’’یقین‘‘ کی بھی چار شاخیں ہیں: روشن نگاہی، حقیقت رسی، عبرت اندوزی اور اَگلوں کا طور طریقہ۔ حکمت 30
(١٢٣) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۲۳)
فِى التَّحْكِیْمِ
تحکیم کے بارے میں فرمایا
اِنَّا لَمْ نُحَكِّمِ الرِّجَالَ، وَ اِنَّمَا حَكَّمْنَا الْقُرْاٰنَ. وَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ اِنَّمَا هُوَ خَطٌّ مَّسْتُوْرٌۢ بَیْنَ الدَّفَّتَیْنِ، لَا یَنْطِقُ بِلِسَانٍ، وَ لَا بُدَّ لَهٗ مِنْ تَرْجُمَانٍ، وَ اِنَّمَا یَنْطِقُ عَنْهُ الرِّجَالُ.
ہم نے آدمیوں کو نہیں بلکہ قرآن کو حکم قرار دیا تھا۔ چونکہ یہ قرآن دو دفتیوں کے درمیان ایک لکھی ہوئی کتاب ہے کہ جو زبان سے بولا نہیں کرتی۔ اس لئے ضرورت تھی کہ اس کیلئے کوئی ترجمان ہو اور وہ آدمی ہی ہوتے ہیں جو اس کی ترجمانی کیا کرتے ہیں۔
وَ لَمَّا دَعَانَا الْقَوْمُ اِلٰی اَنْ نُّحَكِّمَ بَیْنَنَا الْقُرْاٰنَ لَمْ نَكُنِ الْفَرِیْقَ الْمُتَوَلِّیَ عَنْ كِتَابِ اللهِ تَعَالٰی، وَ قَدْ قَالَ اللهُ سُبْحَانَهٗ: ﴿فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَی اللّٰهِ وَ الرَّسُوْلِ﴾، فَرَدُّهٗۤ اِلَی اللهِ اَنْ نَّحْكُمَ بِكِتَابِهٖ، وَ رَدُّهٗۤ اِلَی الرَّسُوْلِ اَنْ نَّاْخُذَ بِسُنَّتِهٖ، فَاِذَا حُكِمَ بِالصِّدْقِ فِیْ كِتَابِ اللهِ فَنَحْنُ اَحَقُّ النَّاسِ بِهٖ، وَ اِنْ حُكِمَ بِسُنَّةِ رَسُوْلِ اللّٰهِ ﷺ فَنَحْنُ اَوْلَاهُمْ بِهٖ.
جب ان لوگوں نے ہمیں یہ پیغام دیا کہ ہم اپنے درمیان قرآن کو حَکم ٹھہرائیں تو ہم ایسے لوگ نہ تھے کہ اللہ کی کتاب سے منہ پھیر لیتے، جبکہ حق سبحانہ کا ارشاد ہے کہ: ’’اگر تم کسی بات میں جھگڑا کرو تو (اس کا فیصلہ نپٹانے کیلئے) اللہ اور رسولؐ کی طرف رجوع کرو‘‘۔ اللہ کی طرف رجوع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس کی کتاب کے مطابق حکم کریں اور رسول ﷺ کی طرف رجوع کرنے کے معنی یہ ہیں کہ ہم ان کی سنت پر چلیں۔ چنانچہ اگر کتاب خدا سے سچائی کے ساتھ حکم لگایا جائے تو اس کی رُو سے سب لوگوں سے زیادہ ہم (خلافت کے ) حقدار ہوں گے اور اگر سنت ِرسولؐ کے مطابق حکم لگایا جائے تو بھی ہم ان سے زیادہ اس کے اہل ثابت ہوں گے۔
وَ اَمَّا قَوْلُكُمْ: لِمَ جَعَلْتَ بَیْنَكَ وَ بَیْنَهُمْ اَجَلًا فِی التَّحْكِیْمِ؟ فَاِنَّمَا فَعَلْتُ ذٰلِكَ لِیَتَبَیَّنَ الْجَاهِلُ وَ یَتَثَبَّتَ الْعَالِمُ، وَ لَعَلَّ اللهَ اَنْ یُّصْلِحَ فِیْ هٰذِهِ الْهُدْنَةِ اَمْرَ هٰذِهِ الْاُمَّةِ، وَ لَا تُؤْخَذَ بِاَكْظَامِهَا فَتَعْجَلَ عَنْ تَبَیُّنِ الْحَقِّ وَ تَنْقَادَ لِاَوَّلِ الْغَیِّ.
اب رہا تمہارا یہ قول کہ: ’’آپؑ نے تحکیم کیلئے اپنے اور ان کے درمیان مہلت کیوں رکھی؟‘‘، تو یہ میں نے اس لئے کیا کہ (اس عرصہ میں) نہ جاننے والا تحقیق کر لے اور جاننے والا اپنے مسلک پر جم جائے اور شاید کہ اللہ تعالیٰ اس صلح کی وجہ سے اس اُمت کے حالات درست کر دے اور وہ (بے خبری میں) گلا گھونٹ کر تیار نہ کی جائے کہ حق کے واضح ہونے سے پہلے جلدی میں کوئی قدم اٹھا بیٹھے اور پہلی ہی گمراہی کے پیچھے لگ جائے۔
اِنَّ اَفْضَلَ النَّاسِ عِنْدَ اللهِ مَنْ كَانَ الْعَمَلُ بِالْحَقِّ اَحَبَّ اِلَیْهِ ـ وَ اِنْ نَّقَصَهٗ وَ كَرَثَهٗ ـ مِنَ الْبَاطِلِ وَ اِنْ جَرَّ اِلَیْهِ فَآئِدَةً وَّ زَادَهٗ، فَاَیْنَ یُتَاهُ بِكُمْ! وَ مِنْ اَیْنَ اُتِیْتُمْ! اِسْتَعِدُّوْا لِلْمَسِیْرِ اِلٰی قَوْمٍ حَیَارٰی عَنِ الْحَقِّ لَا یُبْصِرُوْنَهٗ وَ مُوْزَعِیْنَ بِالْجَوْرِ لَا یَعْدِلُوْنَ بِهٖ، جُفَاةٍ عَنِ الْكِتَابِ، نُكُبٍ عَنِ الطَّرِیْقِ.
بلا شبہ اللہ کے نزدیک سب سے بہتر وہ شخص ہے کہ جو حق پر عمل پیرا رہے، چاہے وہ اس کیلئے باعث نقصان و مضرت ہو اور باطل کی طرف رخ نہ کرے، چاہے وہ اس کے کچھ فائدہ کا باعث ہو رہا ہو۔ تمہیں تو بھٹکایا جا رہا ہے۔ آخر تم کہاں سے (شیطان کی راہ پر) لائے گئے ہو۔ تم اس قوم کی طرف بڑھنے کیلئے مستعد و آمادہ ہو جاؤ کہ جو حق سے منہ موڑ کر بھٹک رہی ہے کہ اسے دیکھتی ہی نہیں اور وہ بے راہ رویوں میں بہکا دیئے گئے ہیں کہ ان سے ہٹ کر سیدھی راہ پر آنا نہیں چاہتے۔ یہ لوگ کتاب خدا سے الگ رہنے والے اور صحیح راستے سے ہٹ جانے والے ہیں۔
ماۤ اَنْتُمْ بِوَثِیْقَةٍ یُعْلَقُ بِهَا، وَ لَا زَوَافِرِ عِزٍّ یُّعْتَصَمُ اِلَیْهَا. لَبِئْسَ حُشَّاشُ نَارِ الْحَرْبِ اَنْتُمْ! اُفٍّ لَّكُمْ! لَقَدْ لَقِیْتُ مِنْكُمْ بَرْحًا، یَوْمًا اُنَادِیْكُمْ وَ یَوْمًا اُنَاجِیْكُمْ، فَلَاۤ اَحْرَارُ صِدْقٍ عِنْدَ النِّدَآءِ، وَ لَاۤ اِخْوَانُ ثِقَةٍ عِنْدَ النَّجَآءِ!.
لیکن تم تو کوئی مضبوط وسیلہ ہی نہیں ہو کہ تم پر بھروسا کیا جائے اور نہ عزت کے سہارے ہو کہ تم سے وابستہ ہوا جائے۔ تم (دشمن کیلئے) جنگ کی آگ بھڑکانے کے اہل نہیں ہو۔ تم پر افسوس ہے کہ مجھے تم سے کتنی تکلیفیں اٹھانا پڑی ہیں۔ میں کسی دن تمہیں (دین کی امداد کیلئے) پکارتا ہوں اور کسی دن تم سے (جنگ کی) راز دارانہ باتیں کرتا ہوں، مگر تم نہ پکارنے کے وقت سچے جواں مرد اور نہ راز کی باتوں کیلئے قابل اعتماد بھائی ثابت ہوتے ہو۔