وہ گناہ جس کا تمہیں رنج ہو اللہ کے نزدیک اس نیکی سے کہیں اچھا ہے جو تمہیں خود پسند بنا دے۔ حکمت 46
(٥٦) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۵۶)
وَ لَقَدْ كُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ، نَقْتُلُ اٰبَآئَنَا وَ اَبْنَآئَنَا وَ اِخْوَانَنَا وَ اَعْمَامَنَا، مَا یَزِیْدُنَا ذٰلِكَ اِلَّاۤ اِیْمَانًا وَّ تَسْلِیْمًا، وَ مُضِیًّا عَلَی اللَّقَمِ، وَ صَبْرًا عَلٰی مَضَضِ الْاَلَمِ، وَ جِدًّا فِیْ جِهَادِ الْعَدُوِّ، وَ لَقَدْ كَانَ الرَّجُلُ مِنَّا وَ الْاٰخَرُ مِنْ عَدُوِّنا یَتَصَاوَلَانِ تَصَاوُلَ الْفَحْلَیْنِ، یَتَخَالَسَانِ اَنْفُسَهُمَا: اَیُّهُمَا یَسْقِیْ صَاحِبَهٗ كَاْسَ الْمَنُوْنِ، فَمَرَّةً لَّنَا مِنْ عَدُوِّنَا، وَ مَرَّةً لِّعَدُوِّنَا مِنَّا، فَلَمَّا رَاَی اللهُ صِدْقَنَا اَنْزَلَ بِعَدُوِّنَا الْكَبْتَ، وَ اَنْزَلَ عَلَیْنَا النَّصْرَ، حَتَّی اسْتَقَرَّ الْاِسْلَامُ مُلْقِیًا جِرَانَهٗ وَ مُتَبَوِّئًا اَوْطَانَهٗ، وَ لَعَمْرِیْ! لَوْ كُنَّا نَاْتِیْ مَاۤ اَتَیْتُمْ، مَا قَامَ لِلدِّیْنِ عَمُوْدٌ، وَ لَا اخْضَرَّ لِلْاِیْمَانِ عُوْدٌ. وَ اَیْمُ اللهِ لَتَحْتَلِبُنَّهَا دَمًا، وَ لَتُتْبِعُنَّهَا نَدَمًا!
ہم (مسلمان) رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ہو کر اپنے باپ، بیٹوں، بھائیوں اور چچاؤں کو قتل کرتے تھے۔ اس سے ہمارا ایمان بڑھتا تھا، اطاعت اور راہ حق کی پیروی میں اضافہ ہوتا تھا اور کرب و الم کی سوزشوں پر صبر میں زیادتی ہوتی تھی اور دشمنوں سے جہاد کرنے کی کوششیں بڑھ جاتی تھیں۔ (جہاد کی صورت یہ تھی کہ) ہم میں کا ایک شخص اور فوجِ دشمن کا کوئی سپاہی، دونوں مَردوں کی طرح آپس میں بھڑتے تھے اور جان لینے کیلئے ایک دوسرے پر جھپٹے پڑتے تھے کہ کون اپنے حریف کو موت کا پیالہ پلاتا ہے، کبھی ہماری جیت ہوتی تھی اور کبھی ہمارے دشمن کی۔ چنانچہ جب خداوند عالم نے ہماری (نیتوں کی) سچائی دیکھ لی تو اس نے ہمارے دشمنوں کو رسوا و ذلیل کیا اور ہماری نصرت و تائید فرمائی، یہاں تک کہ اسلام سینہ ٹیک کر اپنی جگہ پر جم گیا اور اپنی منزل پر برقرار ہو گیا۔ خدا کی قسم! اگر ہم بھی تمہاری طرح کرتے تو نہ کبھی دین کا ستون گڑتا اور نہ ایمان کا تنا برگ و بار لاتا۔ خدا کی قسم! تم اپنے کئے کے بدلے میں (دودھ کے بجائے) خون دوہو گے اور آخر تمہیں ندامت و شرمندگی اٹھانا پڑے گی۔ [۱]
۱جب محمد ابن ابی بکر شہید کر دیئے گئے تو معاویہ نے عبد اللہ ابنِ عامر حضرمی کو بصرہ کی طرف بھیجاتا کہ اہلِ بصرہ کو پھر سے قتلِ عثمان کے انتقام کیلئے آمادہ کرے۔ چونکہ بیشتر اہالی بصرہ اور خصوصاً بنی تمیم کا طبعی رجحان حضرت عثمان کی طرف تھا۔ چنانچہ وہ بنی تمیم ہی کے ہاں آ کر فروکش ہوا۔ یہ زمانہ وہ تھا کہ والی بصرہ عبد اللہ ابن عباس، زیاد ابنِ عبید کو قائم مقام بنا کر محمد ابن ابی بکر کی تعزیت کیلئے کوفہ گئے ہوئے تھے۔
جب بصرہ کی فضا بگڑنے لگی تو زیاد نے امیر المومنین علیہ السلام کو تمام واقعات سے اطلاع دی۔ حضرتؑ نے کوفہ کے بنی تمیم کو بصرہ کیلئے آمادہ کرنا چاہا، مگر انہوں نے چپ سادھ لی اور کوئی جواب نہ دیا۔ امیر المومنین علیہ السلام نے جب ان کی اس کمزوری و بے حمیتی کو دیکھا تو یہ خطبہ ارشاد فرمایا کہ: ہم تو پیغمبر ﷺ کے زمانہ میں یہ نہیں دیکھتے تھے کہ ہمارے ہاتھوں سے قتل ہونے والے ہمارے ہی بھائی بند اور قریبی عزیز ہوتے ہیں، بلکہ جو حق سے ٹکراتا تھا ہم اس سے ٹکرانے کیلئے تیار ہو جاتے تھے اور اگر ہم بھی تمہاری طرح غفلت و بے عملی کی راہ پر چلتے تو نہ دین کی بنیادیں مضبوط ہوتیں اور نہ اسلام پروان چڑھتا۔ چنانچہ اس جھنجھوڑنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ اعین ابن صبیعہ تیار ہوئے۔ مگر وہ بصرہ پر پہنچ کر دشمنوں کی تلواروں سے شہید ہو گئے۔ پھر حضرت نے جاریہ ابن قدامہ کو بنی تمیم کے پچاس افراد کے ساتھ روانہ کیا۔ انہوں نے اپنے قوم قبیلے کو سمجھانے بجھانے کی سر توڑ کوششیں کیں مگر وہ راہ راست پر آنے کے بجائے گالم گلوچ اور دست درازی پر اتر آئے تو جاریہ نے زیاد اور بنی ازد کو اپنی مدد کیلئے پکارا۔ ان کے پہنچتے ہی ابن حضرمی بھی اپنی جماعت کو لے کر نکل آیا۔ دونوں طرف سے کچھ دیر تک تلواریں چلتی رہیں۔ آخر ابن حضرمی ستر آدمیوں کے ساتھ بھاگ کھڑا ہوا اور سبیل سعدی کے گھر میں پناہ لی۔ جاریہ کو جب کوئی چارہ نظر نہ آیا تو انہوں نے اس کے گھر میں آگ لگوا دی۔ جب آگ کے شعلے بلند ہوئے، تو وہ سراسیمہ ہو کر بچنے کیلئے ہاتھ پیر مارنے لگے مگر فرار میں کامیاب نہ ہو سکے کچھ دیوار کے نیچے دب کر مر گئے اور کچھ قتل کر دیئے گئے۔↑