے لئے فرمایا

Quick Contact

جس نے طمع کو اپنا شعار بنایا اس نے اپنے کو سبک کیا۔ حکمت 2
(١٦٢) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۶۲)
لَمَّا اجْتَمَعَ النَّاسُ اِلَیْهِ وَ شَكَوْا مَا نَقَمُوْهُ عَلٰى عُثْمَانَ، وَ سَئَلُوْهُ مُخَاطَبَتَهٗ عَنْهُمْ وَ اسْتِعْتَابَهٗ لَهُمْ، فَدَخَلَ ؑ عَلَیْہِ فَقَالَ:
جب امیرالمومنین علیہ السلام کے پاس لوگ جمع ہو کر آئے اور عثمان کے متعلق جو باتیں انہیں بری معلوم ہوئی تھیں ان کا گلہ کیا اور چاہا کہ حضرتؑ ان کی طرف سے ان سے بات چیت کریں اور لوگوں کو رضا مند کرنے کا ان سے مطالبہ کریں۔ چنانچہ آپؑ تشریف لے گئے اور ان سے کہا کہ:
اِنَّ النَّاسَ وَرَآئِیْ، وَ قَدِ اسْتَسْفَرُوْنِیْ بَیْنَكَ وَ بَیْنَهُمْ، وَ وَاللهِ! مَاۤ اَدْرِیْ مَاۤ اَقُوْلُ لَكَ! مَاۤ اَعْرِفُ شَیْئًا تَجْهَلُهٗ، وَ لَا اَدُلُّكَ عَلٰۤی اَمْرٍ لَّا تَعْرِفُهٗ، اِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا نَعْلَمُ، مَا سَبَقْنَاكَ اِلٰی شَیْءٍ فَنُخْبِرَكَ عَنْهُ، وَ لَا خَلَوْنَا بِشَیْءٍ فَنُبَلِّغَكَهٗ، وَ قَدْ رَاَیْتَ كَمَا رَاَیْنَا، وَ سَمِعْتَ كَمَا سَمِعْنَا، وَ صَحِبْتَ رَسُوْلَ اللهِ -ﷺ كَمَا صَحِبْنَا.
لوگ میرے پیچھے (منتظر) ہیں اور مجھے اس مقصد سے تمہارے پاس بھیجا ہے کہ میں تمہارے اور ان کے قضیوں کو نپٹاؤں۔ خدا کی قسم! [۱] میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں تم سے کیا کہوں جب کہ میں (اس سلسلہ میں) ایسی کوئی بات نہیں جانتا کہ جس سے تم بے خبر ہو اور نہ کوئی ایسی چیز بتانے والا ہوں کہ جس کا تمہیں علم نہ ہو۔ جو تم جانتے ہو وہ ہم جانتے ہیں۔ نہ تم سے پہلے ہمیں کسی چیز کی خبر تھی کہ تمہیں بتائیں اور نہ علیحدگی میں کچھ سنا ہے کہ تم تک پہنچائیں۔ جیسے ہم نے دیکھا ویسے تم نے بھی دیکھا اور جس طرح ہم نے سنا تم نے بھی سنا۔ جس طرح ہم رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں رہے تم بھی رہے۔
وَ مَا ابْنُ اَبِیْ قُحَافَةَ وَ لَا ابْنُ الْخَطَّابِ بِاَوْلٰی بِعَمَلِ الْحَقِّ مِنْكَ، وَ اَنْتَ اَقْرَبُ اِلٰی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ- وَشِیْجَةَ رَحِمٍ مِّنْهُمَا، وَ قَدْ نِلْتَ مِنْ صِهْرِهٖ مَا لَمْ یَنَالَا.
اور حق پر عمل پیرا ہونے کی ذمہ داری ابن ابی قحافہ اور ابن خطاب پر اس سے زیادہ نہ تھی جتنی کہ تم پر ہونا چاہیے اور تم تو رسول ﷺ سے خاندانی قرابت کی بنا پر ان دونوں سے قریب تر بھی ہو اور ان کی ایک طرح کی دامادی بھی تمہیں حاصل ہے کہ جو انہیں حاصل نہ تھی۔
فَاللهَ اللهَ فِیْ نَفْسِكَ! فَاِنَّكَ ـ وَاللهٖ ـ مَا تُبَصَّرُ مِنْ عَمًی، وَ لَا تُعَلَّمُ مِنْ جَهْلٍ، وَ اِنَّ الْطُّرُقَ لَوَاضِحَةٌ، وَ اِنَّ اَعْلَامَ الدِّیْنِ لَقَآئِمَةٌ.
کچھ اپنے دل میں اللہ کا بھی خوف کرو۔ خدا کی قسم! اس لئے تمہیں سمجھایا نہیں جا رہا ہے کہ تمہیں کچھ نظر آ نہ سکتا ہو اور نہ اس لئے یہ چیزیں تمہیں بتائی جا رہی ہیں کہ تمہیں علم نہ ہو اور (لاعلمی کے کیا معنی) جب کہ شریعت کی راہیں واضح اور دین کے نشانات قائم ہیں۔
فَاعْلَمْ اَنَّ اَفْضَلَ عِبَادِ اللهِ عِنْدَ اللهِ اِمَامٌ عَادِلٌ، هُدِیَ وَ هَدٰی، فَاَقَامَ سُنَّةً مَّعْلُوْمَةً، وَ اَمَاتَ بِدْعَةً مَّجْهُوْلَةً، وَ اِنَّ السُّنَنَ لَـنَیِّرَةٌ لَّهَاۤ اَعْلَامٌ، وَ اِنَّ الْبِدَعَ لَـظَاهِرَةٌ لَّهَاۤ اَعْلَامٌ، وَ اِنَّ شَرَّ النَّاسِ عِنْدَ اللهِ اِمَامٌ جَآئِرٌ ضَلَّ وَ ضُلَّ بِهٖ، فَاَمَاتَ سُنَّةً مَّاْخُوْذَةً، وَ اَحْیَا بِدْعَةً مَّتْرُوْكَةً.
یاد رکھو کہ اللہ کے نزدیک سب بندوں سے بہتر وہ انصاف پرور حاکم ہے جو خود بھی ہدایت پائے اور دوسروں کو بھی ہدایت کرے اور جانی پہچانی ہوئی سنت کو مستحکم کرے اور انجانی بدعتوں کو فنا کرے۔ سنتوں کے نشانات جگمگا رہے ہیں اور بدعتوں کی علامتیں بھی واضح ہیں اور اللہ کے نزدیک سب لوگوں سے بدتر وہ ظالم حکمران ہے جو گمراہی میں پڑا رہے اور دوسرے بھی اس کی وجہ سے گمراہی میں پڑیں اور (رسولؐ سے) حاصل کی ہوئی سنتوں کو تباہ اور قابل ترک بدعتوں کو زندہ کرے۔
وَ اِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ -ﷺ- یَقُوْلُ: «یُؤْتٰی یَوْمَ الْقِیٰمَةِ بِالْاِمَامِ الْجَآئِرِ وَ لَیْسَ مَعَهٗ نَصِیْرٌ وَّ لَا عَاذِرٌ، فَیُلْقٰی فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ، فَیَدُوْرُ فِیْهَا كَمَا تَدُوْرُ الرَّحٰی، ثُمَّ یَرْتَبِطُ فِیْ قَعْرِهَا».
میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا کہ انہوں نے فرمایا کہ: «قیامت کے دن ظالم کو اس طرح لایا جائے گا کہ نہ اس کا کوئی مددگار ہو گا اور نہ کوئی عذر خواہ اور اسے (سیدھا) جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور وہ اس میں اس طرح چکر کھائے گا جس طرح چکی گھومتی ہے اور پھر اسے جہنم کے گہراؤ میں جکڑ دیا جائے گا»۔
وَ اِنِّیْۤ اُنْشِدُكَ اللهَ اَنْ لَّا تَكُوْنَ اِمَامَ هٰذِهِ الْاُمَّةِ الْمَقْتُوْلَ، فَاِنَّهٗ كَانَ یُقَالُ: یُقْتَلُ فِیْ هٰذِهِ الْاُمَّةِ اِمَامٌ یَّفْتَحُ عَلَیْهَا الْقَتْلَ وَ الْقِتَالَ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَةِ، وَ یَلْبِسُ اُمُوْرَهَا عَلَیْهَا، وَ یَبُثُّ الْفِتَنَ فِیْهَا، فَلَا یُبْصِرُوْنَ الْحَقَّ مِنَ الْبَاطِلِ، یَمُوْجُوْنَ فِیْهَا مَوْجًا، وَ یَمْرُجُوْنَ فِیْهَا مَرْجًا. فَلَا تَكُوْنَنَّ لِمَرْوَانَ سَیِّقَةً یَّسُوْقُكَ حَیْثُ شَآءَ بَعْدَ جَلَالِ السِّنِّ وَ تَقَضِّی الْعُمُرِ.
میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ تم اس اُمت کے وہ سربراہ نہ بنو کہ جسے قتل ہی ہونا ہے۔ چونکہ کہا گیا ہے کہ اس اُمت میں ایک ایسا حاکم مارا جائے گا جو اس کیلئے قیامت تک قتل و خون ریزی کا دروازہ کھول دے گا اور اس کے تمام امور کو اشتباہ میں ڈال دے گا اور اس میں فتنوں کو پھیلائے گا کہ وہ لوگ حق کو باطل سے الگ کرکے نہ دیکھ سکیں گے اور وہ فتنوں میں (دریا کی) موجوں کی طرح الٹے پلٹے کھائیں گے اور انہی میں تہ و بالا ہوتے رہیں گے۔ تم مروان کی سواری نہ بن جاؤ کہ وہ تمہیں جہاں چاہے کھینچتا پھرے، جبکہ تم سن رسیدہ بھی ہو چکے ہو اور عمر بھی بیت چکی ہے۔
فَقَالَ لَهٗ عُثْمَانُ: كَلِّمِ النَّاسَ فِیْۤ اَنْ یُّؤَجِّلُوْنِیْ حَتّٰۤی اَخْرُجَ اِلَیْهِمْ مِن مَّظَالِمِهِمْ، فَقالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ:
حضرت عثمان نے کہا کہ: آپؑ ان لوگوں سے بات کریں کہ وہ مجھے (کچھ عرصہ کیلئے) مہلت دیں کہ میں ان کی حق تلفیوں سے عہدہ برآ ہو سکوں۔ تو آپؑ نے فرمایا کہ:
مَاكَانَ بِالْمَدِیْنَةِ فَلَاۤ اَجَلَ فِیْهِ، وَ مَا غَابَ فَاَجَلُهٗ وُصُوْلُ اَمْرِكَ اِلَیْهِ.
جن چیزوں کا تعلق مدینہ سے ہے ان میں تو کوئی مہلت کی ضرورت نہیں۔ البتہ جو جگہیں نگاہوں سے اوجھل (اور دور) ہیں ان کیلئے اتنی مہلت ہوسکتی ہے کہ تمہارا فرمان وہاں تک پہنچ جائے۔

۱؂حضرت عثمان کے دور خلافت میں جب حکومت اور اس کے کارندوں کے ستائے ہوئے مسلمان اکابر صحابہ تک اپنی فریاد پہنچانے کیلئے مدینہ میں سمٹ آئے تو پر امن طریق کار اختیار کرتے ہوئے امیر المومنین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے خواہش کی کہ وہ حضرت عثمان سے مل کر انہیں سمجھائیں بجھائیں کہ وہ مسلمانوں کے حقوق پامال نہ کریں اور ان فتنوں کا سدّ باب کریں جو رعیت کیلئے تباہی کا باعث بن رہے ہیں۔ جس پر حضرتؑ ان کے ہاں تشریف لے گئے اور اس موقع پر یہ کلام ارشاد فرمایا۔
امیر المومنین علیہ السلام نے موعظت کی تلخیوں کو خوشگوار بنانے کیلئے تمہید میں وہ لب و لہجہ اختیار کیا ہے جو اشتعال دلانے کے بجائے ان میں ذمہ داری کا احساس پیدا کرے اور فرائض کی جانب متوجہ کرے، چنانچہ ان کی صحابیت، شخصی اہمیت اور شیخین کے مقابلہ میں پیغمبر ﷺ سے ان کی خاندانی قرابت کو ظاہر کرنے سے اسی فرض شناسی کی طرف متوجہ کرنا مقصود ہے ورنہ ظاہر ہے کہ یہ موقعہ ان کی مدح سرائی کا نہ تھا کہ آخر کلام سے آنکھیں بند کر کے اسے قصیدۂ شرف سمجھ لیا جائے، جبکہ اس تمہید سے صرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ جو کچھ کرتے تھے جان بوجھ کر کرتے تھے۔ ایسا نہ تھا کہ انہیں علم و اطلاع نہ ہو اور لاعلمی کی بنا پر ان کی لغزشوں کو قابل مواخذہ نہ سمجھا جائے۔ ہاں! اگر رسول اللہ ﷺ کی صحبت میں رہنے، ان کی تعلیمات کو سننے، ان کے طرز عمل کو دیکھنے اور اسلامی احکام پر مطلع ہونے کے بعد ایسا طور طریقہ اختیار کرنا کہ جس سے دنیائے اسلام چیخ اٹھے کوئی فضیلت ہے تو پھر اس تعریض کو بھی مدح سمجھا جا سکتا ہے۔ اگر وہ فضیلت نہیں ہے تو پھر اسے بھی مدح نہیں کہا جا سکتا، حالانکہ جن لفظوں کو مدح سمجھ کر پیش کیا جاتا ہے وہ ان کے جرم کی سنگینی ثابت کرنے کیلئے ہیں، کیونکہ بے خبری و لاعلمی میں جرم اتنا سنگین نہیں ہوتا جتنا جانتے بوجھتے ہوئے جرم کا ارتکاب اس کے وزن کو بڑھا دیتا ہے۔ چنانچہ اگر راستے کے نشیب و فراز سے ناواقف شخص گھپ اندھیرے میں ٹھوکر کھائے تو اسے معذور سمجھ لیا جاتا ہے اور اگر راستے کے گڑھوں سے واقف دن کے اُجالے میں ٹھوکر کھائے تو اسے سرزنش کے قابل سمجھا جاتا ہے اور اگر اس موقع پر اس سے یہ کہا جائے کہ تم آنکھیں بھی رکھتے ہو، راستے کی اونچ نیچ سے بھی واقف ہو، تو اس کے معنی یہ نہیں ہوتے کہ اس کی وسعت علمی و روشنی چشم کو سراہا جا رہا ہے، بلکہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس نے آنکھوں کے ہوتے ہوئے پھر راستے کے گڑھوں کو نہ دیکھا اور جاننے بوجھنے کے باوجود پھر سنبھل کر نہ چلا۔ لہٰذا آنکھوں کا ہونا نہ ہونا برابر اور جاننا نہ جاننا یکساں ہے۔
اس سلسلہ میں ان کی دامادی پر بڑا زور دیا جاتا ہے کہ پیغمبر ﷺ نے اپنی دو صاحبزادیوں رقیہ و اُمّ کلثوم کا عقد یکے بعد دیگرے ان سے کیا۔ اس کو وجہ شرف ماننے سے قبل یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ دامادی عثمان کی نوعیت کیا ہے۔ تاریخ اس کی شہادت دیتی ہے کہ اس میں اولیت کا شرف حضرت عثمان کو حاصل نہ تھا بلکہ ان سے قبل رقیہ و اُمّ کلثوم ابو لہب کے بیٹوں عتبہ و عتیبہ سے منسوب تھیں، مگر ان کو باوجود پہلا داماد ہونے کے قبل از بعثت کے صاحبان شرف میں بھی اب تک شمار نہیں کیا گیا تو یہاں کسی جوہر ذاتی کے بغیر اس نسبت کو کس بنا پر سرمایہ افتخار سمجھا جا سکتا ہے، جب کہ اس رشتہ کی اہمیت کے متعلق نہ کوئی سند ہے اور نہ اس ماحول میں اس طرف کوئی توجہ پائی جاتی تھی کہ یہ کہا جائے کہ کسی اہم ترین عظمت کی مالک شخصیت اور ان میں معاملہ دائر تھا، پھر یہ منتخب ہو کر یہ شرف پا گئے۔ یا یہ کہ ان دونوں بیٹیوں کو تاریخ و حدیث و سیر میں کسی کرداری شخصیت کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہو جس کی وجہ سے اس رشتہ کو خاص اہمیت دے کر ان کیلئے طرۂ امتیاز قرار دیا جائے۔ اگر قبل بعثت عتبہ و عتیبہ سے ان کا بیاہا جانا اس بنا پر صحیح سمجھا جاتا ہے کہ اس وقت مشرکین کے ساتھ عقد کی حرمت کا سوال پیدا نہ ہوتا تھا تو یہاں پر بھی صحت عقد کیلئے صرف ظاہری اسلام کی شرط تھی اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہوں نے زبان سے اقرار شہادتین بھی کیا اور بظاہر ایمان بھی لائے۔ لہٰذا اس عقد کو صرف ظاہر اسلام کی دلیل تو قرار دیا جا سکتا ہے، اس کے علاوہ اور کسی امتیاز کو اس کے ذریعہ ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ پھر یہی کہاں مسلم ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کی صلبی بیٹیاں تھیں جب کہ ایک طبقہ ان کے صلب رسولؐ سے ہونے سے انکار کرتا ہے اور وہ انہیں حضرت خدیجہ الکبریٰ سلام اللہ علیہا کی بہن ہالہ کی اولاد یا ان کے پہلے شوہر کی اولاد قرار دیتا ہے۔ چنانچہ ابوالقاسم الکوفی متوفی ۳۵۲ھ تحریر فرماتے ہیں:
فَلَمَّا تَزَوَّجَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بِخَدِيْجَةَ مَاتَتْ هَالَةُ بَعْدَ ذٰلِكَ بِمُدَّةٍ يَّسِيْرَةٍ وَّ خَلَّفَتْ الطِّفْلَتَيْنِ زَيْنَبَ وَ رُقَيَّةَ فِیْ حِجْرِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ وَ حِجْرِ خَدِيَجَةَ فَرَبَّيَاهُمَا، وَ كَانَ مِنْ سُنَّةِ الْعَرَبِ فِی الْجَاهِلِيَّةِ مَنْ يُّرَبِّیْ يَتِيْمًا يُّنْسَبُ ذٰلِكَ الْيَتِيْمُ اِلَيْهِ.
جب رسول اللہ ﷺ نے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا سے عقد کیا تو اس کے تھوڑے عرصہ بعد ہالہ کا انتقال ہو گیا اور اس نے دو لڑکیاں چھوڑیں: ایک کا نام زینب تھا اور ایک کا نام رقیہ اور ان دونوں نے پیغمبر ﷺ اور خدیجہؑ کی گود میں پرورش پائی اور انہی نے ان کی تربیت کی اور اسلام سے قبل یہ دستور تھا کہ اگر کوئی یتیم بچہ کسی کی گود میں پرورش پاتا تھا تو اسے اسی کی طرف منسوب کیا جاتا تھا۔ (کتاب ’’الاستغاثۃ‘‘، ص۶۹)
اور ابن ہشام نے حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی اولاد کے سلسلہ میں تحریر فرمایا ہے کہ:
وَكَانَتْ قَبْلَهٗ عِنْدَ اَبِیْ هَالَةَ بْنِ مَالِكٍ... فَوَلَدَتْ لَهٗ هِنْدَ بْنَ اَبِیْ هَالَةَ وَ زَيْنَبَ بِنْتَ اَبِیْ هَالَةَ وَ كَانَتْ قَبْلَ اَبِیْ هَالَةَ عِنْدَ عَتِيْقِ بْنِ عَآئِذِ بْنِ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ مَخْزُوْمٍ، فَوَلَدَتْ لَهٗ عَبْدَ اللّٰهِ وَ جَارِيَةً.
حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا رسول اللہ ﷺ کے حبالہ عقد میں آنے سے پہلے ابی ہالہ بن مالک کی زوجیت میں تھیں جس سے ایک لڑکا ہند اور ایک لڑکی زینب پیدا ہوئی اور ابی ہالہ سے قبل عتیق ابن عائذ کے عقد میں تھیں جس سے ایک لڑکا اور ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ (سیرت ابن ہشام، ج۴، ص۲۹۳)
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا کی دو لڑکیاں عقد رسولؐ میں آنے سے پہلے موجود تھیں جو حسب ظاہر رسول اللہ ﷺ ہی کی بیٹیاں کہلائیں گی اور وہ جن سے بھی بیاہی جائیں گی وہ پیغمبر ﷺ کے داماد ہی کہلائیں گے، لیکن دامادی کی حیثیت وہی ہو گی جو ان لڑکیوں کے بیٹی ہونے کی ہو سکتی ہے۔ لہٰذا اسے محل افتخار میں پیش کرنے سے پہلے ان بیٹیوں کی حیثیت کو دیکھ لینا چاہیے اور حضرت عثمان کے رویہ پر بھی ایک نظر کر لینا چاہیے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں امام بخاری اپنی صحیح میں یہ روایت درج کرتے ہیں:
عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ:شَهِدْنَا بِنْتًا لِّرَسُوْلِ اللّٰهِ ﷺ ، قَالَ: وَ رَسُوْلُ اللّٰهِ ﷺ جَالِسٌ عَلَى الْقَبْرِ، قَالَ: فَرَاَيْتُ عَيْنَيْهِ تَدْمَعَانِ، قَالَ: فَقَالَ: « هَلْ مِنْكُمْ رَجُلٌ لَّمْ يُقَارِفِ اللَّيْلَةَ؟» فَقَالَ اَبُوْ طَلْحَةَ: اَنَا، قَالَ: «فَانْزِلْ» قَالَ: فَنَزَلَ فِیْ قَبْرِهَا.
انس ابن مالک سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ: ہم دختر رسولؐ کے دفن کے موقع پر موجود تھے۔ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ قبر پر بیٹھے ہوئے ہیں اور آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ: ’’کون تم میں ایسا ہے جو آج کی رات ہم بستر نہ ہوا ہو‘‘۔ ابو طلحہ نے کہا کہ: میں، حضرتؐ نے فرمایا کہ: ’’پھر تم قبر میں اترو‘‘۔ چنانچہ وہ قبر میں اترے۔
(صحیح بخاری، ج۱، ص۲۳۲)
اس موقع پر پیغمبر اکرم ﷺ نے حضرت عثمان کے راز درون پردہ کو بے نقاب کر کے انہیں قبر میں اترنے سے روک دیا، حالانکہ پیغمبرؐ کی سیرت کا یہ نمایاں جوہر تھا کہ وہ کسی کے اندرونی حالات کو طشت از بام کر کے اس کی ہتک و اہانت گوارا نہ کرتے تھے اور دوسروں کے عیوب پر مطلع ہونے کے باوجود چشم پوشی فرما جاتے تھے مگر یہ کردار کا گھنونا پن کچھ ایسا تھا کہ بھرے مجمع میں انہیں رسوا کرنا ضروری سمجھا گیا۔