یہ دل بھی اسی طرح اکتا جاتے ہیں جس طرح بدن اکتا جاتے ہیں، لہٰذا (جب ایسا ہو تو) ان کیلئے لطیف حکیمانہ نکات تلاش کرو۔ حکمت 91
(٢٠٦) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۲۰۶)
قَالَهٗ لَمَّا اضْطَرَبَ عَلَیْهِ اَصْحَابُهٗ فِیْۤ اَمْرِ الْحُكُوْمَةِ:
جب تحکیم [۱] کے سلسلہ میں آپؑ کے اصحاب آپؑ پر پیچ و تاب کھانے لگے تو آپؑ نے ارشاد فرمایا:
اَیُّهَا النَّاسُ! اِنَّهٗ لَمْ یَزَلْ اَمْرِیْ مَعَكُمْ عَلٰی مَاۤ اُحِبُّ، حَتّٰی نَهِكَتْكُمُ الْحَرْبُ، وَ قَدْ ـ وَاللهِ!ـ اَخَذَتْ مِنْكُمْ وَ تَرَكَتْ، وَ هِیَ لِعَدُوِّكُمْ اَنْهَكُ. لَقَدْ كُنْتُ اَمْسِ اَمِیْرًا، فَاَصْبَحْتُ الْیَوْمَ مَاْمُوْرًا! وَ كُنْتُ اَمْسِ نَاهِیًا، فَاَصْبَحْتُ الْیَوْمَ مَنْهِیًّا! وَ قَدْ اَحْبَبْتُمُ الْبَقَآءَ، وَ لَیْسَ لِیْۤ اَنْ اَحْمِلَكُمْ عَلٰی مَا تَكْرَهُوْنَ!.
اے لوگو! جب تک جنگ نے تمہیں بے حال نہیں کر دیا میرے حسب منشا میری بات تم سے بنی رہی۔ خدا کی قسم! اس نے تم میں سے کچھ کو تو اپنی گرفت میں لے لیا اور کچھ کو چھوڑ دیا اور تمہارے دشمنوں کو تو اس نے بالکل ہی نڈھال کر دیا۔ اگر تم جمے رہتے تو پھر جیت تمہاری تھی۔ مگر اس کا کیا علاج کہ میں کل تک امر ونہی کا مالک تھا اور آج دوسروں کے امر و نہی پر مجھے چلنا پڑ رہا ہے۔ تم (دنیا کی) زندگانی چاہنے لگے اور یہ چیز میرے بس میں نہ رہی کہ جس چیز (جنگ) سے تم بیزار ہو چکے تھے اس پر تمہیں برقرار رکھتا۔
۱جب شامیوں کی بچی بچائی اور بچی کھچی فوج کے قدم اکھڑ گئے اور وہ میدان چھوڑ کر بھاگنے پر آمادہ ہو گئی تو معاویہ نے قرآن کو آلہ کار بنا کر جنگ کا نقشہ ہی بدل دیا اور عراقیوں میں ایسی پھوٹ ڈلوا دی کہ امیر المومنین علیہ السلام کے سمجھانے بجھانے کے باوجود وہ ایک قدم بھی اٹھانے پر آمادہ نہ ہوئے اور جنگ کے رکوانے پر بضد ہو گئے، جس سے حضرتؑ کو بھی مجبوراً تحکیم پر رضا مند ہونا پڑا۔
ان لوگوں میں کچھ تو ایسے تھے جو واقعاً دھوکے میں آ گئے تھے اور یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ حقیقتاً قرآن کی طرف دعوت دی جا رہی ہے اور کچھ لوگ وہ تھے جو جنگ کی اس طولانی مدت سے اُکتا چکے تھے اور اب جی چھوڑے بیٹھے تھے، چنانچہ انہیں جنگ کے رکوانے کا حیلہ مل گیا تو انہوں نے التوائے جنگ کا شور مچا دیا اور کچھ لوگ وہ تھے جو حضرتؑ کے اقتدار سے متاثر ہو کر ساتھ ہو گئے تھے مگر دل سے ان کے ہمنوا نہ تھے اور نہ یہ چاہتے تھے کہ آپؑ کو فتح و کامرانی حاصل ہو اور کچھ لوگ وہ تھے جن کے توقعات معاویہ سے وابستہ تھے اور اس کارکردگی کے صلہ میں اس سے امیدیں باندھنے لگے تھے اور کچھ پہلے ہی سے اس سے ساز باز کئے ہوئے تھے۔
ان حالات میں اور ایسی فوج کے ساتھ دشمن سے اس حد تک ٹکرا جانا بھی امیر المومنین علیہ السلام کی حسن سیاست اور فوجی نظم و نسق کی صلاحیت کا نتیجہ تھا اور اگر معاویہ یہ چال نہ چلتا تو کامیابی میں کوئی شبہ ہی نہ تھا۔ کیونکہ فوج شام کی قوت حرب و ضرب ختم ہو چکی تھی اور شکست اس کے سر پر منڈلا رہی تھی۔
چنانچہ ابن ابی الحدید تحریر کرتے ہیں کہ:
خَلَصَ الْاَشْتَرُ اِلٰى مُعَاوِيَةَ فَاَخَذَهٗ بِعُنُقِهٖ وَ لَمْ يَكُنْ قَدْ بَقِیَ مِنْ قُوَّةِ الشَّامِ اِلَّا كَحَرَكَةِ ذَنَبِ الْوَزَغَةِ عِنْدَ قَتْلِهَا يَضْطَرِبُ يَمِيْنًا وَّ شِمَالًا.
مالک اشتر معاویہ تک پہنچ چکے تھے اور اسے گردن سے پکڑ لیا تھا اور شامیوں کا سارا دم خم جاتا رہا تھا۔ بس ان میں ایسی ہی حرکت باقی رہ گئی تھی جیسے چھپکلی کو مار دیا جائے تو اس کی دم دائیں بائیں اچھلتی رہتی ہے۔ (شرح ابن ابی الحدید، ج ۳، ص۱۰)↑