خوشا نصیب اس کے جس نے آخرت کو یاد رکھا، حساب و کتاب کیلئے عمل کیا، ضرورت بھر پر قناعت کی اور اللہ سے راضی و خوشنود رہا۔ حکمت 44
(٢٩) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۲۹)
اَیُّهَا النَّاسُ! الْمُجْتَمِعَةُ اَبْدَانُهُمْ، الْمُخْتَلِفَةُ اَهْوَآءُهُمْ، كَلَامُكُمْ یُوْهِی الصُّمَّ الصِّلَابَ، وَ فِعْلُكُمْ یُطْمِـعُ فِیْكُمُ الْاَعْدَآءَ! تَقُوْلُوْنَ فِی الْمَجَالِسِ: كَیْتَ وَ كَیْتَ، فَاِذَا جَآءَ الْقِتَالُ قُلْتُمْ: حِیْدِیْ حَیَادِ! مَا عَزَّتْ دَعْوَةُ مَنْ دَعَاكُمْ، وَ لَا اسْتَرَاحَ قَلْبُ مَنْ قَاسَاكُمْ، اَعَالِیْلُ بِاَضَالِیْلَ، سَئَلْتُمُوْنِی التَّطْوِیْلَ، دِفَاعَ ذِی الدَّیْنِ الْمَطُوْلِ، لَا یَمْنَعُ الضَّیْمَ الذَّلِیْلُ! وَلَا یُدْرَكُ الْحَقُّ اِلَّا بِالْجِدِّ!.
اے وہ لوگو جن کے جسم یکجا اور خواہشیں جُدا جُدا ہیں۔ تمہاری باتیں تو سخت پتھروں کو بھی نرم کر دیتی ہیں اور تمہارا عمل ایسا ہے کہ جو دشمنوں کو تم پر دندان آز تیز کرنے کا موقعہ دیتا ہے۔ اپنی مجلسوں میں تو تم کہتے پھرتے ہو کہ یہ کر دیں گے اور وہ کر دیں گے اور جب جنگ چھڑ ہی جاتی ہے تو تم اس سے پناہ مانگنے لگتے ہو۔ جو تم کو مدد کیلئے پکارے اس کی صدا بے وقعت اور جس کا تم جیسے لوگوں سے واسطہ پڑا ہو اس کا دل ہمیشہ بے چین ہے۔ حیلے حوالے ہیں غلط سلط اور مجھ سے جنگ میں تاخیر کرنے کی خواہشیں ہیں، جیسے نادہندہ مقروض اپنے قرض خواہ کو ٹالنے کی کوشش کرتا ہے۔ ذلیل آدمی ذلت آمیز زیادتیوں کی روک تھام نہیں کر سکتا اور حق تو بغیر کوشش کے نہیں ملا کرتا۔
اَیَّ دَارٍ بَعْدَ دَارِكُمْ تَمْنَعُوْنَ؟ وَ مَعَ اَیِّ اِمَامٍ بَعْدِیْ تُقَاتِلُوْنَ؟ الْمَغْرُوْرُ ــ وَاللهِ ــ مَنْ غَرَرْتُمُوْهُ، وَ مَنْ فَازَ بِكُمْ فَقَدْ فَازَ ــ وَ اللّٰهِ ــ بِالسَّهْمِ الْاَخْیَبِ، وَمَنْ رَّمٰی بِكُمْ فَقَدْ رَمٰى بِاَفْوَقَ نَاصِلٍ.
اس گھر کے بعد اور کون سا گھر ہے جس کی حفاظت کرو گے؟ اور میرے بعد اور کس امام کے ساتھ ہو کر جہاد کرو گے؟ خدا کی قسم! جسے تم نے دھوکا دے دیا ہو اس کے فریب خوردہ ہونے میں کوئی شک نہیں اور جسے تم جیسے لوگ ملے ہوں تو اس کے حصہ میں وہ تیر آتا ہے جو خالی ہوتا ہے اور جس نے تم کو (تیروں کی طرح) دشمنوں پر پھینکا ہو اس نے گویا ایسا تیر پھینکا ہے جس کا سوفار ٹوٹ چکا ہو اور پیکان بھی شکستہ ہو۔
اَصْبَحْتُ وَاللهِ! لَاۤ اُصَدِّقُ قَوْلَكُمْ، وَ لَاۤ اَطْمَعُ فِیْ نَصْرِكُمْ، وَ لَاۤ اُوْعِدُ الْعَدُوَّ بِكُمْ. مَا بَالُكُمْ؟ مَا دَوَاۗؤُكُمْ؟ مَا طِبُّكُمْ؟ اَلْقَوْمُ رِجَالٌ اَمْثَالُكُمْ، اَ قَوْلًۢا بِغَیْرِ عِلْمٍ! وَ غَفْلَةً مِّنْ غَیْرِ وَرَعٍ! وَ طَمَعًا فِیْ غَیْرِ حَقٍّ؟!.
خدا کی قسم! میری کیفیت تو اب یہ ہے کہ نہ میں تمہاری کسی بات کی تصدیق کر سکتا ہوں اور نہ تمہاری نصرت کی مجھے آس باقی رہی ہے اور نہ تمہاری وجہ سے دشمن کو جنگ کی دھمکی دے سکتا ہوں۔ تمہیں کیا ہو گیا؟ تمہارا مرض کیا ہے؟ اور اس کا چارہ کیا ہے؟ اس قوم (اہل شام) کے افراد بھی تو تمہاری ہی شکل و صورت کے مرد ہیں۔ کیا باتیں ہی باتیں رہیں گی، جانے بُوجھے بغیر؟ اور صرف غفلت و مدہوشی ہے، تقویٰ و پرہیزگاری کے بغیر؟ (بلندی کی) حرص ہی حرص ہے، مگر بالکل ناحق؟۔ [۱]
۱جنگ نہروان کے بعد معاویہ نے ضحاک ابن قیس فہری کو چار ہزار کی جمعیت کے ساتھ اطرافِ کوفہ میں اس مقصد سے بھیجا کہ وہ ان نواح میں شورش و انتشار پھیلائے اور جسے پائے اسے قتل کر دے اور جہاں تک ہو سکے قتل و غارت کا بازار گرم کرے تا کہ امیر المومنین علیہ السلام سکون و اطمینان سے نہ بیٹھ سکیں۔ چنانچہ وہ اس مقصد کو سر انجام دینے کیلئے روانہ ہوا اور بے گناہوں کے خون بہاتا ہوا اور ہر طرف تباہی مچاتا ہوا مقام ثعلبیہ تک پہنچ گیا۔ یہاں پر حجاج کے ایک قافلہ پر حملہ کیا اور ان کا سارا مال و اسباب لوٹ لیا اور پھر مقامِ قطقطانہ پر صحابی رسول عبد اللہ ابن مسعود کے بھتیجے عمرو ابن عمیس اور اس کے ساتھیوں کو تہ تیغ کر دیا اور یونہی ہر جگہ وحشت و خونخواری شروع کر دی۔
امیر المومنین علیہ السلام کو جب ان غارت گریوں کا علم ہوا تو آپؑ نے اپنے ساتھیوں کو جنگ کیلئے بلایا تا کہ ان درندگیوں کی روک تھام کی جائے۔ مگر لوگ جنگ سے پہلو بچاتے ہوئے نظر آئے۔ آپؑ ان لوگوں کی سست قدمی و بد دلی سے متاثر ہو کر منبر پر تشریف لے گئے اور یہ خطبہ ارشاد فرمایا جس میں ان لوگوں کو غیرت دلائی ہے کہ وہ بزدلوں کی طرح جنگ سے بچنے کی کوشش نہ کریں اور اپنے ملک کی حفاظت کیلئے جوانمردوں کی طرح اُٹھ کھڑے ہوں اور غلط سلط حیلے حوالوں سے کام نہ لیں۔ آخر حجر ابن عدی کندی چار ہزار کی جمعیت کے ساتھ دشمن کی سرکوبی کیلئے اُٹھ کھڑے ہوئے اور مقام تدمر پر اسے جا لیا۔ ابھی دونوں فریق میں معمولی سی جھڑپ ہوئی تھی کہ رات کا اندھیرا پھیلنے لگا اور وہ صرف انیس آدمی کٹوا کر بھاگ کھڑا ہوا۔ امیر المومنین علیہ السلام کی فوج میں سے بھی دو آدمیوں نے جام شہادت پیا۔↑