مطلب کا ہاتھ سے چلا جانا نااہل کے آگے ہاتھ پھیلانے سے آسان ہے۔ حکمت 66
(١٢٧) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۲۷)
فِیْ ذِكْرِ الْمَكَایِیْلِ وَ الْمَوَازِیْنِ
جس میں آپؑ نے پیمانوں اور ترازوؤں کا ذکر فرمایا ہے
عِبَادَ اللهِ! اِنَّكُمْ ــ وَ مَا تَاْمُلُوْنَ مِنْ هٰذِهِ الدُّنْیَاــ اَثْوِیَآءُ مُؤَجَّلُوْنَ، وَ مَدِیْنُوْنَ مُقْتَضَوْنَ: اَجَلٌ مَّنْقُوْصٌ، وَ عَمَلٌ مَّحْفُوْظٌ، فَرُبَّ دَآئِبٍ مُّضَیِّـعٌ، وَ رُبَّ كَادِحٍ خَاسِرٌ. وَ قَدْ اَصْبَحْتُمْ فِیْ زَمَنٍ لَّا یَزْدَادُ الْخَیْرُ فِیْهِ اِلَّاۤ اِدْبَارًا، وَ لَا الشَّرُّ اِلَّا اِقْبَالًا، وَ لَا الشَّیْطٰنُ فِیْ هَلَاكِ النَّاسِ اِلَّا طَمَعًا.
اللہ کے بندو! تم اور تمہاری اس دنیا سے بندھی ہوئی امیدیں مقررہ مدت کی مہمان ہیں اور ایسے قرضدار جن سے ادائیگی کا تقاضا کیا جا رہا ہے۔ عمر ہے جو گھٹتی جا رہی ہے اور اعمال ہیں جو محفوظ ہو رہے ہیں۔ بہت سے دوڑ دھوپ کرنے والے اپنی محنت اَکارت کرنے والے ہیں اور بہت سے سعی و کوشش میں لگے رہنے والے گھاٹے میں جا رہے ہیں۔ تم ایسے زمانے میں ہو کہ جس میں بھلائی کے قدم پیچھے ہٹ رہے ہیں اور برائی آگے بڑھ رہی ہے اور لوگوں کو تباہ کرنے میں شیطان کی حرص تیز ہوتی جا رہی ہے۔
فَهٰذَا اَوَانٌ قَوِیَتْ عُدَّتُهٗ، وَ عَمَّتْ مَكِیْدَتُهٗ، وَ اَمْكَنَتْ فَرِیْسَتُهٗ. اِضْرِبْ بِطَرْفِكَ حَیْثُ شِئْتَ مِنَ النَّاسِ، فَهَلْ تُبْصِرُ اِلَّا فَقِیْرًا یُكَابِدُ فَقْرًا، اَوْ غَنِیًّا بَدَّلَ نِعْمَةَ اللهِ كُفْرًا، اَوْ بَخِیْلًا اتَّخَذَ الْبُخْلَ بِحَقِّ اللهِ وَفْرًا، اَوْ مُتَمَرِّدًا كَاَنَّ بِاُذُنِهٖ عَنْ سَمْعِ الْموَاعِظِ وَقْرًا!.
چنانچہ یہی وہ وقت ہے کہ اس (کے ہتھکنڈوں) کا سرو سامان مضبوط ہو چکا ہے اور اس کی سازشیں پھیل رہی ہیں اور اس کے شکار آسانی سے پھنس رہے ہیں۔ جدھر چاہو لوگوں پر نگاہ دوڑاؤ، تم یہی دیکھو گے کہ ایک طرف کوئی فقیر فقر و فاقہ جھیل رہا ہے اور دوسری طرف دولت مند نعمتوں کو کفرانِ نعمت سے بدل رہا ہے اور کوئی بخیل اللہ کے حق کو دبا کر مال بڑھا رہا ہے اور کوئی سرکش پند و نصیحت سے کان بند کئے پڑا ہے۔
اَیْنَ خِیَارُكُمْ وَ صُلَحَآؤُكُمْ! وَ اَیْنَ اَحْرَارُكُمْ وَ سُمَحَآؤُكُمْ! وَ اَیْنَ الْمُتَوَرِّعُوْنَ فِیْ مَكَاسِبِهِمْ، وَ الْمُتَنَزِّهُوْنَ فِیْ مَذَاهِبِهِمْ! اَ لَیْسَ قَدْ ظَعَنُوْا جَمِیْعًا عَنْ هٰذِهِ الدُّنْیَا الدَّنِیَّةِ، وَ الْعَاجِلَةِ الْمُنَغِّصَةِ، وَ هَلْ خُلِّفْتُمْ اِلَّا فِیْ حُثَالَةٍ لَّا تَلْتَقِیْۤ بِذَمِّهِمُ الشَّفَتَانِ، اسْتِصْغَارًا لِّقَدْرِهِمْ، وَ ذَهَابًا عَنْ ذِكْرِهِمْ؟! فَـ﴿اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ﴾، ﴿ظَهَرَ الْفَسَادُ﴾ فَلَا مُنْكِرٌ مُّغَیِّرٌ، وَ لَا زَاجِرٌ مُّزْدَجِرٌ.
کہاں ہیں تمہارے نیک اور صالح افراد؟ اور کہاں ہیں تمہارے عالی حوصلہ اور کریم النفس لوگ؟ کہاں ہیں کاروبار میں (دَغا و فریب) سے بچنے والے اور اپنے طور طریقوں میں پاک و پاکیزہ رہنے والے؟ کیا وہ سب کے سب اس ذلیل اور زندگی کا مزا کرکرا کرنے والی تیز رو دنیا سے گزر نہیں گئے اور کیا تم ان کے بعد ایسے رذیل اور ادنیٰ لوگوں میں نہیں رہ گئے کہ جن کے مرتبہ کو پست و حقیر سمجھتے ہوئے اور ان کے ذکر سے پہلو بچاتے ہوئے ہونٹ ان کی مذمت میں بھی کھلنا گوارا نہیں کرتے۔ ﴿ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَ﴾، فساد اُبھر آیا ہے، برائی کا وہ دور ایسا ہے کہ انقلاب کے کوئی آثار نہیں اور نہ کوئی روک تھام کرنے والا ہے جو خود بھی باز رہے۔
اَفَبِهٰذَا تُرِیْدُوْنَ اَنْ تُجَاوِرُوا اللهَ فِیْ دَارِ قُدْسِهٖ، وَ تَكُوْنُوْۤا اَعَزَّ اَوْلِیَآئِهٖ عِنْدَهٗ؟ هَیْهَاتَ! لَا یُخْدَعُ اللهُ عَنْ جَنَّتِهٖ، وَ لَا تُنَالُ مَرْضَاتُهٗ اِلَّا بِطَاعَتِهٖ. لَعَنَ اللهُ الْاٰمِرِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ التَّارِكِیْنَ لَهٗ، وَ النَّاهِیْنَ عَنِ الْمُنكَرِ الْعَامِلِیْنَ بِهٖ!.
کیا انہی کرتوتوں سے جنت میں اللہ کے پڑوس میں بسنے اور اس کا گہرا دوست بننے کا ارادہ ہے؟ ارے توبہ! اللہ کو دھوکا دے کر اس سے جنت نہیں لی جا سکتی اور بغیر اس کی اطاعت کے اس کی رضامندیاں حاصل نہیں ہو سکتیں۔ خدا ان لوگوں پر لعنت کرے کہ جو اوروں کو بھلائی کا حکم دیں اور خود اسے چھوڑ بیٹھیں اور دوسروں کو بری باتوں سے روکیں اور خود ان پر عمل کرتے ہیں۔