اللہ نے تمہارے مرض کو تمہارے گناہوں کو دور کرنے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ حکمت 42
(١١٩) وَ مِنْ کَلَامٍ لَّهٗ عَلَيْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۱۹)
وَ قَدْ قَامَ اِلَيْهِ رَجُلٌ مِّنْ اَصْحَابِهٖ، فَقَالَ: نَهَيْتَنَا عَنِ الْحُكُوْمَةِ ثُمَّ اَمَرْتَنَا بِهَا، فَمَا نَدْرِیْۤ اَیُّ الْاَمْرَيْنِ اَرْشَدُ؟ فَصَفَّقَ ؑ اِحْدٰی يَدَيْهِ عَلَى الْاُخْرٰى، ثُمَّ قَالَ:
حضرتؑ کے اصحاب میں سے ایک شخص اٹھ کر آپؑ کے سامنے آیا اور کہا کہ: یا امیر المومنینؑ! پہلے تو آپؑ نے ہمیں تحکیم سے روکا اور پھر اس کا حکم بھی دے دیا، نہیں معلوم کہ ان دونوں باتوں میں سے کون سی بات زیادہ صحیح ہے۔ (یہ سن کر) حضرتؑ نے اپنے ہاتھ پر ہاتھ مارا اور فرمایا:
هٰذَا جَزَآءُ مَنْ تَرَكَ الْعُقْدَةَ! اَمَا وَاللهِ! لَوْ اَنِّیْ حِیْنَ اَمَرْتُكُمْ بِمَاۤ اَمَرْتُكُم بِهٖ حَمَلْتُكُمْ عَلَی الْمَكْرُوْهِ الَّذِیْ یَجْعَلُ اللهُ فِیْهِ خَیْرًا، فَاِنِ اسْتَقَمْتُمْ هَدَیْتُكُمْ، وَ اِنِ اعْوَجَجْتُمْ قَوَّمْتُكُمْ، وَ اِنْ اَبَیْتُمْ تَدَارَكْتُكُمْ، لَكَانَتِ الْوُثْقٰی، وَ لٰكِنْۢ بِمَنْ وَّ اِلٰی مَنْ؟ اُرِیْدُ اَنْ اُدَاوِیَ بِكُمْ وَاَنْتُمْ دَآئِیْ، كَنَاقِشِ الشَّوْكَةِ بِالشَّوْكَةِ، وَ هُوَ یَعْلَمُ اَنَّ ضَلْعَهَا مَعَهَا. اَللّٰهُمَّ قَدْ مَلَّتْ اَطِبَّآءُ هٰذَا الدَّآءِ الدَّوِیِّ، وَ كَلَّتِ النَّزَعَةُ بِاَشْطَانِ الرَّكِیِّ!.
جس نے عہدِ وفا کو توڑ دیا ہو اس کی یہی پاداش ہوا کرتی ہے۔ خدا کی قسم! جب میں نے تمہیں تحکیم کے مان لینے کا حکم دیا تھا اگر اسی امر ناگوار (جنگ) پر تمہیں ٹھہرائے رکھتا کہ جس میں اللہ تمہارے لئے بہتری ہی کرتا، چنانچہ تم اس پر جمے رہتے تو مَیں تمہیں سیدھی راہ پر لے چلتا اور اگر ٹیڑھے ہوتے تو تمہیں سیدھا کر دیتا اور اگر انکار کرتے تو تمہارا تدارک کرتا، تو بلاشبہ یہ ایک مضبوط طریق کار ہوتا، لیکن کس کی مدد سے اور کس کے بھروسے پر؟ میں تم سے اپنا چارہ چاہتا تھا اور تم ہی میرا مرض نکلے۔ جیسے کانٹے کو کانٹے سے نکالنے والا کہ وہ جانتا ہے کہ یہ بھی اسی کی طرف جھکے گا۔ خدایا! اس موذی مرض سے چارہ گر عاجز آ گئے ہیں اور اس کنوئیں کی رسیاں کھینچنے والے تھک کر بیٹھ گئے ہیں۔
اَیْنَ الْقَوْمُ الَّذِیْنَ دُعُوْۤا اِلَی الْاِسْلَامِ فَقَبِلُوْهُ؟ وَ قَرَاُوا الْقُرْاٰنَ فَاَحْكَمُوْهُ؟ وَ هِیْجُوْۤا اِلَی الْجِهَادِ، فَوَلِهُوْا وَلَهَ اللِّقَاحِ اِلٰۤی اَوْلَادِهَا، وَ سَلَبُوا السُّیُوْفَ اَغْمَادَهَا، وَ اَخَذُوْا بِاَطْرَافِ الْاَرْضِ زَحْفًا زَحْفًا وَّ صَفًّا صَفًّا، بَعْضٌ هَلَكَ، وَ بَعْضٌ نَّجَا. لَایُبَشَّرُوْنَ بِالْاَحْیَآءِ، وَ لَا یُعَزَّوْنَ عَنِ الْمَوْتٰی، مُرْهُ الْعُیُوْنِ مِنَ الْبُكَآءِ، خُمْصُ الْبُطُوْنِ مِنَ الصِّیَامِ، ذُبُلُ الشِّفَاهِ مِنَ الدُّعَآءِ، صُفْرُ الْاَلْوَانِ مِنَ السَّهَرِ، عَلٰی وَجُوْهِهِمْ غَبَرَةُ الْخَاشِعِیْنَ.
وہ لوگ [۱] کہاں ہیں کہ جنہیں اسلام کی طرف دعوت دی گئی تو انہوں نے اسے قبول کر لیا اور قرآن کو پڑھا تو اس پر عمل بھی کیا، جہاد کیلئے انہیں ابھارا گیا تو اس طرح شوق سے بڑھے جیسے دودھ دینے والی اونٹنیاں اپنے بچوں کی طرف۔ انہوں نے تلواروں کو نیاموں سے نکال لیا اور دستہ بدستہ اور صف بصف بڑھتے ہوئے زمین کے اطراف پر قابو پا لیا۔ (ان میں سے) کچھ مر گئے کچھ بچ گئے۔ نہ زندہ رہنے والوں کے مژدہ سے وہ خوش ہوتے ہیں اور نہ مرنے والوں کی تعزیت سے متاثر ہوتے ہیں۔ رونے سے ان کی آنکھیں سفید، روزوں سے ان کے پیٹ لاغر، دُعاؤں سے ان کے ہونٹ خشک اور جاگنے سے ان کے رنگ زرد ہو گئے تھے اور فروتنی و عاجزی کرنے والوں کی طرح ان کے چہرے خاک آلود رہتے تھے۔
اُولٰٓئِكَ اِخْوَانِیَ الذَّاهِبُوْنَ، فَحَقَّ لَـنَا اَنْ نَّظْمَاَ اِلَیْهِمْ وَ نَعَضَّ الْاَیْدِیَ عَلٰی فِرَاقِهِمْ! اِنَّ الشَّیْطٰنَ یُسَنِّیْ لَكُمْ طُرُقَهٗ، وَ یُرِیْدُ اَنْ یَّحُلَّ دِیْنَكُمْ عُقْدَةً عُقْدَةً، وَ یُعْطِیَكُمْ بِالْجَمَاعَةِ الْفُرْقَةَ، فَاصْدِفُوْا عَنْ نَّزَغَاتِهٖ وَ نَفَثَاتِهٖ، وَ اقْبَلُوا النَّصِیْحَةَ مِمَّنْ اَهْدَاهَاۤ اِلَیْكُمْ، وَ اعْقِلُوْهَا عَلٰۤی اَنْفُسِكُمْ.
یہ میرے وہ بھائی تھے جو (دنیا سے) گزر گئے۔ اب ہم حق بجانب ہیں اگر ان کی دید کے پیاسے ہوں اور ان کے فراق میں اپنی بوٹیاں کاٹیں۔ بے شک تمہارے لئے شیطان نے اپنی راہیں آسان کر دی ہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ تمہارے دین کی ایک ایک گرہ کھول دے اور تم میں یکجائی کے بجائے پھوٹ ڈلوائے۔ تم اس کے وسوسوں اور جھاڑ پھونک سے منہ موڑے رہو اور نصیحت کی پیشکش کرنے والے کا ہدیہ قبول کرو اور اپنے نفسوں میں اس کی گرہ باندھ لو۔
۱امیر المومنین علیہ السلام کے پرچم کے نیچے جنگ کرنے والے گو آپؑ ہی کی جماعت میں شمار ہوتے تھے مگر جن کی آنکھوں میں آنسو، چہروں پر زردی، زبانوں پر قرآنی نغمہ، دلوں میں ایمانی ولولہ، پیروں میں ثبات و قرار، روح میں عزم و ہمت اور نفس میں صبر و استقامت کا جوہر ہوتا تھا انہی کو صحیح معنوں میں شیعانِ علیؑ کہا جا سکتا ہے اور یہی وہ لوگ تھے جن کی جدائی میں امیر المومنین علیہ السلام کے دل کی بے تابیاں آہ بن کر زبان سے نکل رہی ہیں اور آتش فراق کے لوکے قلب و جگر کو پھونکے دے رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جو دیوانہ وار موت کی طرف لپکتے تھے اور بچ رہنے پر انہیں مسرت و شادمانی نہ ہوتی تھی، بلکہ ان کے دل کی آواز یہ ہوتی تھی کہ:
شرمندہ ماندہ ایم کہ چرا زندہ ماندہ ایم
جس انسان میں ان صفات کی تھوڑی بہت جھلک ہوگی وہی متبع آلِ محمد علیہم السلام اور شیعہ علی علیہ السلام کہلا سکتا ہے۔ ورنہ یہ ایک ایسا لفظ ہو گا جو اپنے معنی کو کھو چکا ہو اور بے محل استعمال ہونے کی وجہ سے اپنی عظمت کو گنوا چکا ہو۔ چنانچہ روایت میں ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام نے ایک جماعت کو اپنے دروازہ پر دیکھا تو قنبر سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ قنبر نے کہا کہ: یا امیر المومنین علیہ السلام یہ آپؑ کے شیعہ ہیں۔ یہ سن کر حضرتؑ کی پیشانی پر بَل آیا اور فرمایا: مَا لِیْ لَاۤ اَرٰى فِيهِمْ سِيْمَآءَ الشِّيْعَةِ؟ : ’’کیا وجہ ہے کہ یہ شیعہ کہلاتے ہیں اور ان میں شیعوں کی کوئی بھی علامت نظر نہیں آتی‘‘؟ اس پر قنبر نے دریافت کیا کہ شیعوں کی علامت کیا ہوتی ہے؟ تو حضرتؑ نے جواب میں فرمایا:
خُمُصُ الْبُطُوْنِ مِنَ الطَّوٰى، يُبْسُ الشِّفَاةِ مِنَ الظَّمَإِ، عُمْشُ الْعُيُوْنِ مِنَ الْبُكَآءِ.
[۱]۔ مناقب ابن شہر آشوب، ج ۲، ص ۱۲۔