’’ایمان‘‘ چار ستونوں پر قائم ہے: ’’صبر‘‘، ’’یقین‘‘، ’’عدل‘‘ اور ’’جہاد‘‘: حکمت 30
(٢٢٧) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۲۲۷)
فَاِنَّ تَقْوَی اللهِ مِفْتَاحُ سَدَادٍ، وَ ذَخِیْرَةُ مَعَادٍ، وَ عِتْقٌ مِّنْ كُلِّ مَلَكَةٍ، وَ نَجَاةٌ مِّنْ كُلِّ هَلَكَةٍ، بِهَا یَنْجَحُ الطَّالِبُ، وَ یَنْجُوا الْهَارِبُ، وَ تُنَالُ الرَّغَآئِبُ.
بے شک اللہ کا خوف ہدایت کی کلید اور آخرت کا ذخیرہ ہے، (خواہشوں کی) ہر غلامی سے آزادی اور ہر تباہی سے رہائی کا باعث ہے، اس کے ذریعہ طلبگار منزلِ مقصود تک پہنچتا اور (سختیوں سے) بھاگنے والا نجات پاتا ہے اور مطلوبہ چیزوں تک پہنچ جاتا ہے۔
فَاعْمَلُوْا وَ الْعَمَلُ یُرْفَعُ، وَ التَّوْبَةُ تَنْفَعُ، وَ الدُّعَآءُ یُسْمَعُ، وَ الْحَالُ هَادِئَةٌ، وَ الْاَقْلَامُ جَارِیَةٌ.
(اچھے) اعمال بجا لے آؤ ابھی جبکہ اعمال بلند ہو رہے ہیں، توبہ فائدہ دے سکتی ہے، پکار سنی جا رہی ہے، حالات پر سکون اور (کراماً کاتبین کے) قلم رواں ہیں۔
وَ بَادِرُوْا بِالْاَعْمَالِ عُمُرًا نَّاكِسًا، اَوْ مَرَضًا حَابِسًا، اَوْ مَوْتًا خَالِسًا، فَاِنَّ الْمَوْتَ هَادِمُ لَذَّاتِكُمْ، وَ مُكَدِّرُ شَهَوَاتِكُمْ، وَ مُبَاعِدُ طِیَّاتِكُمْ، زَآئِرٌ غَیْرُ مَحْبُوْبٍ، وَ قِرْنٌ غَیْرُ مَغْلُوْبٍ، وَ وَاتِرٌ غَیْرُ مَطْلُوْبٍ، قَدْ اَعْلَقَتْكُمْ حَبَآئِلُهٗ، وَ تَكَنَّفَتْكُمْ غَوَآئِلُهٗ، وَ اَقْصَدَتْكُمْ مَعَابِلُهٗ، وَ عَظُمَتْ فِیْكُمْ سَطْوَتُهٗ، وَ تَتَابَعَتْ عَلَیْكُمْ عَدْوَتُهٗ، وَ قَلَّتْ عَنْكُمْ نَبْوَتُهٗ، فَیُوْشِكُ اَنْ تَغْشَاكُمْ دَوَاجِیْ ظُلَلِهٖ، وَ احْتِدَامُ عِلَلِهٖ، وَ حَنَادِسُ غَمَرَاتِهٖ، وَ غَوَاشِیْ سَكَرَاتِهٖ، وَ اَلِیْمُ اِزْهَاقِهٖ، وَ دُجُوُّ اِطْبَاقِهٖ، وَ جُشُوْبَةُ مَذَاقِهٖ.
ضعف و پیری کی طرف پلٹانے والی عمر، زنجیرِ پا بن جانے والے مرض اور جھپٹ لینے والی موت سے پہلے اعمال کی طرف جلدی کرو، کیونکہ موت تمہاری لذتوں کو تباہ کرنے والی، خواہشات کو مکدر بنانے والی اور تمہاری منزلوں کو دور کر دینے والی ہے۔ یہ ناپسندیدہ ملاقاتی اور شکست نہ کھانے والا حریف ہے اور ایسی خونخوار ہے کہ اس سے (خون بہا کا) مطالبہ نہیں کیا جا سکتا، اس کے پھندے تمہیں جکڑے ہوئے ہیں اور اس کی تباہ کاریاں تمہیں گھیرے ہوئے ہیں اور اس کے (تیروں کے) پھل تمہیں سیدھا نشانہ بنائے ہوئے ہیں اور تم پر اس کا غلبہ و تسلط عظیم اور تم پر اس کا ظلم و تعدی برابر جاری ہے اور اس کے وار کے خالی جانے کا امکان کم ہے۔ قریب ہے کہ سحابِ مرگ کی تیرگیاں، مرض الموت کے لوکے، جان لیوا سختیوں کے اندھیرے، سانس اکھڑنے کی مدہوشیاں، جان کنی کی اذیتیں، اس کے ہر طرف سے چھا جانے کی تاریکی اور کام و دہن کیلئے اس کی بدمزگی تمہیں گھیر لے۔
فَكَاَنْ قَدْ اَتَاكُمْ بَغْتَةً فَاَسْكَتَ نَجِیَّكُمْ، وَ فَرَّقَ نَدِیَّكُمْ، وَ عَفّٰی اٰثَارَكُمْ، وَ عَطَّلَ دِیَارَكُمْ، وَ بَعَثَ وُرَّاثَكُمْ، یَقْتَسِمُوْنَ تُرَاثَكُمْ، بَیْنَ حَمِیْمٍ خَاصٍّ لَّمْ یَنْفَعْ، وَ قَرِیْبٍ مَّحْزُوْنٍ لَّمْ یَمْنَعْ، وَ اٰخَرَ شَامِتٍ لَّمْ یَجْزَعْ.
گویا کہ وہ تم پر اچانک آپڑی ہے کہ جس نے تمہارے ساتھ چپکے چپکے باتیں کرنے والے کو خاموش کر دیا اور تمہاری جماعت کو متفرق و پراگندہ کر دیا اور تمہارے نشانات کو مٹا دیا اور تمہارے گھروں کو سنسان کر دیا اور تمہارے وارثوں کو تیار کر دیا کہ وہ تمہارے ترکہ کو مخصوص عزیزوں میں کہ جنہوں نے تمہیں کچھ بھی فائدہ نہ دیا اور ان غم زدہ قریبیوں میں کہ جو (موت کو) روک نہ سکے اور اُن خوش ہونے والے (رشتہ داروں) میں جو ذرا بے چین نہیں ہوئے تقسیم کر لیں۔
فَعَلَیْكُمْ بِالْجِدِّ وَ الْاِجْتِهَادِ، وَ التَّاَهُّبِ وَ الْاِسْتِعْدَادِ، وَ التَّزَوُّدِ فِیْ مَنْزِلِ الزَّادِ. وَ لَا تَغُرَّنَّكُمُ الدُّنْیَا كَمَا غَرَّتْ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ مِنَ الْاُمَمِ الْمَاضِیَةِ، وَ الْقُرُوْنِ الْخَالِیَةِ، الَّذِیْنَ احْتَلَبُوْا دِرَّتَهَا، وَ اَصَابُوْا غِرَّتَهَا، وَ اَفْنَوْا عِدَّتَهَا، وَ اَخْلَقُوْا جِدَّتَهَا، اَصْبَحَتْ مَسَاكِنُهُمْ اَجْدَاثًا، وَ اَمْوَالُهُمْ مِیْرَاثًا. لَا یَعْرِفُوْنَ مَنْ اَتَاهُمْ، وَ لَا یَحْفِلُوْنَ مَنْۢ بَكَاهُمْ، وَ لَا یُجِیْبُوْنَ مَنْ دَعَاهُمْ.
لہٰذا تمہیں لازم ہے کہ تم سعی و کوشش کرو اور (سفرِ آخرت کیلئے) تیار ہو جاؤ اور سرو سامان مہیا کرو اور زاد مہیا کر لینے والی منزل سے زاد فراہم کر لو۔ دنیا تمہیں فریب نہ دے جس طرح تم سے پہلے گزر جانے والی اُمتوں اور گزشتہ لوگوں کو فریب دیا کہ جنہوں نے اس دنیا کا دودھ دوہا اور اُس کی غفلت سے فائدہ اٹھا لے گئے اور اس کے گنے چنے (دنوں کو) فنا اور تازگیوں کو پژ مردہ کر دیا۔ ان کے گھروں نے قبروں کی صورت اختیار کر لی،ان کا مال ترکہ بن گیا۔ جو ان (کی قبروں) پر آتا ہے اسے پہچانتے نہیں، جو انہیں روتا ہے اس کی پرواہ نہیں کرتے اور جو پکارے اُسے جواب نہیں دیتے۔
فَاحْذَرُوا الدُّنْیَا، فَاِنَّهَا غَدَّارَةٌ غَرَّارَةٌ خَدُوْعٌ، مُعْطِیَةٌ مَّنُوْعٌ، مُلْبِسَةٌ نَزُوْعٌ، لَا یَدُوْمُ رَخَآؤُهَا، وَ لَا یَنْقَضِیْ عَنَآؤُهَا، وَ لَا یَرْكُدُ بَلَآؤُهَا.
اس دنیا سے ڈرو کہ یہ غدار، دھوکہ باز اور فریب کار ہے، دینے والی (اور پھر) لے لینے والی ہے، لباس پہنانے والی (اور پھر) اتروا لینے والی ہے۔ اس کی آسائشیں ہمیشہ نہیں رہتیں، نہ اس کی سختیاں ختم ہوتی ہیں اور نہ اس کی مصیبتیں تھمتی ہیں۔
[مِنْهَا فِیْ صِفَةِ الزُّهَّادِ]
[اس خطبہ کا یہ حصہ زاہدوں کے اوصاف میں ہے]
كَانُوْا قَوْمًا مِّنْ اَهْلِ الدُّنْیَا وَ لَیْسُوْا مِنْ اَهْلِهَا، فَكَانُوْا فِیْهَا كَمَنْ لَّیْسَ مِنْهَا، عَمِلُوْا فِیْهَا بِمَا یُبْصِرُوْنَ، وَ بَادَرُوْا فِیْهَا مَا یَحْذَرُوْنَ، تَقَلَّبُ اَبْدَانُهُمْ بَیْنَ ظَهْرَانَیْ اَهْلِ الْاٰخِرَةِ، یَرَوْنَ اَهْلَ الدُّنْیَا یُعَظِّمُوْنَ مَوْتَ اَجْسَادِهِمْ وَ هُمْ اَشدُّ اِعْظَامًا لِّمَوْتِ قُلُوْبِ اَحْیَآئِهِمْ.
وہ ایسے لوگ تھے جو اہل دنیا میں سے تھے مگر (حقیقتاً) دنیا والے نہ تھے۔ وہ دنیا میں اس طرح رہے کہ گویا دنیا سے نہ ہوں۔ اُن کا عمل ان چیزوں پر ہے جنہیں خوب جانے پہچانے ہوئے ہیں اور جس چیز سے خائف ہیں اُس سے بچنے کیلئے جلدی کرتے ہیں۔ اُن کے جسم گویا اہل آخرت کے مجمع میں گردش کر رہے ہیں۔ وہ اہل دنیا کو دیکھتے ہیں کہ وہ ان کی جسمانی موت کو بڑی اہمیت دیتے ہیں اور وہ ان اشخاص کے حال کو زیادہ اندوہناک سمجھتے ہیں جو زندہ ہیں مگر اُن کے دل مردہ ہیں۔