قناعت وہ سرمایہ ہے جو ختم نہیں ہو سکتا۔ حکمت 57
(٢٧) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۲۷)
اَمَّا بَعْدُ! فَاِنَّ الْجِهَادَ بَابٌ مِّنْ اَبْوَابِ الْجَنَّةِ، فَتَحَهُ اللهُ لِخَاصَّةِ اَوْلِیَآئِهٖ، وَ هُوَ لِبَاسُ التَّقْوٰى، وَ دِرْعُ اللهِ الْحَصِیْنَةُ، وَ جُنَّتُهُ الْوَثِیْقَةُ، فَمَنْ تَرَكَهٗ رَغْبَةً عَنْهُ اَلْبَسَهُ اللهُ ثَوْبَ الذُّلِّ، وَ شَمْلَۃَ الْبَلَآءِ، وَ دُیِّثَ بِالصَّغَارِ وَ الْقَمَآءِ، وَ ضُرِبَ عَلٰى قَلْبِهٖ بِالْاَسْدَادِ، وَ اُدِیْلَ الْحَقُّ مِنْهُ بِتَضْیِیْعِ الْجِهَادِ، وَ سِیْمَ الْخَسْفَ، وَ مُنِعَ الْنِّصْفَ.
جہاد جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے جسے اللہ نے اپنے خاص دوستوں کیلئے کھولا ہے۔ یہ پرہیز گاری کا لباس، اللہ کی محکم زرہ اور مضبوط سپر ہے۔ جو اس سے پہلو بچاتے ہوئے اسے چھوڑ دیتا ہے، خدا اسے ذلت و خواری کا لباس پہنا اور مصیبت و ابتلا کی ردا اوڑھا دیتا ہے اور ذلتوں اور خواریوں کے ساتھ ٹھکرا دیا جاتا ہے اور مدہوشی و غفلت کا پردہ اس کے دل پر چھا جاتا ہے اور جہاد کو ضائع و برباد کرنے سے حق اس کے ہاتھ سے لے لیا جاتا ہے، ذلت اسے سہنا پڑتی ہے اور انصاف اس سے روک لیا جاتا ہے۔
اَلَا وَ اِنِّیْ قَدْ دَعَوْتُكُمْ اِلَى قِتَالِ هٰٓؤُلَآءِ الْقَوْمِ لَیْلًا وََّ نَهَارًا، وَ سِرًّا وَّ اِعْلَانًا، وَ قُلْتُ لَكُمُ: اغْزُوْهُمْ قَبْلَ اَنْ یَّغْزُوْكُمْ، فَوَاللهِ! مَا غُزِیَ قَوْمٌ قَطُّ فِیْ عُقْرِ دَارِهِمْ اِلَّا ذَلُّوْا، فَتَوَاكَلْتُمْ وَ تَخَاذَلْتُمْ حَتّٰى شُنَّتْ عَلَیْكُمُ الْغَارَاتُ، وَ مُلِكَتْ عَلَیْكُمُ الْاَوْطَانُ.
میں نے اس قوم سے لڑنے کیلئے رات بھی اور دن بھی، علانیہ بھی اور پوشیدہ بھی تمہیں پکارا اور للکارا اور تم سے کہا کہ قبل اس کے کہ وہ جنگ کیلئے بڑھیں تم ان پر دھاوا بول دو۔ خدا کی قسم! جن افرادِ قوم پر ان کے گھروں کے حدود کے اندر ہی حملہ ہو جاتا ہے وہ ذلیل و خوار ہوتے ہیں، لیکن تم نے جہاد کو دوسروں پرٹال دیا اور ایک دوسرے کی مدد سے پہلو بچانے لگے۔ یہاں تک کہ تم پر غارت گریاں ہوئیں اور تمہارے شہروں پر زبردستی قبضہ کر لیا گیا۔
وَ هٰذَاۤ اَخُوْ غَامِدٍ قَدْ وَرَدَتْ خَیْلُهُ الْاَنْۢبَارَ وَ قَدْ قَتَلَ حَسَّانَ بْنَ حَسَّانَ الْبَكْرِیَّ، وَ اَزَالَ خَیْلَكُمْ عَنْ مَّسَالِحِهَا وَ لَقَدْ بَلَغَنِیْۤ اَنَّ الرَّجُلَ مِنْهُمْ كَانَ یَدْخُلُ عَلَى الْمَرْاَةِ الْمُسْلِمَةِ، وَ الْاُخْرَى الْمُعَاهِدَةِ، فَیَنْتَزِعُ حِجْلَهَا وَ قُلْبَهَا وَقَلَآئِدَهَا وَ رِعَاثَهَا، ما تَمْتَنِعُ مِنْهُ اِلَّا بِالْاِسْتِرْجَاعِ وَ الْاِسْتِرْحَامِ، ثُمَّ انْصَرَفُوْا وَافِرِیْنَ مَا نَالَ رَجُلًا مِّنْهُمْ كَلْمٌ وَّ لَا اُرِیْقَ لَهُمْ دَمٌ، فَلَوْ اَنَّ امْرَاً مُّسْلِمًا مَّاتَ مِنْۢ بَعْدِ هٰذاۤ اَسَفًا مَّا كَانَ بِهٖ مَلُوْمًا، بَلْ كَانَ بِهٖ عِنْدِیْ جَدِیْرًا. فَیَا عَجَبًا! عَجَبًا وَاللهِ! یُمِیْتُ الْقَلْبَ وَ یَجْلِبُ الْهَمَّ مِنِ اجْتِمَاعِ هٰٓؤُلَآءِ الْقَوْمِ عَلٰى بَاطِلِهِمْ، وَ تَفَرُّقِكُمْ عَنْ حَقِّكُمْ! فَقُبْحًا لَّكُمْ وَ تَرَحًا حِیْنَ صِرْتُمْ غَرَضًا یُرْمٰى: یُغَارُ عَلَیْكُمْ وَ لَا تُغِیْرُوْنَ، وَ تُغْزَوْنَ وَ لَا تَغْزُوْنَ، وَ یُعْصَى اللهُ وَ تَرْضَوْنَ!
اسی بنی غامد کے آدمی (سفیان ابنِ عوف) ہی کو دیکھ لو کہ اس کی فوج کے سوار (شہر) انبار کے اندر پہنچ گئے اور حسان ابن حسان بکری کو قتل کر دیا اور تمہارے محافظ سواروں کو سرحدوں سے ہٹا دیا اور مجھے تو یہ اطلاعات بھی ملی ہیں کہ اس جماعت کا ایک آدمی مسلمان اور ذمی عورتوں کے گھروں میں گھس جاتا تھا اور ان کے (پیروں سے) کڑے، (ہاتھوں سے) کنگن اور گلو بند اور گوشوارے اتار لیتا تھا اور ان کے پاس اس سے حفاظت کا کوئی ذریعہ نظر نہ آتا تھا۔ سوا اس کے کہ ﴿اِنَّا لِلهِ وَ اِنَّآ اِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ﴾ کہتے ہوئے صبر سے کام لیں یا خوشامدیں کر کے اس سے رحم کی التجا کریں، پھر وہ لدے پھندے ہوئے پلٹ گئے۔ نہ کسی کے زخم آیا نہ کسی کا خون بہا۔ اب اگر کوئی مسلمان ان سانحات کے بعد رنج و ملال سے مر جائے تو اسے ملامت نہیں کی جا سکتی، بلکہ میرے نزدیک ایسا ہی ہونا چاہیے۔ اَلْعَجَبُ ثُمَّ الْعَجَبُ خدا کی قسم! ان لوگوں کا باطل پر ایکا کر لینا اور تمہاری جمعیت کا حق سے منتشر ہو جانا دل کو مردہ کر دیتا ہے اور رنج و اندوہ بڑھا دیتا ہے۔ تمہارا بُرا ہو! تم غم و حزن میں مبتلا رہو! تم تو تیروں کا از خود نشانہ بنے ہوئے ہو۔ تمہیں ہلاک و تاراج کیا جا رہا ہے مگر تمہارے قدم حملے کیلئے نہیں اٹھتے۔ وہ تم سے لڑ بھڑ رہے ہیں اور تم جنگ سے جى چراتے ہو۔ اللہ کی نافرمانیاں ہو رہی ہیں اور تم راضی ہو رہے ہو۔
فَاِذَاۤ اَمَرْتُكُمْ بِالسَّیْرِ اِلَیْهِم فِیْۤ اَیَّامِ الْحَرِّ قُلْتُمْ: هٰذِهَٖ حَمَارَّةُ الْقَیْظِ اَمْهِلْنَا یُسَبَّخْ عَنَّا الْحَرُّ، وَ اِذَاۤ اَمَرْتُكُمْ بِالسَّیْرِ اِلَیْهِمْ فِی الشِّتَآءِ قُلْتُمْ: هٰذِهِ صَبَارَّةُ الْقُرِّ اَمْهِلْنَا یَنْسَلِخْ عَنَّا الْبَرْدُ، كُلُّ هٰذَا فِرَارًا مِّنَ الْحَرِّ وَ القُرِّ، فَاِذَا كُنْتُمْ مِنَ الْحَرِّ وَ الْقُرِّ تَفِرُّوْنَ فَاَنْتُمْ وَاللهِ! مِنَ السَّیْفِ اَفَرُّ!
اگر گرمیوں میں تمہیں ان کی طرف بڑھنے کیلئے کہتا ہوں تو تم یہ کہتے ہو کہ یہ انتہائی شدت کی گرمی کا زمانہ ہے، اتنی مہلت دیجئے کہ گرمی کا زور ٹوٹ جائے۔ اور اگر سردیوں میں چلنے کیلئے کہتا ہوں تو تم یہ کہتے ہو کہ کڑا کے کا جاڑا پڑ رہا ہے، اتنا ٹھہر جائیے کہ سردی کا موسم گزر جائے۔ یہ سب سردی اور گرمی سے بچنے کیلئے باتیں ہیں۔ جب تم سردی اور گرمی سے اس طرح بھاگتے ہو تو پھر خدا کی قسم! تم تلواروں کو دیکھ کر اس سے کہیں زیادہ بھاگو گے۔
یَاۤ اَشْبَاهَ الرِّجَالِ وَ لَا رِجَالَ! حُلُوْمُ الْاَطْفَالِ، وَ عُقُولُ رَبَّاتِ الْحِجَالِ، لَوَدِدْتُّ اَنِّیْ لَمْ اَرَكُمْ وَ لَمْ اَعْرِفْكُمْ مَعْرِفَةً ـ وَاللهِ! ـ جَرَّتْ نَدَمًا، وَ اَعقَبَتْ سَدَمًا.
اے مردوں کی شکل و صورت والے نامَردو! تمہاری عقلیں بچوں کی سی اور تمہاری سمجھ حجلہ نشین عورتوں کے مانند ہے۔ میں تو یہی چاہتا تھا کہ نہ تم کو دیکھتا، نہ تم سے جان پہچان ہوتی۔ ایسی شناسائی جو ندامت کا سبب اور رنج و اندوہ کا باعث بنی ہے۔
قَاتَلَكُمُ اللهُ! لَقَدْ مَلَئْتُمْ قَلْبِیْ قَیْحًا، وَ شَحَنْتُمْ صَدْرِیْ غَیْظًا، وَ جَرَّعْتُمُوْنِیْ نُغَبَ التَّهْمَامِ اَنْفَاسًا، وَ اَفْسَدْتُّمْ عَلَیَّ رَاْیِیْ بِالْعِصْیَانِ وَ الْخِذْلَانِ، حَتّٰى لَقَدْ قَالَتْ قُرَیْشٌ: اِنَّ ابْنَ اَبِیْ طَالِبٍ رَجُلٌ شُجَاعٌ، وَ لٰكِنْ لَّا عِلْمَ لَهٗ بِالْحَرْبِ.
اللہ تمہیں مارے! تم نے میرے دل کو پیپ سے بھر دیا ہے اور میرے سینے کو غیظ و غضب سے چھلکا دیا ہے۔ تم نے مجھے غم و حزن کے جرعے پے در پے پلائے، نافرمانی کر کے میری تدبیر و رائے کو تباہ کر دیا، یہاں تک کہ قریش کہنے لگے کہ: علیؑ ہے تو مرد شجاع، لیکن جنگ کے طور طریقوں سے واقف نہیں۔
لِلّٰهِ اَبُوْهُمْ! وَ هَلْ اَحَدٌ مِّنْهُمْ اَشَدُّ لَهَا مِرَاسًا، وَ اَقْدَمُ فِیْهَا مَقَامًا مِّنِّیْ؟! لَقَدْ نَهَضْتُ فِیْهَا وَ مَا بَلَغْتُ الْعِشْرِیْنَ، وَ هَا اَنَا ذَا قَدْ ذَرَّفْتُ عَلَى السِّتِّیْنَ! وَ لٰكِنْ لَّا رَاْیَ لَمِنْ لَّا یُطَاعُ!.
اللہ ان کا بھلا کرے! کیا ان میں سے کوئی ہے جو مجھ سے زیادہ جنگ کی مزاولت رکھنے والا اور میدانِ وغا میں میرے پہلے سے کارِ نمایاں کئے ہوئے ہو۔ میں تو ابھی بیس برس کا بھی نہ تھا کہ حرب و ضرب کیلئے اٹھ کھڑا ہوا اور اب تو ساٹھ سے بھی اوپر ہو گیا ہوں، لیکن اس کی رائے ہی کیا جس کی بات نہ مانی جائے۔ [۱]
۱جنگ صفین کے بعد معاویہ نے ہر طرف کشت و خون کا بازار گرم کر رکھا تھا اور امیر المومنین علیہ السلام کے مقبوضہ شہروں پر جارحانہ اقدامات شروع کر دیئے تھے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں ہیت، انبار اور مدائن پر حملہ کرنے کیلئے سفیان ابنِ عوف غامدی کو چھ ہزار کی جمعیت کے ساتھ روانہ کیا۔ وہ پہلے تو ہیت پہنچا، مگر اسے خالی پا کر انبار کی طرف بڑھ نکلا۔ یہاں پر امیر المومنین علیہ السلام کی طرف سے پانچ سو سپاہیوں کا ایک دستہ حفاظت کیلئے مقرر تھا، مگر وہ معاویہ کے اس لشکرِ جرار کو دیکھ کر جم نہ سکا۔ صرف سو آدمی اپنے مقام پر جمے رہے اور انہوں نے جہاں تک ممکن تھا ڈٹ کر مقابلہ بھی کیا، مگر دشمن کی فوج نے مل کر ایسا سخت حملہ کیا کہ ان کے بھی قدم اکھڑ گئے اور رئیس لشکر حسانِ ابن حسان بکری تیس آدمیوں کے ساتھ شہید کر دیئے گئے۔ جب میدان خالی ہو گیا تو دشمنوں نے پوری آزادی کے ساتھ انبار کو لُوٹا اور شہر کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔
امیر المومنین علیہ السلام کو جب اس حملہ کی اطلاع ملی تو آپؑ منبر پر تشریف لے گئے اور لوگوں کو دشمن کی سرکوبی کیلئے ابھارا اور جہاد کی دعوت دی، مگر کسی طرف سے صدائے ’’لبیک‘‘ بلند نہ ہوئی، تو آپؑ پیچ و تاب کھاتے ہوئے منبر سے نیچے اتر آئے اور اسی عالم میں پیادہ پا دشمن کی طرف چل کھڑے ہوئے۔ جب لوگوں نے یہ دیکھا تو ان کی غیرت و حمیت بھی جوش میں آئی اور وہ بھی پیچھے پیچھے ہو لئے۔ جب وادی نخیلہ میں پہنچ کر حضرتؑ نے منزل کی،تو ان لوگوں نے آپؑ کے گرد گھیرا ڈال لیا اور بااصرار کہنے لگے کہ: یا امیر المومنینؑ! آپؑ پلٹ جائیں، ہم فوج دشمن سے نپٹ لینے کیلئے کافی ہیں۔ جب ان لوگوں کا اصرار حد سے بڑھا تو آپؑ پلٹنے کیلئے آمادہ ہو گئے اور سعید ابن قیس آٹھ ہزار کی جمعیت کے ساتھ ادھر روانہ ہو گئے۔ مگر سفیان ابن عوف کا لشکر جا چکا تھا اور سعید ابن قیس بے لڑے واپس آئے۔
جب سعید کوفہ پہنچے تو ابنِ ابی الحدید کی روایت کی بنا پر حضرتؑ رنج و اندوہ کے عالم میں باب السدّہ پر آ کر بیٹھ گئے اور ناسازیٔ طبیعت کی وجہ سے یہ خطبہ لکھ کر اپنے غلام سعد کو دیا کہ وہ پڑھ کر سنا دے۔ مگر مبرد نے ابن عائشہ سے یہ روایت کیا ہے کہ: حضرتؑ نے یہ خطبہ مقام نخیلہ میں ایک بلندی پر کھڑے ہو کر ارشاد فرمایا اور ابن میثم نے اسی قول کو ترجیح دی ہے۔↑