کسی مضطرب کی داد فریاد سننا اور مصیبت زدہ کو مصیبت سے چھٹکارا دلانا بڑے بڑے گناہوں کا کفارہ ہے۔ حکمت 23
(٢٣٠) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۲۳۰)
اَلَا اِنَّ اللِّسَانَ بَضْعَةٌ مِّنَ الْاِنْسَانِ، فَلَا یُسْعِدُهُ الْقَوْلُ اِذَا امْتَنَعَ، وَ لَا یُمْهِلُهُ النُّطْقُ اِذَا اتَّسَعَ، وَ اِنَّا لَاُمَرَآءُ الْكَلَامِ، وَ فِیْنَا تَنَشَّبَتْ عُرُوْقُهٗ، وَ عَلَیْنَا تَهَدَّلَتْ غُصُوْنُهٗ.
معلوم ہونا چاہیے کہ زبان انسان (کے بدن) کا ایک ٹکڑا ہے۔ جب انسان (کا ذہن) رک جائے تو پھر کلام اس کا ساتھ نہیں دیا کرتا اور جب اس کی (معلومات میں) وسعت ہو تو پھر کلام زبان کو رکنے کی مہلت نہیں دیا کرتا اور ہم (اہلبیتؑ) اقلیم سخن کے فرمانروا ہیں۔ وہ ہمارے رگ و پے میں سمایا ہوا ہے اور اس کی شاخیں ہم پر جھکی ہوئی ہیں۔ [۱]
وَ اعْلَمُوْا رَحِمَكُمُ اللهُ اَنَّكُمْ فِیْ زَمَانٍ الْقَآئِلُ فِیْهِ بِالْحَقِّ قَلِیْلٌ، وَ اللِّسَانُ عَنِ الصِّدْقِ كَلِیْلٌ، وَ اللَّازِمُ لِلْحَقِّ ذَلِیْلٌ. اَهْلُهٗ مُعْتَكِفُوْنَ عَلَی الْعِصْیَانِ، مُصْطَلِحُوْنَ عَلَی الْاِدْهَانِ، فَتَاهُمْ عَارِمٌ، وَ شَآئِبُهُمْ اٰثِمٌ، وَ عَالِمُهُمْ مُّنَافِقٌ، وَ قَارِئُهُمْ مُّمَاذِقٌ، لَا یُعَظِّمُ صَغِیْرُهُمْ كَبِیْرَهُمْ، وَ لَا یَعُوْلُ غَنِیُّهُمْ فَقِیْرَهُمْ.
خدا تم پر رحم کرے! اس بات کو جان لو کہ تم ایسے دور میں ہو جس میں حق گو کم، زبانیں صدق بیانی سے کند اور حق والے ذلیل و خوار ہیں۔ یہ لوگ گناہ و نافرمانی پر جمے ہوئے ہیں اور ظاہر داری و نفاق کی بنا پر ایک دوسرے سے صلح و صفائی رکھتے ہیں۔ ان کے جوان بدخو، ان کے بوڑھے گنہگار، ان کے عالم منافق اور ان کے واعظ چاپلوس ہیں۔ نہ چھوٹے بڑوں کی تعظیم کرتے ہیں اور نہ مالدار فقیر و بے نوا کی دستگیری کرتے ہیں۔
۱امیر المومنین علیہ السلام نے ایک موقع پر اپنے بھانجے جعدہ ابن ہبیرہ مخزومی سے فرمایا کہ وہ خطبہ دیں، مگر جب خطبہ دینے کیلئے کھڑے ہوئے تو زبان لڑکھڑانے لگی اور کچھ نہ کہہ سکے، جس پر حضرتؑ خطبہ دینے کیلئے منبر پر بلند ہوئے اور ایک طویل خطبہ ارشاد فرمایا جس کے چند جملے سیّد رضیؒ نے یہاں درج کئے ہیں۔