’’صبر‘‘کی چار شاخیں ہیں: اشتیاق، خوف، دنیا سے بے اعتنائی اور انتظار۔ حکمت 30
(٢٣٤) وَ مِنْ خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۲۳۴)
فَاعْمَلُوْا وَ اَنْتُمْ فِیْ نَفَسِ الْبَقَآءِ، وَ الصُّحُفُ مَنْشُوْرَةٌ، وَ التَّوْبَةُ مَبْسُوْطَةٌ، وَ الْمُدْبِرُ یُدْعٰی، وَ الْمُسِیْءُ یُرْجٰی، قَبْلَ اَنْ یَّخْمُدَ الْعَمَلُ، وَ یَنَقَطِعَ الْمَهَلُ، وَ یَنْقَضِیَ الْاَجَلُ، وَ یُسَدَّ بَابُ التَّوْبَةِ، وَ تَصْعَدَ الْمَلٰٓئِكَةُ.
اعمال بجا لاؤ ابھی جبکہ تم زندگی کی فراخی و وسعت میں ہو، اعمال نامے کھلے ہوئے اور توبہ کا دامن پھیلا ہوا ہے۔ اللہ سے رخ پھیر لینے والے کو پکارا جا رہا ہے اور گنہگاروں کو امید دلائی جا رہی ہے، قبل اس کے کہ عمل کی روشنی گل ہو جائے اور مہلت ہاتھ سے جاتی رہے اور مدت ختم ہو جائے اور توبہ کا دروازہ بند ہو جائے اور ملائکہ آسمان پر چڑھ جائیں۔
فَاَخَذَ امْرُؤٌ مِّنْ نَّفْسِهٖ لِنَفْسِهٖ، وَ اَخَذَ مِنْ حَیٍّ لِّمَیِّتٍ، وَ مِنْ فَانٍ لِّبَاقٍ، وَ مِنْ ذَاهِبٍ لِّدَآئِمٍ.
چاہیے کہ انسان خود اپنے سے اپنے واسطے اور زندہ سے مردہ کیلئے اور فانی سے باقی کی خاطر اور جانے والی زندگی سے حیاتِ جاودانی کیلئے نفع و بہبود حاصل کرے۔
اِمْرُءٌ خَافَ اللهَ وَ هُوَ مُعَمَّرٌ اِلٰۤی اَجَلِهٖ، وَ مَنْظُوْرٌ اِلٰی عَمَلِهٖ. امْرُءٌ اَلْجَمَ نَفْسَهٗ بِلِجَامِهَا، وَ زَمَّهَا بِزِمَامِهَا، فَاَمْسَكَهَا بِلِجَامِهَا عَنْ مَّعَاصِی اللهِ، وَ قَادَهَا بِزِمَامِهَاۤ اِلٰی طَاعَةِ اللهِ.
وہ انسان جسے ایک مدت تک عمر دی گئی ہے اور عمل کی انجام دہی کیلئے مہلت بھی ملی ہے اُسے اللہ سے ڈرنا چاہیے۔ مرد وہ ہے جو اپنے نفس کو لگام دے کر اور اُس کی باگیں چڑھا کر اپنے قابو میں رکھے اور لگام کے ذریعہ اُسے اللہ کی نافرمانیوں سے روکے اور اُس کی باگیں تھام کر اللہ کی اطاعت کی طرف اُسے کھینچ لے جائے۔