فہرست خطبات

1- معرفت باری تعالیٰ، زمین و آسمان اور آدمؑ کی خلقت، احکام و حج
2- عرب قبل از بعثت، اہل بیتؑ کی فضیلت اور ایک جماعت کی منقصت
3- (خطبہ شقشقیہ) خلفائے ثلاثہ کی حکومت کے بارے میں آپؑ کا نظریہ
4- آپکیؑ کی دوررس بصیرت، یقین کامل اور موسیؑ کا خوفزدہ ہونا
5- پیغمبرﷺ کے بعد جب ابو سفیان نے آپؑ کی بیعت کرنا چاہی
6- طلحہ و زبیر کے تعاقب سےآپؑ کو روکا گیا تو اس موقع پر فرمایا
7- منافقین کی حالت
8- جب زبیر نے یہ کہا میں نے دل سے بیعت نہ کی تھی تو آپؑ نے فرما
9- اصحاب جمل کا بوداپن
10- طلحہ و زبیر کے بارے میں
11- محمد بن حنفیہ کو آداب حرم کی تعلیم
12- عمل کا کردار اور مدار نیت پر ہے۔
13- بصرہ اور اہل بصرہ کی مذمت میں
14- اہل بصرہ کی مذمت میں
15- عثمان کی دی ہوئی جا گیریں جب پلٹا لیں تو فرمایا
16- جب اہل مدینہ نے آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کی تو فرمایا
17- مسند قضا پر بیٹھنے والے نا اہلوں کی مذمت میں
18- علماء کے مختلف الاراء ہونے کی مذمت اور تصویب کی رد
19- اشعث بن قیس کی غداری و نفاق کا تذکرہ
20- موت کی ہولناکی اور اس سے عبرت اندوزی
21- دنیا میں سبکبار رہنے کی تعلیم
22- قتل عثمان کا الزام عائد کرنے والوں کے بارے میں
23- حسد سے باز رہنے اور عزیزو اقارب سے حسن سلوک کے بارے میں
24- جنگ پر آمادہ کرنے کے لیے فرمایا
25- بسر کے حملے کے بعد جنگ سے جی چرانے والوں سے فرمایا
26- عرب قبل از بعثت اور پیغمبرﷺ کے بعد دنیا کی بے رخی
27- جہاد پر برانگیختہ کرنےکے لیے فرمایا
28- دنیا کی بے ثباتی اور زاد آخرت کی اہمیت کا تذکرہ
29- جنگ کے موقعہ پر حیلے بہانے کرنے والوں کے متعلق فرمایا
30- قتل عثمان کے سلسلے میں آپؑ کی روش
31- جنگ جمل پہلے ابن عباس کو زبیر کے پاس جب بھیجنا
32- دنیا کی مذمت اور اہل دنیا کی قسمیں
33- جب جنگ جمل کے لیے روانہ ہوئے تو فرمایا
34- اہل شام کے مقابلے میں لوگوں کو آمادۂ جنگ کرنے کے لیے فرمایا
35- تحکیم کے بارے میں فرمایا
36- اہل نہروان کو ان کے انجام سے مطلع کرنے کے لیے فرمایا
37- اپنی استقامت دینی و سبقت ایمانی کے متعلق فرمایا
38- شبہہ کی وجہ تسمیہ اور دوستان خدا و دشمنان خدا کی مذمت
39- جنگ سے جی چرانے والوں کی مذمت میں
40- خوارج کے قول «لاحکم الا للہ» کے جواب میں فرمایا
41- غداری کی مذمت میں
42- نفسانی خواہشوں اور لمبی امیدوں کے متعلق فرمایا
43- جب ساتھیوں نے جنگ کی تیاری کے لیے کہا تو آپؑ نے فرمایا
44- جب مصقلہ ابن ہبیرہ معاویہ کے پاس بھاگ گیا تو آپؑ نے فرمایا
45- اللہ کی عظمت اور جلالت اور دنیا کی سبکی و بے وقاری کے متعلق
46- جب شام کی جانب روانہ ہوئے تو فرمایا
47- کوفہ پر وارد ہونے والی مصیبتوں کے متعلق فرمایا
48- جب شام کی طرف روانہ ہوئے تو فرمایا
49- اللہ کی عظمت و بزرگی کے بارے میں فرمایا
50- حق و باطل کی آمیزش کے نتائج
51- جب شامیوں نے آپؑ کے ساتھیوں پر پانی بند کر دیا تو فرمایا
52- دنیا کے زوال وفنا اور آخرت کے ثواب و عتاب کے متعلق فرمایا
53- گوسفند قربانی کے اوصاف
54- آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کا ہجوم
55- میدان صفین میں جہاد میں تاخیر پر اعتراض ہوا تو فرمایا
56- میدان جنگ میں آپؑ کی صبر و ثبات کی حالت
57- معاویہ کے بارے میں فرمایا
58- خوارج کےبارے میں آپؑ کی پیشینگوئی
59- خوارج کی ہزیمت کے متعلق آپؑ کی پیشینگوئی
60- جب اچانک قتل کر دیے جانے سے ڈرایا گیا تو آپؑ نے فرمایا
61- دنیا کی بے ثباتی کا تذکرہ
62- دنیا کے زوال و فنا کے سلسلہ میں فرمایا
63- صفات باری کا تذکرہ
64- جنگ صفین میں تعلیم حرب کےسلسلے میں فرمایا
65- سقیفہ بنی ساعدہ کی کاروائی سننے کے بعد فرمایا
66- محمد بن ابی بکرکی خبر شہادت سن کر فرمایا
67- اپنے اصحاب کی کجروی اور بے رخی کے بارے میں فرمایا
68- شب ضربت سحر کے وقت فرمایا
69- اہل عراق کی مذمت میں فرمایا
70- پیغمبرﷺ پر درود بھیجنے کا طریقہ
71- حسنینؑ کی طرف سے مروان کی سفارش کی گئی تو آپؑ نے فرمایا
72- جب لوگوں نے عثمان کی بیعت کا ارادہ کیا تو آپؑ نے فرمایا
73- قتل عثمان میں شرکت کا الزام آپؑ پر لگایا گیا تو فرمایا
74- پند و نصیحت کے سلسلے میں فرمایا
75- بنی امیہ کے متعلق فرمایا
76- دعائیہ کلمات
77- منجمین کی پیشینگوئی کی رد
78- عورتوں کے فطری نقائص
79- پند و نصیحت کے سلسلے میں فرمایا
80- اہل دنیا کے ساتھ دنیا کی روش
81- موت اور اس کے بعد کی حالت، انسانی خلقت کے درجات اور نصائح
82- عمرو بن عاص کے بارے میں
83- تنزیہ بازی اور پند و نصائح کے سلسلے میں فرمایا
84- آخرت کی تیاری اور احکام شریعت کی نگہداشت کے سلسلے میں فرمایا
85- دوستان خدا کی حالت اور علماء سوء کی مذمت میں فرمایا
86- امت کے مختلف گروہوں میں بٹ جانے کے متعلق فرمایا
87- بعثت سے قبل دنیا کی حالت پراگندگی اور موجودہ دور کے لوگ
88- صفات باری اور پند و موعظت کےسلسلے میں فرمایا
89- (خطبہ اشباح) آسمان و زمین کی خلقت
90- جب آپؑ کے ہاتھ پر بیعت ہوئی تو فرمایا
91- خوارج کی بیخ کنی اور اپنے علم کی ہمہ گیری و فتنہ بنی امیہ
92- خداوند عالم کی حمد و ثناء اور انبیاء کی توصیف میں فرمایا
93- بعثت کے وقت لوگوں کی حالت اور پیغمبرﷺ کی مساعی
94- نبی کریم ﷺ کی مدح و توصیف میں فرمایا
95- اپنے اصحاب کو تنبیہہ اور سرزنش کرتے ہوئے فرمایا
96- بنی امیہ اور ان کے مظالم کے متعلق فرمایا
97- ترکِ دینا اور نیرنگیٔ عالم کے سلسلہ میں فرمایا
98- اپنی سیرت و کردار اور اہل بیتؑ کی عظمت کے سلسلہ میں فرمایا
99- عبد الملک بن مروان کی تاراجیوں کے متعلق فرمایا
100- بعد میں پیدا ہونے والے فتنوں کے متعلق فرمایا
101- زہد و تقو یٰ اور اہل دنیا کی حالت کے متعلق فرمایا
102- بعثت سے قبل لوگوں کی حالت اور پیغمبر ﷺکی تبلیغ و ہدایت
103- پیغمبر اکرمﷺ کی مدح و توصیف اور فرائضِ امام کے سلسلہ میں
104- شریعت اسلام کی گرانقدری اور پیغمبرﷺ کی عظمت کے متعلق فرمایا
105- صفین میں جب حصہ لشکر کے قدم اکھڑنے کے جم گئے تو فرمایا
106- پیغمبرﷺ کی توصیف اور لوگوں کے گوناگون حالات کے بارے میں
107- خداوند عالم کی عظمت، ملائکہ کی رفعت ،نزع کی کیفیت اور آخرت
108- فرائضِ اسلام اور علم وعمل کے متعلق فرمایا
109- دنیا کی بے ثباتی کے متعلق فرمایا
110- ملک الموت کے قبضِ رُوح کرنے کے متعلق فرمایا
111- دنیا اور اہل دنیا کے متعلق فرمایا
112- زہد و تقویٰ اور زادِ عقبیٰ کی اہمیت کے متعلق
113- طلب باران کے سلسلہ میں فرمایا
114- آخرت کی حالت اور حجاج ابن یوسف ثقفی کے مظالم کے متعلق
115- خدا کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرنے کے متعلق فرمایا
116- اپنے دوستوں کی حالت اور اپنی اولیت کے متعلق فرمایا
117- جب اپنے ساتھیوں کو دعوت جہاد دی اور وہ خاموش رہے تو فرمایا
118- اہل بیتؑ کی عظمت اور قوانین شریعت کی اہمیت کے متعلق فرمایا
119- تحکیم کے بارے میں آپؑ پر اعتراض کیا گیا تو فرمایا
120- جب خوارج تحکیم کے نہ ماننے پر اڑ گئے تو احتجاجاً فرمایا
121- جنگ کے موقع پر کمزور اور پست ہمتوں کی مدد کرنے کی سلسلہ میں
122- میدان صفین میں فنونِ جنگ کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا
123- تحکیم کو قبول کرنے کے وجوہ و اسباب
124- بیت المال کی برابر کی تقسیم پر اعتراض ہوا تو فرمایا
125- خوارج کے عقائد کے رد میں
126- بصرہ میں ہونے والے فتنوں، تباہ کاریوں اور حملوں کے متعلق
127- دنیا کی بے ثباتی اور اہل دنیا کی حالت
128- حضرت ابوذر کو مدینہ بدر کیا گیا تو فرمایا
129- خلافت کو قبول کرنے کی وجہ اور والی و حاکم کے اوصاف
130- موت سے ڈرانے اور پند و نصیحت کے سلسلہ میں فرمایا
131- خداوند ِعالم کی عظمت، قرآن کی اہمیت اور پیغمبرﷺ کی بعثت
132- جب مغیرہ بن اخنس نے عثمان کی حمایت میں بولنا چاہا تو فرمایا
133- غزوہ روم میں شرکت کے لیے مشورہ مانگا گیا تو فرمایا
134- اپنی نیت کے اخلاص اور مظلوم کی حمایت کے سلسلہ میں فرمایا
135- طلحہ و زبیر اور خونِ عثمان کے قصاص اور اپنی بیعت کے متعلق
136- ظہورِ حضرت قائم علیہ السلام کے وقت دُنیا کی حالت
137- شوریٰ کے موقع پر فرمایا
138- غیبت اور عیب جوئی سے ممانعت کے سلسلہ میں فرمایا
139- سُنی سُنائی باتوں کو سچا نہ سمجھنا چاہئے
140- بے محل داد و دہش سے ممانعت اور مال کا صحیح مصرف
141- طلبِ باران کے سلسلہ میں فرمایا
142- اہل بیتؑ راسخون فی العلم ہیں اور وہی امامت وخلافت کے اہل ہیں
143- دُنیا کی اہل دُنیا کے ساتھ روش اور بدعت و سنت کا بیان
144- جب حضرت عمر نے غزوہ فارس کیلئے مشورہ لیا تو فرمایا
145- بعثتِ پیغمبر کی غرض و غایت اور اُس زمانے کی حالت
146- طلحہ وزبیر کے متعلق فرمایا
147- موت سے کچھ قبل بطور وصیّت فرمایا
148- حضرت حجتؑ کی غیبت اور پیغمبرﷺ کے بعد لوگوں کی حالت
149- فتنوں میں لوگوں کی حالت اور ظلم اور اکل حرام سے اجتناب
150- خداوند عالم کی عظمت و جلالت کا تذکرہ اور معرفت امام کے متعلق
151- غفلت شعاروں، چوپاؤں، درندوں اور عورتوں کے عادات و خصائل
152- اہل بیتؑ کی توصیف، علم وعمل کا تلازم اور اعمال کا ثمرہ
153- چمگادڑ کی عجیب و غریب خلقت کے بارے میں
154- حضرت عائشہ کے عناد کی کیفیت اور فتنوں کی حالت
155- دُنیا کی بے ثباتی، پندو موعظت اور اعضاء و جوارح کی شہادت
156- بعثت پیغمبرﷺ کا تذکرہ، بنی اُمیّہ کے مظالم اور ان کا انجام
157- لوگوں کے ساتھ آپ کا حُسنِ سلوک اور ان کی لغزشوں سے چشم پوشی
158- خداوندِعالم کی توصیف ،خوف ورجاء، انبیاءؑ کی زندگی
159- دین اسلام کی عظمت اور دُنیا سے درس عبرت حاصل کرنے کی تعلیم
160- حضرتؑ کو خلافت سے الگ رکھنے کے وجوہ
161- اللہ کی توصیف، خلقت انسان اور ضروریات زندگی کی طرف رہنمائی
162- امیرالمومنینؑ کا عثمان سے مکالمہ اور ان کی دامادی پر ایک نظر
163- مور کی عجیب و غریب خلقت اور جنّت کے دلفریب مناظر
164- شفقت و مہربانی اور ظاہر و باطن کی تعلیم اور بنی امیہ کا زوال
165- حقوق و فرائض کی نگہداشت اور تمام معاملات میں اللہ سے خوف
166- جب لوگوں نے قاتلین عثمان سے قصاص لینے کی فرمائش کی تو فرمایا
167- جب اصحاب جمل بصرہ کی جانب روانہ ہوئے تو فرمایا
168- اہل بصرہ سے تحقیق حال کے لئے آنے والے شخص سے فرمایا
169- صفین میں جب دشمن سے دوبدو ہوکر لڑنے کا ارادہ کیا تو فرمایا
170- جب آپؑ پر حرص کا الزام رکھا گیا تو اس کی رد میں فرمایا
171- خلافت کا مستحق کون ہے اور ظاہری مسلمانوں سے جنگ کرنا
172- طلحہ بن عبیداللہ کے بارے میں فرمایا
173- غفلت کرنے والوں کو تنبیہ اور آپؑ کے علم کی ہمہ گیری
174- پند دو موعظت، قرآن کی عظمت اور ظلم کی اقسام
175- حکمین کے بارے میں فرمایا
176- خداوند عالم کی توصیف، دُنیا کی بے ثباتی اور اسباب زوال نعمت
177- جب پوچھا گیا کہ کیا آپؑ نے خدا کو دیکھا ہے تو فرمایا
178- اپنے اصحاب کی مذمت میں فرمایا
179- خوارج سے مل جانے کا تہیّہ کرنے والی جماعت سے فرمایا
180- خداوند عالم کی تنزیہ و تقدیس اور قدرت کی کا ر فرمائی
181- خداوند عالم کی توصیف، قرآن کی عظمت اور عذاب آخرت سے تخویف
182- جب «لا حکم الا اللہ» کا نعرہ لگایا گیا تو فرمایا
183- خداوند عالم کی عظمت و توصیف اور ٹڈی کی عجیب و غریب خلقت
184- مسائل الٰہیات کے بُنیادی اُصول کا تذکرہ
185- فتنوں کے ابھرنے اور رزقِ حلال کے ناپید ہو جانے کے بارے میں
186- خداوند عالم کے احسانات، مرنے والوں کی حالت اور بے ثباتی دنیا
187- پختہ اور متزلزل ایمان اور دعویٰ سلونی «قبل ان تفقدونی»
188- تقویٰ کی اہمیت، ہولناکی قبر، اللہ، رسول اور اہل بیت کی معرفت
189- خداوند عالم کی توصیف، تقویٰ کی نصیحت، دنیا اور اہل دنیا
190- (خطبہ قاصعہ) جس میں ابلیس کی مذمت ہے۔
191- متقین کے اوصاف اور نصیحت پذیر طبیعتوں پر موعظت کا اثر
192- پیغمبر ﷺکی بعثت، قبائلِ عرب کی عداوت اور منافقین کی حالت
193- خداوند عالم کی توصیف، تقویٰ کی نصیحت اور قیامت کی کیفیت
194- بعثتِ پیغمبرؐ کے وقت دنیا کی حالت، دنیا کی بے ثباتی
195- حضورﷺ کے ساتھ آپؑ کی خصوصیات اور حضور ﷺ کی تجہیز و تکفین
196- خداوند عالم کے علم کی ہمہ گیری، تقویٰ کے فوائد
197- نماز، زکوٰة اور امانت کے بارے میں فرمایا
198- معاویہ کی غداری و فریب کاری اور غداروں کا انجام
199- راہ ہدایت پر چلنے والوں کی کمی اور قوم ثمود کا تذکرہ
200- جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے دفن کے موقع پر فرمایا
201- دنیا کی بے ثباتی اور زاد آخرت مہیا کرنے کے لیے فرمایا
202- اپنے اصحاب کو عقبیٰ کے خطرات سے متنبہ کرتے ہوئے فرمایا
203- طلحہ و زبیر نے مشورہ نہ کرنے کا شکوہ کیا تو فرمایا
204- صفین میں شامیوں پر شب و ستم کیا گیا تو فرمایا
205- جب امام حسنؑ صفین کے میدان میں تیزی سے بڑھے تو فرمایا
206- صفین میں لشکر تحکیم کے سلسلہ میں سرکشی پر اُتر آیا تو فرمایا
207- علاء ابن زیاد حارثی کی عیادت کو موقع پر فرمایا
208- اختلاف احادیث کے وجوہ و اسباب اور رواة حدیث کے اقسام
209- خداوند عالم کی عظمت اور زمین و آسمان اور دریاؤں کی خلقت
210- حق کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لینے والوں کے بارے میں فرمایا
211- خداوند عالم کی عظمت اور پیغمبرؐ کی توصیف و مدحت
212- پیغمبرﷺ کی خاندانی شرافت اور نیکو کاروں کے اوصاف
213- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
214- حکمران اور رعیّت کے باہمی حقوق کے بارے میں فرمایا
215- قریش کے مظالم کے متعلق فر مایا اور بصرہ پر چڑھائی کے متعلق
216- طلحہ اور عبد الرحمن بن عتاب کو مقتول دیکھا تو فرمایا
217- متقی و پرہیزگار کے اوصاف
218- ”الہاکم التکاثر حتی زرتم المقابر“ کی تلاوت کے وقت فرمایا
219- ” رجال لا تلہیھم تجارة و لا بیع عن ذکر اللہ “ کی تلاوت کے وق
220- ” یا اٴیھا الانسان ما غرّک بربک الکریم “ کی تلاوت کے وقت فرم
221- ظلم و غصب سے کنارہ کشی، عقیل کی حالت فقر و احتیاج، اور اشعث
222- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
223- دنیا کی بے ثباتی اور اہل قبور کی حالت بے چارگی
224- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
225- انتشار و فتنہ سے قبل دنیا سے اٹھ جانے والوں کے متعلق فرمایا
226- اپنی بیعت کے متعلق فرمایا
227- تقویٰ کی نصیحت موت سے خائف رہنے اور زہد اختیار کرنے کے متعلق
228- جب بصرہ کی طرف روانہ ہوئے تو فرمایا
229- عبد اللہ ابن زمعہ نے آپؑ سے مال طلب کیا تو فرمایا
230- جب جعدہ ابن ہبیرہ خطبہ نہ دے سکے تو فرمایا
231- لوگوں کے اختلاف صورت و سیرت کی وجوہ و اسباب
232- پیغمبر ﷺ کو غسل و کفن دیتے وقت فرمایا
233- ہجرتِ پیغمبر ﷺ کے بعد اُن کے عقب میں روانہ ہونے کے متعلق
234- زادِ آخرت مہیا کرنے اور موت سے پہلے عمل بجا لانے کے متعلق
235- حکمین کے بارے میں فرمایا اور اہل شام کی مذمت میں فرمایا
236- آلِ محمدؑ کی توصیف اور روایت میں عقل و درایت سے کام لینا
237- جب عثمان نے ینبع چلے جانے کے لیے پیغام بھجوایا تو فرمایا
238- اصحاب کو آمادہ جنگ کرنے اور آرام طلبی سے بچنے کے لئے فرمایا

Quick Contact

صبر دو طرح کا ہوتاہے: ایک ناگوار باتوں پر صبر اور دوسرے پسندیدہ چیزوں سے صبر۔ حکمت 55
(١٨٧) وَ مِنْ کَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱۸۷)
فَمِنَ الْاِیْمَانِ مَا یَكُوْنُ ثَابِتًا مُّسْتَقِرًّا فِی الْقُلُوْبِ، وَ مِنْهُ مَا یَكُوْنُ عَوَارِیَ بَیْنَ الْقُلُوْبِ وَ الصُّدُوْرِ، اِلٰۤی اَجَلٍ مَّعْلُوْمٍ، فَاِذَا كَانَتْ لَكُمْ بَرَآءَةٌ مِّنْ اَحَدٍ فَقِفُوْهُ حَتّٰی یَحْضُرَهُ الْمَوْتُ، فَعِنْدَ ذٰلِكَ یَقَعُ حَدُّ الْبَرَآءَةِ.
ایک ایمان تو وہ ہوتا ہے جو دلوں میں جما ہوا اور برقرار ہو تا ہے اور ایک وہ کہ جو دلوں اور سینے (کی تہوں) میں ایک مقرر مدت تک عاریۃً ہوتا ہے، لہٰذا اگر کسی ایک میں تمہیں کوئی برائی ایسی نظر آئے کہ جس سے تمہیں اظہار بیزاری کرنا پڑے تو اسے اس وقت تک موقوف رکھو کہ اس شخص کو موت آ جائے کہ اس موقعہ پر اظہار بیزاری اپنی حد پر واقع ہو گی۔
وَالْهِجْرَةُ قَآئِمَةٌ عَلٰی حَدِّهَا الْاَوَّلِ، مَا كَانَ لِلّٰهِ فِیْۤ اَهْلِ الْاَرْضِ حَاجَةٌ مِّنْ مُّسْتَسِرِّ الْاُمَّةِ وَ مُعْلِنِهَا، لَا یَقَعُ اسْمُ الْهِجْرَةِ عَلٰۤی اَحَدٍ اِلَّا بِمَعْرِفَةِ الْحُجَّةِ فِی الْاَرْضِ، فَمَنْ عَرَفَهَا وَ اَقَرَّ بِهَا فَهُوَ مُهَاجِرٌ، وَ لَا یَقَعُ اسْمُ الْاِسْتِضْعَافِ عَلٰی مَنْۢ بَلَغَتْهُ الْحُجَّةُ فَسَمِعَتْهَا اُذُنُهٗ وَ وَعَاهَا قَلْبُهٗ.
ہجرت کا اصول پہلے ہی کی طرح اب بھی برقرار ہے۔ اہل زمین میں کوئی گروہ چپکے سے خدا کا راستہ اختیار کر لے یا علانیہ، بہر حال اللہ کو اس کی کوئی احتیاج نہیں ہے۔ زمین میں حجّت خدا کی معرفت کے بغیر کسی ایک کو بھی صحیح معنی میں مہاجر نہیں کہا جا سکتا۔ ہاں جو اسے پہچانے اور اس کا اقرار کرے وہی مہاجر ہے اور جس تک حجّت (الٰہیہ) کی خبر پہنچے کہ اس کے کان سن لیں اور دل محفوظ کر لیں تو اسے مستضعفین میں (جو ہجرت سے مستثنیٰ ہیں) داخل نہیں سمجھا جا سکتا۔
اِنَّ اَمْرَنَا صَعْبٌ مُّسْتَصْعَبٌ، لَا یَحْمِلُهٗۤ اِلَّا عَبْدٌ مُّؤْمِنٌ امْتَحَنَ اللهُ قَلْبَهٗ لِلْاِیْمَانِ، وَ لَا یَعِیْ حَدِیْثَنَاۤ اِلَّا صُدُوْرٌ اَمِیْنَةٌ، وَ اَحْلَامٌ رَزِیْنَةٌ.
بلا شبہ ہمارا معاملہ ایک امر مشکل و دشوار ہے جس کا متحمل وہی بندہ مومن ہو گا کہ جس کے دل کو اللہ نے ایمان کیلئے پرکھ لیا ہو اور ہمارے قول و حدیث کو صرف امانتدار سینے اور ٹھوس عقلیں ہی محفوظ رکھ سکتی ہیں۔
اَیُّهَا النَّاسُ! سَلُوْنِیْ قَبْلَ اَنْ تَفْقِدُوْنِیْ، فَلَاَنَا بِطُرُقِ السَّمَآءِ اَعْلَمُ مِنِّیْ بِطُرُقِ الْاَرْضِ، قَبْلَ اَنْ تَشْغَرَ بِرِجْلِهَا فِتْنَةٌ تَطَاُ فِیْ خِطَامِهَا وَ تَذْهَبُ بِاَحْلَامِ قَوْمِهَا.
اے لوگو! مجھے کھو دینے سے پہلے مجھ سے پوچھ لو اور میں زمین کی راہوں [۱] سے زیادہ آسمان کے راستوں سے واقف ہوں، قبل اس کے کہ وہ فتنہ اپنے پیروں کو اٹھائے جو مہار کو بھی اپنے پیروں کے نیچے روند رہا ہو اور جس نے لوگوں کی عقلیں زائل کر دی ہوں۔

۱؂امیر المومنین علیہ السلام کے اس ارشاد کی بعض نے یہ توجیہ کی ہے کہ زمین کی راہوں سے مراد امورِ دنیا اور آسمان کے راستوں سے مراد احکام شرعیہ ہیں اور حضرتؑ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ امورِ دنیا سے زائد احکام شرعیہ و فتاوٰی فقہیہ کے واقف ہیں۔ چنانچہ ابن میثم تحریر کرتے ہیں کہ:
نُقِلَ عَنِ الْاِمَامِ الْوَبْرِىِّ اَنَّهٗ قَالَ: اَرَادَ اَنَّ عِلْمَهٗ بِالدِّيْنِ اَوْفَرُ مِنْ عِلْمِهٖ بِالدُّنْيَا.
امام وبری سے منقول ہے کہ انہوں نے کہا کہ: حضرتؑ کا اس سے مقصد یہ ہے کہ ان کے دینی معلومات کا دائرہ دنیوی معلومات سے وسیع تر ہے۔[۱]
لیکن سیاق و سباق کلام کو دیکھتے ہوئے یہ معنی صحیح نہیں قرار دیے جا سکتے، کیونکہ یہ جملہ (فَلَاَنَا بِطُرُقِ السَّمَآءِ اَعْلَمُ مِنِّیْ بِطُرُقِ الْاَرْضِ)، «سَلُوْنِیْ قَبْلَ اَنْ تَفْقِدُوْنِیْ» کی علت کے طور پر وارد ہوا ہے اور اس کے بعد فتنہ انگیزی کی پیشین گوئی ہے اور ان دونوں جملوں کے درمیان یہ قول کہ میں امور دنیا سے زیادہ احکام شرعیہ سے واقف ہوں کلام کو بے ربط بنا دیتا ہے۔کیونکہ حضرتؑ کا دعویٰ ’’جو چاہو پوچھ لو‘‘ احکام شرعیہ تک محدود نہیں ہے کہ یہ جملہ اس کی علت قرار پا سکے اور پھر اس کے بعد فتنہ کے اُٹھ کھڑے ہونے کی جو پیشین گوئی کی ہے اسے مسائل شرعیہ سے کوئی واسطہ ہی نہیں ہے کہ اسے امور دنیا سے علوم دینیہ کے زیادہ جاننے کے ثبوت میں پیش کیا جائے۔
لہٰذا الفاظ کے واضح مفہوم کو نظر انداز کر کے ایسی تاویل کرنا کہ جس کا مورد و محل متحمل نہ ہو سکے کسی صحیح جذبہ کی ترجمانی نہیں کرتا، جبکہ سیاق و سباق کے اعتبار سے وہی معنی درست بیٹھتے ہیں کہ جنہیں ظاہر الفاظ ادا کر رہے ہیں۔ چنانچہ حضرتؑ فتنہ بنی اُمیہ سے آگاہ کرنے کیلئے فرماتے ہیں کہ: تم جو چاہو مجھ سے پوچھ لو، کیونکہ میں مقدرات الٰہیہ کے مجاری و مسالک کو زمین کی راہوں سے زیادہ جانتا ہوں، لہٰذا اگر تم ان امور کے متعلق بھی دریافت کرنا چاہو گے کہ جو لوح محفوظ میں ثبت اور تقدیر الٰہی سے وابستہ ہیں تو میں تمہیں بتا سکتا ہوں اور میرے بعد ایک سخت فتنہ اٹھنے والا ہے جس میں تمہیں شک و شبہ نہ ہونا چاہیے، کیونکہ میری نظریں زمین پر ابھرنے والے نقوش سے زیادہ ان فلکی خطوط سے آشنا ہیں کہ جن سے حوادث و فتن کا ظہور وابستہ ہے اور اس فتنہ کا ظہور اتنا ہی یقینی ہے جتنا آنکھوں دیکھی چیز کا ہوتا ہے، لہٰذا تم اس کی تفصیل اور اس سے بچاؤ کی صورت مجھ سے دریافت کر لو تا کہ وقت آنے پر اپنی حفاظت کا سامان کر سکو۔
اس معنی کی تائید حضرتؑ کے ان متواتر ارشادات سے بھی ہوتی ہے۔کہ جو آپؑ نے غیب کے سلسلہ میں فرمائے اور مستقبل نے ان کی تصدیق کی۔ چنانچہ ابن ابی الحدید نے حضرتؑ کے اس دعویٰ پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے:
وَ قَدْ صَدَّقَ هٰذَا الْقَوْلَ عَنْهُ مَا تَوَاتَرَ عَنْهُ مِنَ الْاَخْبَارِ بِالْغُيُوْبِ الْمُتَكَرَّرَةِ، لَا مَرَّةً وَ لَا مِائَةَ مَرَّةٍ حَتّٰى زَالَ الشَّكُّ وَ الرَّيْبُ فِیْۤ اَنَّهٗ اِخْبَارٌ عَنْ عِلْمٍ وَّ اَنَّهٗ لَيْسَ عَلٰى طَرِيْقِ الْاِتِّفَاقِ‏.
حضرتؑ کے اس قول کی تصدیق آپؑ کے ان ارشادات سے بھی ہوتی ہے جو ایک مرتبہ نہیں، سو مرتبہ نہیں، بلکہ مسلسل و متواتر امور غیبیہ کے سلسلے میں آپؑ کی زبان سے نکلے، جس سے اس امر میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی کہ آپؑ جو فرماتے تھے وہ علم و یقین کی بنیاد پر فرماتے تھے، اتفاقی صورت سے ایسا نہ ہوتا تھا۔ (شرح ابن ابی الحدید، ج۳، ص۱۱۷)
امیر المومنین علیہ السلام کے اس کلام کے متعلق لکھا جا چکا ہے کہ کسی اور کو اس طرح کا دعویٰ کرنے کی جرأت نہ ہو سکی اور جنہوں نے اس طرح کا اِدّعا کیا انہیں ذلت و رسوائی ہی اٹھانا پڑی۔ چنانچہ اس سلسلہ میں چند واقعات درج کئے جاتے ہیں:
۱۔ مقاتل ابن سلیمان نے ایک موقع پر دعویٰ کیا کہ: سَلُوْنِیْ عَمَّا دُوْنَ الْعَرْشِ : ’’عرش سے ادھر کی جو بات چاہو پوچھ لو‘‘۔ اس پر ایک شخص نے دریافت کیا کہ جب حضرت آدم علیہ السلام نے حج کیا تھا تو انہوں نے سر کس سے منڈوایا تھا؟ مقاتل نے کہا: اللہ نے تمہارے دل میں یہ سوال اس لئے ڈالا کہ مجھے اس نخوت و غرور پر رسوا و ذلیل کرے! بھلا مجھے اس کا علم کہاں ہو سکتا ہے۔
۲۔ ایک مرتبہ اسی مقاتل ابن سليمان نے اپنے تبحر علمی کا ثبوت دینے کیلئے کہا کہ: ’’مجھ سے عرش کے نیچے اور زمین کے نیچے کی جو چیز پوچھنا چاہو پوچھ لو‘‘۔ ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا کہ میں عرش اور تحت الثریٰ کی بات دریافت نہیں کر تا، بلکہ صرف زمین کے اوپر ہی کی ایک چیز پوچھتا ہوں جس کا تذکرہ قرآن میں بھی ہے اور وہ یہ کہ اصحاب کہف کے کتے کا کیا رنگ تھا؟ مقاتل نے سنا تو شرمندگی سے سر جھکا لیا اور کوئی جواب نہ دے سکا۔
۳۔ ابراہیم ابن ہشام نے حج کے موقع پر کہا: سَلُوْنِیْ سَلُوْنِیْ، فَاَنَا ابْنُ الْوَحِيْدِ لَا تَسْئَلُوْنَ اَحَدًا اَعْلَمَ مِنِّیْ : ’’مجھ سے پوچھو میں یکتائے روزگار اور اعلم زمانہ ہوں‘‘۔ جس پر ایک عراقی نے پوچھا کیا قربانی واجب ہے؟مگر اس کے پاس اس کا کوئی جواب نہ تھا۔
۴۔ شافعی نے مکہ میں کہا کہ: سَلُوْنِیْ مَا شِئْتُمْ اُحَدِثُّکُمْ مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ وَ سُنَّۃِ نَبِیِّہٖ : ’’جو چاہو مجھ سے پوچھ لو،میں کتاب و سنت سے اس کا جواب دوں گا‘‘۔ اس پر ایک شخص نے دریافت کیا کہ اس شخص کے متعلق کیا حکم ہے کہ جس نے حالت احرام میں زنبور کو مار دیا ہو؟ مگر وہ کتاب و سنت سے کوئی جواب نہ دے سکے۔
۵۔ مقاتل ابن سلیمان کے ایسا ہی دعویٰ کرنے پر ایک شخص نے پوچھا کہ چیونٹی کی انتڑیاں اس کے جسم کے اگلے حصے میں ہوتی ہیں یا پچھلے حصہ میں؟، مگر وہ کچھ جواب نہ دے سکا۔
۶۔ جب قتادہ کوفہ میں وارد ہوا اور لوگوں کا اس کے گرد اجتماع ہوا تو اس نے کہا کہ: جو پوچھنا چاہو پوچھ لو۔ اس پر امام ابو حنیفہ نے ایک شخص سے کہا کہ اس سے پوچھو کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے واقعہ میں جس چیونٹی کا ذکر ہے وہ مادہ تھی یا نر؟ اس سے دریافت کیا گیا مگر وہ جواب سے عاجز رہا۔ جب حضرت ابو حنیفہ سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ وہ مادہ تھی۔ لوگوں نے کہا کہ اس کی دلیل کیا ہے؟ کہا کہ اللہ سبحانہ کا ارشاد: ﴿ قَالَتْ نَمْلَةٌ﴾ [۲] اس کے مادہ ہو نے کی دلیل ہے۔ اگر نر ہوتا تو ﴿قَالَتْ﴾ کی بجائے ’’قَالَ‘‘ ہوتا۔ لیکن یہ جواب درست نہیں ہے، کیونکہ ﴿نَمْــلَۃٌ﴾ کا اطلاق مذکر و مؤنث پر یکساں ہوتا ہے اور فعل کی تانیث ’’نملۃ‘‘ کی تانیثِ لفظی کی وجہ سے ہے، نہ اس کے مادہ ہونے کی بنا پر۔
۷۔ ابن جوزی نے ایک دن منبر پر یہی دعویٰ کیا تو ایک خاتون نے دریافت کیا کہ اس روایت کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام سلمان کی خبر مرگ سن کر ایک ہی رات میں مدائن پہنچ گئے اور ان کی تجہیز و تکفین کی۔ فرمایا کہ ہاں درست ہے۔ پھر اس نے پوچھا کہ اس روایت کے متعلق کیا کہتے ہو کہ خلیفہ ثالث تین دن تک دفن نہ ہو سکے، حالانکہ امیر المومنین علیہ السلام مدینہ ہی میں تشریف فرما تھے۔کہا کہ ہاں یہ بھی درست ہے۔ اس نے پھر کہا کہ ان میں امیر المومنین علیہ السلام کا کون سا اقدام درست اور کون سا غلط تھا؟ یہ سن کر وہ کچھ چکرا سے گئے، مگر پھر سنبھل کر بولے کہ: اے خاتون! اگر تو شوہر کے اِذن سے آئی ہے تو اس پر لعنت ہو، ورنہ تجھ پر کہ تو بے جھجک یہاں چلی آئی ہے۔ اس نے کہا کہ اے ابن جوزی! کیا میں پوچھ سکتی ہوں کہ اُمّ المومنین کا نکلنا کس ذیل میں آتا ہے؟ اس کے بعد ابن جوزی کیلئے جواب کی کوئی گنجائش نہ تھی۔
۸۔ ابن ابی الحدید نے لکھا ہے کہ: الناصر لدین اللہ کے عہد میں ایک واعظ طلاقت لسانی میں بڑی شہرت رکھتا تھا۔ ایک دفعہ اس نے دوران بیان میں صفاتِ باری کا مسئلہ چھیڑ دیا جس پر بغداد کے ایک شخص احمد ابن عبدالعزیز نے کچھ اعتراضات کئے جن کا کوئی معقول جواب تو وہ دے نہ سکا، البتہ اپنی عظمت و جلالت کا سکّہ بٹھا نے کیلئے پر شکوہ لفظوں اور مسجع عبارتوں سے کھیلنا شروع کیا جس سے عوام جھومنے لگے اور ہر طرف سے تحسین و آفرین کی آوازیں آنے لگیں۔ واعظ بھی غرور علمی کے نشہ باطل میں بہک گیا اور مجمع سے کہنے لگا کہ: ’’جو پوچھنا چاہو پوچھ لو‘‘، جس پر احمد نے کہا کہ اے شخص! یہ دعویٰ تو حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا ہے اور اس کلام کا ایک تتمہ یہ بھی ہے کہ: ’’میرے بعد یہ دعویٰ وہی کرے گا جو جھوٹا ہو گا‘‘۔ واعظ نے اپنے علم کی نمائش کرتے ہوئے بڑی تمکنت سے کہا کہ: تم کس علی ابن ابی طالب کا ذکر کرتے ہو؟ کیا علی ابن ابی طالب ابن مبارک نیشاپوری کا؟ یا علی ابن ابی طالب ابن اسحاق مروزی کا؟ یا علی ابن ابی طالب بن عثمان قیروانی کا؟ یا علی ابن ابی طالب ابن سلیمان رازی کا؟ اسی طرح کتنے ہی اشخاص گنوا دیئے جن کا نام علی ابن ابی طالب تھا۔
یہ سن کر احمد نے کہا: واہ، سبحان اللہ! اس وسعت علمی کا کیا ٹھکانا، مگر میری مراد وہ ہیں جو سیدة نساء العالمین کے شوہر تھے اور جب پیغمبر ﷺ نے صحابہ میں ایک کو دوسرے کا بھائی بنایا تھا تو انہیں اپنی اخوت کیلئے منتخب کیا تھا۔ اس نے کچھ جواب دینا چاہا کہ منبر کی داہنی طرف سے ایک شخص کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ: اے شیخ! محمد ابن عبد اللہ نام کے تو سینکڑوں ملیں گے، مگر ان میں ایک بھی ایسا نہ ملے گا جس کے حق میں قدرت نے یہ کہا ہو کہ: ﴿مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوٰى‌ۚ‏ ﴿۲﴾ وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىؕ‏ ﴿۳﴾ اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْىٌ يُّوْحٰىۙ‏ ﴾[۳]: ’’تمہارے ساتھی (پیغمبرؐ) نہ بھٹکے نہ گمراہ ہوئے اور وہ خواہش سے مغلوب ہو کر کچھ نہیں بولتے، یہ تو وحی ہے جو ان پر اترتی ہے‘‘۔ اسی طرح ’’علی ابن ابی طالب‘‘ نام کے تو بہت سے افراد مل جائیں گے، مگر ان میں ایک بھی ایسا نہیں ہے جس کے بارے میں زبان وحی ترجمان نے یہ کہا ہو کہ: «اَنْتَ مِنِّیْ بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُّوْسٰى اِلَّاۤ اَنَّهٗ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ» : ’’تم مجھ سے وہی نسبت رکھتے ہو جو ہارون علیہ السلام موسیٰ علیہ السلام سے رکھتے تھے، مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے‘‘۔ اب واعظ نے ادھر رخ کرنا چاہا تو بائیں طرف سے ایک شخص بول اٹھا کہ ہاں ہاں! اگر تم علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو نہ پہچانو تو اس تجاہلِ عارفانہ سے ان کی قدر و منزلت گھٹ نہیں سکتی:
شب پره گر وصل آفتاب نخواهد
رونق بازار آفتاب نکاهد
اس بحثا بحثی کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ آپس میں الجھ پڑے اور واعظ منہ چھپا کر بھاگ کھڑا ہوا۔

[۱]۔ شرح نہج البلاغہ، ابن میثم، ج ۴، ص ۲۰۰۔
[۲]۔ سورۂ نمل، آیت ۱۸۔
[۳]۔ سورۂ نجم، آیت ۲-۴۔