علمی و عملی اوصاف نوبنو خلعت ہیں، اور فکر صاف و شفاف آئینہ ہے۔ حکمت 4
(١٢١) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۲۱)
قَالَهٗ لِاَصْحَابِهٖ فِیْ سَاحَةِ الْحَرْبِ
جنگ کے میدان میں اپنے اصحاب سے فرمایا
وَ اَیُّ امْرِئٍ مِّنْكُمْ اَحَسَّ مِنْ نَّفْسِهٖ رِبَاطَةَ جَاْشٍ عِنْدَ اللِّقَآءِ، وَ رَاٰی مِنْ اَحَدٍ مِّنْ اِخْوَانِهِ فَشَلًا، فَلْیَذُبَّ عَنْ اَخِیْهِ بِفَضْلِ نَجْدَتِهِ الَّتِیْ فُضِّلَ بِهَا عَلَیْهِ كَمَا یَذُبُّ عَنْ نَّفْسِهٖ، فَلَوْ شَآءَ اللهُ لَجَعَلَهٗ مِثْلَهٗ.
تم میں سے جو شخص بھی جنگ کے موقع پر اپنے دل میں حوصلہ و دلیری محسوس کرے اور اپنے کسی بھائی سے کمزوری کے آثار دیکھے تو اسے چاہیے کہ اپنی شجاعت کی برتری کے ذریعہ سے جس کے لحاظ سے وہ اس پر فوقیت رکھتا ہے اس سے (دشمنوں کو) اسی طرح دور کرے جیسے انہیں اپنے سے دور ہٹاتا ہے۔ اس لئے کہ اگر اللہ چاہے تو اسے بھی ویسا ہی کر دے۔
اِنَّ الْمَوْتَ طَالِبٌ حَثِیْثٌ لَّا یَفُوْتُهُ الْمُقِیْمُ، وَ لَا یُعْجِزُهُ الْهَارِبُ. اِنَّ اَكْرَمَ الْمَوْتِ الْقَتْلُ! وَالَّذِیْ نَفْسُ ابْنِ اَبِیْ طَالِبٍ بِیَدِهٖ، لَاَلْفُ ضَرْبَةٍ بِالسَّیْفِ اَهْوَنُ عَلَیَّ مِنْ مِّیْتَةٍ عَلَی الْفِرَاشِ!.
بیشک موت تیزی سے ڈھونڈھنے والی ہے۔ نہ ٹھہرنے والا اس سے بچ کر نکل سکتا ہے اور نہ بھاگنے والا اسے عاجز کر سکتا ہے۔ بلاشبہ قتل ہونا عزت کی موت ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں ابن ابی طالبؑ کی جان ہے کہ بستر پر اپنی موت مرنے سے تلوار کے ہزار وار کھانا مجھے آسان ہیں۔
[مِنْہُ]
[اسی خطبہ کا ایک حصہ یہ ہے]
وَ كَاَنِّیْۤ اَنْظُرُ اِلَیْكُمْ تَكِشُّوْنَكَشِیْشَ الضِّبَابِ: لَا تَاْخُذُوْنَ حَقًّا، وَ لَا تَمْنَعُوْنَ ضَیْمًا. قَدْ خُلِّیْتُمْ وَ الطَّرِیْقَ، فَالنَّجَاةُ لِلْمُقْتَحِمِ، وَ الْهَلَكَةُ لِلْمُتَلَوِّمِ.
گویا میں تمہیں دیکھ رہا ہوں کہ تم (شکست و ہزیمت کے وقت) اس طرح کی آوازیں نکال رہے ہو جس طرح سوسماروں کے اژدہام کے وقت ان کے جسموں کے رگڑ کھانے کی آواز ہوتی ہے۔ نہ تم اپنا حق لیتے ہو اور نہ توہین آمیز زیادتیوں کی روک تھام کر سکتے ہو۔ تمہیں راستے پر کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ نجات اس کیلئے ہے کہ جو اپنے کو (جنگ میں) جھونک دے اور جو سوچتا ہی رہ جائے اس کیلئے ہلاکت و تباہی ہے۔