صبر دو طرح کا ہوتاہے: ایک ناگوار باتوں پر صبر اور دوسرے پسندیدہ چیزوں سے صبر۔ حکمت 55
(١٨٧) وَ مِنْ کَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۸۷)
فَمِنَ الْاِیْمَانِ مَا یَكُوْنُ ثَابِتًا مُّسْتَقِرًّا فِی الْقُلُوْبِ، وَ مِنْهُ مَا یَكُوْنُ عَوَارِیَ بَیْنَ الْقُلُوْبِ وَ الصُّدُوْرِ، اِلٰۤی اَجَلٍ مَّعْلُوْمٍ، فَاِذَا كَانَتْ لَكُمْ بَرَآءَةٌ مِّنْ اَحَدٍ فَقِفُوْهُ حَتّٰی یَحْضُرَهُ الْمَوْتُ، فَعِنْدَ ذٰلِكَ یَقَعُ حَدُّ الْبَرَآءَةِ.
ایک ایمان تو وہ ہوتا ہے جو دلوں میں جما ہوا اور برقرار ہو تا ہے اور ایک وہ کہ جو دلوں اور سینے (کی تہوں) میں ایک مقرر مدت تک عاریۃً ہوتا ہے، لہٰذا اگر کسی ایک میں تمہیں کوئی برائی ایسی نظر آئے کہ جس سے تمہیں اظہار بیزاری کرنا پڑے تو اسے اس وقت تک موقوف رکھو کہ اس شخص کو موت آ جائے کہ اس موقعہ پر اظہار بیزاری اپنی حد پر واقع ہو گی۔
وَالْهِجْرَةُ قَآئِمَةٌ عَلٰی حَدِّهَا الْاَوَّلِ، مَا كَانَ لِلّٰهِ فِیْۤ اَهْلِ الْاَرْضِ حَاجَةٌ مِّنْ مُّسْتَسِرِّ الْاُمَّةِ وَ مُعْلِنِهَا، لَا یَقَعُ اسْمُ الْهِجْرَةِ عَلٰۤی اَحَدٍ اِلَّا بِمَعْرِفَةِ الْحُجَّةِ فِی الْاَرْضِ، فَمَنْ عَرَفَهَا وَ اَقَرَّ بِهَا فَهُوَ مُهَاجِرٌ، وَ لَا یَقَعُ اسْمُ الْاِسْتِضْعَافِ عَلٰی مَنْۢ بَلَغَتْهُ الْحُجَّةُ فَسَمِعَتْهَا اُذُنُهٗ وَ وَعَاهَا قَلْبُهٗ.
ہجرت کا اصول پہلے ہی کی طرح اب بھی برقرار ہے۔ اہل زمین میں کوئی گروہ چپکے سے خدا کا راستہ اختیار کر لے یا علانیہ، بہر حال اللہ کو اس کی کوئی احتیاج نہیں ہے۔ زمین میں حجّت خدا کی معرفت کے بغیر کسی ایک کو بھی صحیح معنی میں مہاجر نہیں کہا جا سکتا۔ ہاں جو اسے پہچانے اور اس کا اقرار کرے وہی مہاجر ہے اور جس تک حجّت (الٰہیہ) کی خبر پہنچے کہ اس کے کان سن لیں اور دل محفوظ کر لیں تو اسے مستضعفین میں (جو ہجرت سے مستثنیٰ ہیں) داخل نہیں سمجھا جا سکتا۔
اِنَّ اَمْرَنَا صَعْبٌ مُّسْتَصْعَبٌ، لَا یَحْمِلُهٗۤ اِلَّا عَبْدٌ مُّؤْمِنٌ امْتَحَنَ اللهُ قَلْبَهٗ لِلْاِیْمَانِ، وَ لَا یَعِیْ حَدِیْثَنَاۤ اِلَّا صُدُوْرٌ اَمِیْنَةٌ، وَ اَحْلَامٌ رَزِیْنَةٌ.
بلا شبہ ہمارا معاملہ ایک امر مشکل و دشوار ہے جس کا متحمل وہی بندہ مومن ہو گا کہ جس کے دل کو اللہ نے ایمان کیلئے پرکھ لیا ہو اور ہمارے قول و حدیث کو صرف امانتدار سینے اور ٹھوس عقلیں ہی محفوظ رکھ سکتی ہیں۔
اَیُّهَا النَّاسُ! سَلُوْنِیْ قَبْلَ اَنْ تَفْقِدُوْنِیْ، فَلَاَنَا بِطُرُقِ السَّمَآءِ اَعْلَمُ مِنِّیْ بِطُرُقِ الْاَرْضِ، قَبْلَ اَنْ تَشْغَرَ بِرِجْلِهَا فِتْنَةٌ تَطَاُ فِیْ خِطَامِهَا وَ تَذْهَبُ بِاَحْلَامِ قَوْمِهَا.
اے لوگو! مجھے کھو دینے سے پہلے مجھ سے پوچھ لو اور میں زمین کی راہوں [۱] سے زیادہ آسمان کے راستوں سے واقف ہوں، قبل اس کے کہ وہ فتنہ اپنے پیروں کو اٹھائے جو مہار کو بھی اپنے پیروں کے نیچے روند رہا ہو اور جس نے لوگوں کی عقلیں زائل کر دی ہوں۔
۱امیر المومنین علیہ السلام کے اس ارشاد کی بعض نے یہ توجیہ کی ہے کہ زمین کی راہوں سے مراد امورِ دنیا اور آسمان کے راستوں سے مراد احکام شرعیہ ہیں اور حضرتؑ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ امورِ دنیا سے زائد احکام شرعیہ و فتاوٰی فقہیہ کے واقف ہیں۔ چنانچہ ابن میثم تحریر کرتے ہیں کہ:
نُقِلَ عَنِ الْاِمَامِ الْوَبْرِىِّ اَنَّهٗ قَالَ: اَرَادَ اَنَّ عِلْمَهٗ بِالدِّيْنِ اَوْفَرُ مِنْ عِلْمِهٖ بِالدُّنْيَا.
امام وبری سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا کہ: حضرتؑ کا اس سے مقصد یہ ہے کہ ان کے دینی معلومات کا دائرہ دنیوی معلومات سے وسیع تر ہے۔[۱]
لیکن سیاق و سباق کلام کو دیکھتے ہوئے یہ معنی صحیح نہیں قرار دیے جا سکتے، کیونکہ یہ جملہ (فَلَاَنَا بِطُرُقِ السَّمَآءِ اَعْلَمُ مِنِّیْ بِطُرُقِ الْاَرْضِ)، «سَلُوْنِیْ قَبْلَ اَنْ تَفْقِدُوْنِیْ» کی علت کے طور پر وارد ہوا ہے اور اس کے بعد فتنہ انگیزی کی پیشین گوئی ہے اور ان دونوں جملوں کے درمیان یہ قول کہ میں امور دنیا سے زیادہ احکام شرعیہ سے واقف ہوں کلام کو بے ربط بنا دیتا ہے۔کیونکہ حضرتؑ کا دعویٰ ’’جو چاہو پوچھ لو‘‘ احکام شرعیہ تک محدود نہیں ہے کہ یہ جملہ اس کی علت قرار پا سکے اور پھر اس کے بعد فتنہ کے اُٹھ کھڑے ہونے کی جو پیشین گوئی کی ہے اسے مسائل شرعیہ سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے کہ اسے امور دنیا سے علوم دینیہ کے زیادہ جاننے کے ثبوت میں پیش کیا جائے۔
لہٰذا الفاظ کے واضح مفہوم کو نظر انداز کر کے ایسی تاویل کرنا کہ جس کا مورد و محل متحمل نہ ہو سکے کسی صحیح جذبہ کی ترجمانی نہیں کرتا، جبکہ سیاق و سباق کے اعتبار سے وہی معنی درست بیٹھتے ہیں کہ جنہیں ظاہر الفاظ ادا کر رہے ہیں۔ چنانچہ حضرتؑ فتنہ بنی اُمیہ سے آگاہ کرنے کیلئے فرماتے ہیں کہ: تم جو چاہو مجھ سے پوچھ لو، کیونکہ میں مقدرات الٰہیہ کے مجاری و مسالک کو زمین کی راہوں سے زیادہ جانتا ہوں، لہٰذا اگر تم ان امور کے متعلق بھی دریافت کرنا چاہو گے کہ جو لوح محفوظ میں ثبت اور تقدیر الٰہی سے وابستہ ہیں تو میں تمہیں بتا سکتا ہوں اور میرے بعد ایک سخت فتنہ اٹھنے والا ہے جس میں تمہیں شک و شبہ نہ ہونا چاہیے، کیونکہ میری نظریں زمین پر ابھرنے والے نقوش سے زیادہ ان فلکی خطوط سے آشنا ہیں کہ جن سے حوادث و فتن کا ظہور وابستہ ہے اور اس فتنہ کا ظہور اتنا ہی یقینی ہے جتنا آنکھوں دیکھی چیز کا ہوتا ہے، لہٰذا تم اس کی تفصیل اور اس سے بچاؤ کی صورت مجھ سے دریافت کر لو تا کہ وقت آنے پر اپنی حفاظت کا سامان کر سکو۔
اس معنی کی تائید حضرتؑ کے ان متواتر ارشادات سے بھی ہوتی ہے۔کہ جو آپؑ نے غیب کے سلسلہ میں فرمائے اور مستقبل نے ان کی تصدیق کی۔ چنانچہ ابن ابی الحدید نے حضرتؑ کے اس دعویٰ پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے:
وَ قَدْ صَدَّقَ هٰذَا الْقَوْلَ عَنْهُ مَا تَوَاتَرَ عَنْهُ مِنَ الْاَخْبَارِ بِالْغُيُوْبِ الْمُتَكَرَّرَةِ، لَا مَرَّةً وَ لَا مِائَةَ مَرَّةٍ حَتّٰى زَالَ الشَّكُّ وَ الرَّيْبُ فِیْۤ اَنَّهٗ اِخْبَارٌ عَنْ عِلْمٍ وَّ اَنَّهٗ لَيْسَ عَلٰى طَرِيْقِ الْاِتِّفَاقِ.
حضرتؑ کے اس قول کی تصدیق آپؑ کے ان ارشادات سے بھی ہوتی ہے جو ایک مرتبہ نہیں، سو مرتبہ نہیں، بلکہ مسلسل و متواتر امور غیبیہ کے سلسلے میں آپؑ کی زبان سے نکلے، جس سے اس امر میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی کہ آپؑ جو فرماتے تھے وہ علم و یقین کی بنیاد پر فرماتے تھے، اتفاقی صورت سے ایسا نہ ہوتا تھا۔ (شرح ابن ابی الحدید، ج۳، ص۱۱۷)
امیر المومنین علیہ السلام کے اس کلام کے متعلق لکھا جا چکا ہے کہ کسی اور کو اس طرح کا دعویٰ کرنے کی جرأت نہ ہو سکی اور جنہوں نے اس طرح کا اِدّعا کیا انہیں ذلت و رسوائی ہی اٹھانا پڑی۔ چنانچہ اس سلسلہ میں چند واقعات درج کئے جاتے ہیں:
۱۔ مقاتل ابن سلیمان نے ایک موقع پر دعویٰ کیا کہ: سَلُوْنِیْ عَمَّا دُوْنَ الْعَرْشِ : ’’عرش سے ادھر کی جو بات چاہو پوچھ لو‘‘۔ اس پر ایک شخص نے دریافت کیا کہ جب حضرت آدم علیہ السلام نے حج کیا تھا تو انہوں نے سر کس سے منڈوایا تھا؟ مقاتل نے کہا: اللہ نے تمہارے دل میں یہ سوال اس لئے ڈالا کہ مجھے اس نخوت و غرور پر رسوا و ذلیل کرے! بھلا مجھے اس کا علم کہاں ہو سکتا ہے۔
۲۔ ایک مرتبہ اسی مقاتل ابن سليمان نے اپنے تبحر علمی کا ثبوت دینے کیلئے کہا کہ: ’’مجھ سے عرش کے نیچے اور زمین کے نیچے کی جو چیز پوچھنا چاہو پوچھ لو‘‘۔ ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا کہ میں عرش اور تحت الثریٰ کی بات دریافت نہیں کر تا، بلکہ صرف زمین کے اوپر ہی کی ایک چیز پوچھتا ہوں جس کا تذکرہ قرآن میں بھی ہے اور وہ یہ کہ اصحاب کہف کے کتے کا کیا رنگ تھا؟ مقاتل نے سنا تو شرمندگی سے سر جھکا لیا اور کوئی جواب نہ دے سکا۔
۳۔ ابراہیم ابن ہشام نے حج کے موقع پر کہا: سَلُوْنِیْ سَلُوْنِیْ، فَاَنَا ابْنُ الْوَحِيْدِ لَا تَسْئَلُوْنَ اَحَدًا اَعْلَمَ مِنِّیْ : ’’مجھ سے پوچھو میں یکتائے روزگار اور اعلم زمانہ ہوں‘‘۔ جس پر ایک عراقی نے پوچھا کیا قربانی واجب ہے؟مگر اس کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔
۴۔ شافعی نے مکہ میں کہا کہ: سَلُوْنِیْ مَا شِئْتُمْ اُحَدِثُّکُمْ مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ وَ سُنَّۃِ نَبِیِّہٖ : ’’جو چاہو مجھ سے پوچھ لو،میں کتاب و سنت سے اس کا جواب دوں گا‘‘۔ اس پر ایک شخص نے دریافت کیا کہ اس شخص کے متعلق کیا حکم ہے کہ جس نے حالت احرام میں زنبور کو مار دیا ہو؟ مگر وہ کتاب و سنت سے کوئی جواب نہ دے سکے۔
۵۔ مقاتل ابن سلیمان کے ایسا ہی دعویٰ کرنے پر ایک شخص نے پوچھا کہ چیونٹی کی انتڑیاں اس کے جسم کے اگلے حصے میں ہوتی ہیں یا پچھلے حصہ میں؟، مگر وہ کچھ جواب نہ دے سکا۔
۶۔ جب قتادہ کوفہ میں وارد ہوا اور لوگوں کا اس کے گرد اجتماع ہوا تو اس نے کہا کہ: جو پوچھنا چاہو پوچھ لو۔ اس پر امام ابو حنیفہ نے ایک شخص سے کہا کہ اس سے پوچھو کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعہ میں جس چیونٹی کا ذکر ہے وہ مادہ تھی یا نر؟ اس سے دریافت کیا گیا مگر وہ جواب سے عاجز رہا۔ جب حضرت ابو حنیفہ سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ مادہ تھی۔ لوگوں نے کہا کہ اس کی دلیل کیا ہے؟ کہا کہ اللہ سبحانہ کا ارشاد: ﴿ قَالَتْ نَمْلَةٌ﴾ [۲] اس کے مادہ ہو نے کی دلیل ہے۔ اگر نر ہوتا تو ﴿قَالَتْ﴾ کی بجائے ’’قَالَ‘‘ ہوتا۔ لیکن یہ جواب درست نہیں ہے، کیونکہ ﴿نَمْــلَۃٌ﴾ کا اطلاق مذکر و مؤنث پر یکساں ہوتا ہے اور فعل کی تانیث ’’نملۃ‘‘ کی تانیثِ لفظی کی وجہ سے ہے، نہ اس کے مادہ ہونے کی بنا پر۔
۷۔ ابن جوزی نے ایک دن منبر پر یہی دعویٰ کیا تو ایک خاتون نے دریافت کیا کہ اس روایت کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام سلمان کی خبر مرگ سن کر ایک ہی رات میں مدائن پہنچ گئے اور ان کی تجہیز و تکفین کی۔ فرمایا کہ ہاں درست ہے۔ پھر اس نے پوچھا کہ اس روایت کے متعلق کیا کہتے ہو کہ خلیفہ ثالث تین دن تک دفن نہ ہو سکے، حالانکہ امیر المومنین علیہ السلام مدینہ ہی میں تشریف فرما تھے۔کہا کہ ہاں یہ بھی درست ہے۔ اس نے پھر کہا کہ ان میں امیر المومنین علیہ السلام کا کون سا اقدام درست اور کون سا غلط تھا؟ یہ سن کر وہ کچھ چکرا سے گئے، مگر پھر سنبھل کر بولے کہ: اے خاتون! اگر تو شوہر کے اِذن سے آئی ہے تو اس پر لعنت ہو، ورنہ تجھ پر کہ تو بے جھجک یہاں چلی آئی ہے۔ اس نے کہا کہ اے ابن جوزی! کیا میں پوچھ سکتی ہوں کہ اُمّ المومنین کا نکلنا کس ذیل میں آتا ہے؟ اس کے بعد ابن جوزی کیلئے جواب کی کوئی گنجائش نہ تھی۔
۸۔ ابن ابی الحدید نے لکھا ہے کہ: الناصر لدین اللہ کے عہد میں ایک واعظ طلاقت لسانی میں بڑی شہرت رکھتا تھا۔ ایک دفعہ اس نے دوران بیان میں صفاتِ باری کا مسئلہ چھیڑ دیا جس پر بغداد کے ایک شخص احمد ابن عبدالعزیز نے کچھ اعتراضات کئے جن کا کوئی معقول جواب تو وہ دے نہ سکا، البتہ اپنی عظمت و جلالت کا سکّہ بٹھا نے کیلئے پر شکوہ لفظوں اور مسجع عبارتوں سے کھیلنا شروع کیا جس سے عوام جھومنے لگے اور ہر طرف سے تحسین و آفرین کی آوازیں آنے لگیں۔ واعظ بھی غرور علمی کے نشہ باطل میں بہک گیا اور مجمع سے کہنے لگا کہ: ’’جو پوچھنا چاہو پوچھ لو‘‘، جس پر احمد نے کہا کہ اے شخص! یہ دعویٰ تو حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا ہے اور اس کلام کا ایک تتمہ یہ بھی ہے کہ: ’’میرے بعد یہ دعویٰ وہی کرے گا جو جھوٹا ہو گا‘‘۔ واعظ نے اپنے علم کی نمائش کرتے ہوئے بڑی تمکنت سے کہا کہ: تم کس علی ابن ابی طالب کا ذکر کرتے ہو؟ کیا علی ابن ابی طالب ابن مبارک نیشاپوری کا؟ یا علی ابن ابی طالب ابن اسحاق مروزی کا؟ یا علی ابن ابی طالب بن عثمان قیروانی کا؟ یا علی ابن ابی طالب ابن سلیمان رازی کا؟ اسی طرح کتنے ہی اشخاص گنوا دیئے جن کا نام علی ابن ابی طالب تھا۔
یہ سن کر احمد نے کہا: واہ، سبحان اللہ! اس وسعت علمی کا کیا ٹھکانا، مگر میری مراد وہ ہیں جو سیدة نساء العالمین کے شوہر تھے اور جب پیغمبر ﷺ نے صحابہ میں ایک کو دوسرے کا بھائی بنایا تھا تو انہیں اپنی اخوت کیلئے منتخب کیا تھا۔ اس نے کچھ جواب دینا چاہا کہ منبر کی داہنی طرف سے ایک شخص کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ: اے شیخ! محمد ابن عبد اللہ نام کے تو سینکڑوں ملیں گے، مگر ان میں ایک بھی ایسا نہ ملے گا جس کے حق میں قدرت نے یہ کہا ہو کہ: ﴿مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوٰىۚ ﴿۲﴾ وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىؕ ﴿۳﴾ اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْىٌ يُّوْحٰىۙ ﴾[۳]: ’’تمہارے ساتھی (پیغمبرؐ) نہ بھٹکے نہ گمراہ ہوئے اور وہ خواہش سے مغلوب ہو کر کچھ نہیں بولتے، یہ تو وحی ہے جو ان پر اترتی ہے‘‘۔ اسی طرح ’’علی ابن ابی طالب‘‘ نام کے تو بہت سے افراد مل جائیں گے، مگر ان میں ایک بھی ایسا نہیں ہے جس کے بارے میں زبان وحی ترجمان نے یہ کہا ہو کہ: «اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُّوْسٰى اِلَّاۤ اَنَّهٗ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ» : ’’تم مجھ سے وہی نسبت رکھتے ہو جو ہارون علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام سے رکھتے تھے، مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے‘‘۔ اب واعظ نے ادھر رخ کرنا چاہا تو بائیں طرف سے ایک شخص بول اٹھا کہ ہاں ہاں! اگر تم علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو نہ پہچانو تو اس تجاہلِ عارفانہ سے ان کی قدر و منزلت گھٹ نہیں سکتی:
شب پره گر وصل آفتاب نخواهد
رونق بازار آفتاب نکاهد
اس بحثا بحثی کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ آپس میں الجھ پڑے اور واعظ منہ چھپا کر بھاگ کھڑا ہوا۔↑
[۱]۔ شرح نہج البلاغہ، ابن میثم، ج ۴، ص ۲۰۰۔
[۲]۔ سورۂ نمل، آیت ۱۸۔
[۳]۔ سورۂ نجم، آیت ۲-۴۔