فہرست خطبات

1- معرفت باری تعالیٰ، زمین و آسمان اور آدمؑ کی خلقت، احکام و حج
2- عرب قبل از بعثت، اہل بیتؑ کی فضیلت اور ایک جماعت کی منقصت
3- (خطبہ شقشقیہ) خلفائے ثلاثہ کی حکومت کے بارے میں آپؑ کا نظریہ
4- آپکیؑ کی دوررس بصیرت، یقین کامل اور موسیؑ کا خوفزدہ ہونا
5- پیغمبرﷺ کے بعد جب ابو سفیان نے آپؑ کی بیعت کرنا چاہی
6- طلحہ و زبیر کے تعاقب سےآپؑ کو روکا گیا تو اس موقع پر فرمایا
7- منافقین کی حالت
8- جب زبیر نے یہ کہا میں نے دل سے بیعت نہ کی تھی تو آپؑ نے فرما
9- اصحاب جمل کا بوداپن
10- طلحہ و زبیر کے بارے میں
11- محمد بن حنفیہ کو آداب حرم کی تعلیم
12- عمل کا کردار اور مدار نیت پر ہے۔
13- بصرہ اور اہل بصرہ کی مذمت میں
14- اہل بصرہ کی مذمت میں
15- عثمان کی دی ہوئی جا گیریں جب پلٹا لیں تو فرمایا
16- جب اہل مدینہ نے آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کی تو فرمایا
17- مسند قضا پر بیٹھنے والے نا اہلوں کی مذمت میں
18- علماء کے مختلف الاراء ہونے کی مذمت اور تصویب کی رد
19- اشعث بن قیس کی غداری و نفاق کا تذکرہ
20- موت کی ہولناکی اور اس سے عبرت اندوزی
21- دنیا میں سبکبار رہنے کی تعلیم
22- قتل عثمان کا الزام عائد کرنے والوں کے بارے میں
23- حسد سے باز رہنے اور عزیزو اقارب سے حسن سلوک کے بارے میں
24- جنگ پر آمادہ کرنے کے لیے فرمایا
25- بسر کے حملے کے بعد جنگ سے جی چرانے والوں سے فرمایا
26- عرب قبل از بعثت اور پیغمبرﷺ کے بعد دنیا کی بے رخی
27- جہاد پر برانگیختہ کرنےکے لیے فرمایا
28- دنیا کی بے ثباتی اور زاد آخرت کی اہمیت کا تذکرہ
29- جنگ کے موقعہ پر حیلے بہانے کرنے والوں کے متعلق فرمایا
30- قتل عثمان کے سلسلے میں آپؑ کی روش
31- جنگ جمل پہلے ابن عباس کو زبیر کے پاس جب بھیجنا
32- دنیا کی مذمت اور اہل دنیا کی قسمیں
33- جب جنگ جمل کے لیے روانہ ہوئے تو فرمایا
34- اہل شام کے مقابلے میں لوگوں کو آمادۂ جنگ کرنے کے لیے فرمایا
35- تحکیم کے بارے میں فرمایا
36- اہل نہروان کو ان کے انجام سے مطلع کرنے کے لیے فرمایا
37- اپنی استقامت دینی و سبقت ایمانی کے متعلق فرمایا
38- شبہہ کی وجہ تسمیہ اور دوستان خدا و دشمنان خدا کی مذمت
39- جنگ سے جی چرانے والوں کی مذمت میں
40- خوارج کے قول «لاحکم الا للہ» کے جواب میں فرمایا
41- غداری کی مذمت میں
42- نفسانی خواہشوں اور لمبی امیدوں کے متعلق فرمایا
43- جب ساتھیوں نے جنگ کی تیاری کے لیے کہا تو آپؑ نے فرمایا
44- جب مصقلہ ابن ہبیرہ معاویہ کے پاس بھاگ گیا تو آپؑ نے فرمایا
45- اللہ کی عظمت اور جلالت اور دنیا کی سبکی و بے وقاری کے متعلق
46- جب شام کی جانب روانہ ہوئے تو فرمایا
47- کوفہ پر وارد ہونے والی مصیبتوں کے متعلق فرمایا
48- جب شام کی طرف روانہ ہوئے تو فرمایا
49- اللہ کی عظمت و بزرگی کے بارے میں فرمایا
50- حق و باطل کی آمیزش کے نتائج
51- جب شامیوں نے آپؑ کے ساتھیوں پر پانی بند کر دیا تو فرمایا
52- دنیا کے زوال وفنا اور آخرت کے ثواب و عتاب کے متعلق فرمایا
53- گوسفند قربانی کے اوصاف
54- آپؑ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کا ہجوم
55- میدان صفین میں جہاد میں تاخیر پر اعتراض ہوا تو فرمایا
56- میدان جنگ میں آپؑ کی صبر و ثبات کی حالت
57- معاویہ کے بارے میں فرمایا
58- خوارج کےبارے میں آپؑ کی پیشینگوئی
59- خوارج کی ہزیمت کے متعلق آپؑ کی پیشینگوئی
60- جب اچانک قتل کر دیے جانے سے ڈرایا گیا تو آپؑ نے فرمایا
61- دنیا کی بے ثباتی کا تذکرہ
62- دنیا کے زوال و فنا کے سلسلہ میں فرمایا
63- صفات باری کا تذکرہ
64- جنگ صفین میں تعلیم حرب کےسلسلے میں فرمایا
65- سقیفہ بنی ساعدہ کی کاروائی سننے کے بعد فرمایا
66- محمد بن ابی بکرکی خبر شہادت سن کر فرمایا
67- اپنے اصحاب کی کجروی اور بے رخی کے بارے میں فرمایا
68- شب ضربت سحر کے وقت فرمایا
69- اہل عراق کی مذمت میں فرمایا
70- پیغمبرﷺ پر درود بھیجنے کا طریقہ
71- حسنینؑ کی طرف سے مروان کی سفارش کی گئی تو آپؑ نے فرمایا
72- جب لوگوں نے عثمان کی بیعت کا ارادہ کیا تو آپؑ نے فرمایا
73- قتل عثمان میں شرکت کا الزام آپؑ پر لگایا گیا تو فرمایا
74- پند و نصیحت کے سلسلے میں فرمایا
75- بنی امیہ کے متعلق فرمایا
76- دعائیہ کلمات
77- منجمین کی پیشینگوئی کی رد
78- عورتوں کے فطری نقائص
79- پند و نصیحت کے سلسلے میں فرمایا
80- اہل دنیا کے ساتھ دنیا کی روش
81- موت اور اس کے بعد کی حالت، انسانی خلقت کے درجات اور نصائح
82- عمرو بن عاص کے بارے میں
83- تنزیہ بازی اور پند و نصائح کے سلسلے میں فرمایا
84- آخرت کی تیاری اور احکام شریعت کی نگہداشت کے سلسلے میں فرمایا
85- دوستان خدا کی حالت اور علماء سوء کی مذمت میں فرمایا
86- امت کے مختلف گروہوں میں بٹ جانے کے متعلق فرمایا
87- بعثت سے قبل دنیا کی حالت پراگندگی اور موجودہ دور کے لوگ
88- صفات باری اور پند و موعظت کےسلسلے میں فرمایا
89- (خطبہ اشباح) آسمان و زمین کی خلقت
90- جب آپؑ کے ہاتھ پر بیعت ہوئی تو فرمایا
91- خوارج کی بیخ کنی اور اپنے علم کی ہمہ گیری و فتنہ بنی امیہ
92- خداوند عالم کی حمد و ثناء اور انبیاء کی توصیف میں فرمایا
93- بعثت کے وقت لوگوں کی حالت اور پیغمبرﷺ کی مساعی
94- نبی کریم ﷺ کی مدح و توصیف میں فرمایا
95- اپنے اصحاب کو تنبیہہ اور سرزنش کرتے ہوئے فرمایا
96- بنی امیہ اور ان کے مظالم کے متعلق فرمایا
97- ترکِ دینا اور نیرنگیٔ عالم کے سلسلہ میں فرمایا
98- اپنی سیرت و کردار اور اہل بیتؑ کی عظمت کے سلسلہ میں فرمایا
99- عبد الملک بن مروان کی تاراجیوں کے متعلق فرمایا
100- بعد میں پیدا ہونے والے فتنوں کے متعلق فرمایا
101- زہد و تقو یٰ اور اہل دنیا کی حالت کے متعلق فرمایا
102- بعثت سے قبل لوگوں کی حالت اور پیغمبر ﷺکی تبلیغ و ہدایت
103- پیغمبر اکرمﷺ کی مدح و توصیف اور فرائضِ امام کے سلسلہ میں
104- شریعت اسلام کی گرانقدری اور پیغمبرﷺ کی عظمت کے متعلق فرمایا
105- صفین میں جب حصہ لشکر کے قدم اکھڑنے کے جم گئے تو فرمایا
106- پیغمبرﷺ کی توصیف اور لوگوں کے گوناگون حالات کے بارے میں
107- خداوند عالم کی عظمت، ملائکہ کی رفعت ،نزع کی کیفیت اور آخرت
108- فرائضِ اسلام اور علم وعمل کے متعلق فرمایا
109- دنیا کی بے ثباتی کے متعلق فرمایا
110- ملک الموت کے قبضِ رُوح کرنے کے متعلق فرمایا
111- دنیا اور اہل دنیا کے متعلق فرمایا
112- زہد و تقویٰ اور زادِ عقبیٰ کی اہمیت کے متعلق
113- طلب باران کے سلسلہ میں فرمایا
114- آخرت کی حالت اور حجاج ابن یوسف ثقفی کے مظالم کے متعلق
115- خدا کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرنے کے متعلق فرمایا
116- اپنے دوستوں کی حالت اور اپنی اولیت کے متعلق فرمایا
117- جب اپنے ساتھیوں کو دعوت جہاد دی اور وہ خاموش رہے تو فرمایا
118- اہل بیتؑ کی عظمت اور قوانین شریعت کی اہمیت کے متعلق فرمایا
119- تحکیم کے بارے میں آپؑ پر اعتراض کیا گیا تو فرمایا
120- جب خوارج تحکیم کے نہ ماننے پر اڑ گئے تو احتجاجاً فرمایا
121- جنگ کے موقع پر کمزور اور پست ہمتوں کی مدد کرنے کی سلسلہ میں
122- میدان صفین میں فنونِ جنگ کی تعلیم دیتے ہوئے فرمایا
123- تحکیم کو قبول کرنے کے وجوہ و اسباب
124- بیت المال کی برابر کی تقسیم پر اعتراض ہوا تو فرمایا
125- خوارج کے عقائد کے رد میں
126- بصرہ میں ہونے والے فتنوں، تباہ کاریوں اور حملوں کے متعلق
127- دنیا کی بے ثباتی اور اہل دنیا کی حالت
128- حضرت ابوذر کو مدینہ بدر کیا گیا تو فرمایا
129- خلافت کو قبول کرنے کی وجہ اور والی و حاکم کے اوصاف
130- موت سے ڈرانے اور پند و نصیحت کے سلسلہ میں فرمایا
131- خداوند ِعالم کی عظمت، قرآن کی اہمیت اور پیغمبرﷺ کی بعثت
132- جب مغیرہ بن اخنس نے عثمان کی حمایت میں بولنا چاہا تو فرمایا
133- غزوہ روم میں شرکت کے لیے مشورہ مانگا گیا تو فرمایا
134- اپنی نیت کے اخلاص اور مظلوم کی حمایت کے سلسلہ میں فرمایا
135- طلحہ و زبیر اور خونِ عثمان کے قصاص اور اپنی بیعت کے متعلق
136- ظہورِ حضرت قائم علیہ السلام کے وقت دُنیا کی حالت
137- شوریٰ کے موقع پر فرمایا
138- غیبت اور عیب جوئی سے ممانعت کے سلسلہ میں فرمایا
139- سُنی سُنائی باتوں کو سچا نہ سمجھنا چاہئے
140- بے محل داد و دہش سے ممانعت اور مال کا صحیح مصرف
141- طلبِ باران کے سلسلہ میں فرمایا
142- اہل بیتؑ راسخون فی العلم ہیں اور وہی امامت وخلافت کے اہل ہیں
143- دُنیا کی اہل دُنیا کے ساتھ روش اور بدعت و سنت کا بیان
144- جب حضرت عمر نے غزوہ فارس کیلئے مشورہ لیا تو فرمایا
145- بعثتِ پیغمبر کی غرض و غایت اور اُس زمانے کی حالت
146- طلحہ وزبیر کے متعلق فرمایا
147- موت سے کچھ قبل بطور وصیّت فرمایا
148- حضرت حجتؑ کی غیبت اور پیغمبرﷺ کے بعد لوگوں کی حالت
149- فتنوں میں لوگوں کی حالت اور ظلم اور اکل حرام سے اجتناب
150- خداوند عالم کی عظمت و جلالت کا تذکرہ اور معرفت امام کے متعلق
151- غفلت شعاروں، چوپاؤں، درندوں اور عورتوں کے عادات و خصائل
152- اہل بیتؑ کی توصیف، علم وعمل کا تلازم اور اعمال کا ثمرہ
153- چمگادڑ کی عجیب و غریب خلقت کے بارے میں
154- حضرت عائشہ کے عناد کی کیفیت اور فتنوں کی حالت
155- دُنیا کی بے ثباتی، پندو موعظت اور اعضاء و جوارح کی شہادت
156- بعثت پیغمبرﷺ کا تذکرہ، بنی اُمیّہ کے مظالم اور ان کا انجام
157- لوگوں کے ساتھ آپ کا حُسنِ سلوک اور ان کی لغزشوں سے چشم پوشی
158- خداوندِعالم کی توصیف ،خوف ورجاء، انبیاءؑ کی زندگی
159- دین اسلام کی عظمت اور دُنیا سے درس عبرت حاصل کرنے کی تعلیم
160- حضرتؑ کو خلافت سے الگ رکھنے کے وجوہ
161- اللہ کی توصیف، خلقت انسان اور ضروریات زندگی کی طرف رہنمائی
162- امیرالمومنینؑ کا عثمان سے مکالمہ اور ان کی دامادی پر ایک نظر
163- مور کی عجیب و غریب خلقت اور جنّت کے دلفریب مناظر
164- شفقت و مہربانی اور ظاہر و باطن کی تعلیم اور بنی امیہ کا زوال
165- حقوق و فرائض کی نگہداشت اور تمام معاملات میں اللہ سے خوف
166- جب لوگوں نے قاتلین عثمان سے قصاص لینے کی فرمائش کی تو فرمایا
167- جب اصحاب جمل بصرہ کی جانب روانہ ہوئے تو فرمایا
168- اہل بصرہ سے تحقیق حال کے لئے آنے والے شخص سے فرمایا
169- صفین میں جب دشمن سے دوبدو ہوکر لڑنے کا ارادہ کیا تو فرمایا
170- جب آپؑ پر حرص کا الزام رکھا گیا تو اس کی رد میں فرمایا
171- خلافت کا مستحق کون ہے اور ظاہری مسلمانوں سے جنگ کرنا
172- طلحہ بن عبیداللہ کے بارے میں فرمایا
173- غفلت کرنے والوں کو تنبیہ اور آپؑ کے علم کی ہمہ گیری
174- پند دو موعظت، قرآن کی عظمت اور ظلم کی اقسام
175- حکمین کے بارے میں فرمایا
176- خداوند عالم کی توصیف، دُنیا کی بے ثباتی اور اسباب زوال نعمت
177- جب پوچھا گیا کہ کیا آپؑ نے خدا کو دیکھا ہے تو فرمایا
178- اپنے اصحاب کی مذمت میں فرمایا
179- خوارج سے مل جانے کا تہیّہ کرنے والی جماعت سے فرمایا
180- خداوند عالم کی تنزیہ و تقدیس اور قدرت کی کا ر فرمائی
181- خداوند عالم کی توصیف، قرآن کی عظمت اور عذاب آخرت سے تخویف
182- جب «لا حکم الا اللہ» کا نعرہ لگایا گیا تو فرمایا
183- خداوند عالم کی عظمت و توصیف اور ٹڈی کی عجیب و غریب خلقت
184- مسائل الٰہیات کے بُنیادی اُصول کا تذکرہ
185- فتنوں کے ابھرنے اور رزقِ حلال کے ناپید ہو جانے کے بارے میں
186- خداوند عالم کے احسانات، مرنے والوں کی حالت اور بے ثباتی دنیا
187- پختہ اور متزلزل ایمان اور دعویٰ سلونی «قبل ان تفقدونی»
188- تقویٰ کی اہمیت، ہولناکی قبر، اللہ، رسول اور اہل بیت کی معرفت
189- خداوند عالم کی توصیف، تقویٰ کی نصیحت، دنیا اور اہل دنیا
190- (خطبہ قاصعہ) جس میں ابلیس کی مذمت ہے۔
191- متقین کے اوصاف اور نصیحت پذیر طبیعتوں پر موعظت کا اثر
192- پیغمبر ﷺکی بعثت، قبائلِ عرب کی عداوت اور منافقین کی حالت
193- خداوند عالم کی توصیف، تقویٰ کی نصیحت اور قیامت کی کیفیت
194- بعثتِ پیغمبرؐ کے وقت دنیا کی حالت، دنیا کی بے ثباتی
195- حضورﷺ کے ساتھ آپؑ کی خصوصیات اور حضور ﷺ کی تجہیز و تکفین
196- خداوند عالم کے علم کی ہمہ گیری، تقویٰ کے فوائد
197- نماز، زکوٰة اور امانت کے بارے میں فرمایا
198- معاویہ کی غداری و فریب کاری اور غداروں کا انجام
199- راہ ہدایت پر چلنے والوں کی کمی اور قوم ثمود کا تذکرہ
200- جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کے دفن کے موقع پر فرمایا
201- دنیا کی بے ثباتی اور زاد آخرت مہیا کرنے کے لیے فرمایا
202- اپنے اصحاب کو عقبیٰ کے خطرات سے متنبہ کرتے ہوئے فرمایا
203- طلحہ و زبیر نے مشورہ نہ کرنے کا شکوہ کیا تو فرمایا
204- صفین میں شامیوں پر شب و ستم کیا گیا تو فرمایا
205- جب امام حسنؑ صفین کے میدان میں تیزی سے بڑھے تو فرمایا
206- صفین میں لشکر تحکیم کے سلسلہ میں سرکشی پر اُتر آیا تو فرمایا
207- علاء ابن زیاد حارثی کی عیادت کو موقع پر فرمایا
208- اختلاف احادیث کے وجوہ و اسباب اور رواة حدیث کے اقسام
209- خداوند عالم کی عظمت اور زمین و آسمان اور دریاؤں کی خلقت
210- حق کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لینے والوں کے بارے میں فرمایا
211- خداوند عالم کی عظمت اور پیغمبرؐ کی توصیف و مدحت
212- پیغمبرﷺ کی خاندانی شرافت اور نیکو کاروں کے اوصاف
213- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
214- حکمران اور رعیّت کے باہمی حقوق کے بارے میں فرمایا
215- قریش کے مظالم کے متعلق فر مایا اور بصرہ پر چڑھائی کے متعلق
216- طلحہ اور عبد الرحمن بن عتاب کو مقتول دیکھا تو فرمایا
217- متقی و پرہیزگار کے اوصاف
218- ”الہاکم التکاثر حتی زرتم المقابر“ کی تلاوت کے وقت فرمایا
219- ” رجال لا تلہیھم تجارة و لا بیع عن ذکر اللہ “ کی تلاوت کے وق
220- ” یا اٴیھا الانسان ما غرّک بربک الکریم “ کی تلاوت کے وقت فرم
221- ظلم و غصب سے کنارہ کشی، عقیل کی حالت فقر و احتیاج، اور اشعث
222- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
223- دنیا کی بے ثباتی اور اہل قبور کی حالت بے چارگی
224- آپؑ کے دُعائیہ کلمات
225- انتشار و فتنہ سے قبل دنیا سے اٹھ جانے والوں کے متعلق فرمایا
226- اپنی بیعت کے متعلق فرمایا
227- تقویٰ کی نصیحت موت سے خائف رہنے اور زہد اختیار کرنے کے متعلق
228- جب بصرہ کی طرف روانہ ہوئے تو فرمایا
229- عبد اللہ ابن زمعہ نے آپؑ سے مال طلب کیا تو فرمایا
230- جب جعدہ ابن ہبیرہ خطبہ نہ دے سکے تو فرمایا
231- لوگوں کے اختلاف صورت و سیرت کی وجوہ و اسباب
232- پیغمبر ﷺ کو غسل و کفن دیتے وقت فرمایا
233- ہجرتِ پیغمبر ﷺ کے بعد اُن کے عقب میں روانہ ہونے کے متعلق
234- زادِ آخرت مہیا کرنے اور موت سے پہلے عمل بجا لانے کے متعلق
235- حکمین کے بارے میں فرمایا اور اہل شام کی مذمت میں فرمایا
236- آلِ محمدؑ کی توصیف اور روایت میں عقل و درایت سے کام لینا
237- جب عثمان نے ینبع چلے جانے کے لیے پیغام بھجوایا تو فرمایا
238- اصحاب کو آمادہ جنگ کرنے اور آرام طلبی سے بچنے کے لئے فرمایا

Quick Contact

فرصت کی گھڑیاں (تیزرَو) اَبر کی طرح گزر جاتی ہیں۔لہٰذا بھلائی کے ملے ہوئے موقعوں کو غنیمت جانو۔ حکمت 20
(٢٠٧) وَ مِنْ كَلَامٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۲۰۷)
بِالْبَصْرَةِ وَ قَدْ دَخَلَ عَلَى الْعَلَاءِ بْنِ زِیَادٍ الْحَارِثِیِّ وَ هُوَ مِنْ اَصْحَابِهٖ یَعُوْدُهٗ،فَلَمَّا رَاٰى سَعَةَ دَارِهٖ قَالَ ؑ:
بصرہ میں اپنے ایک صحابی علاء ابن زیاد حارثی کے ہاں عیادت کیلئے تشریف لے گئے تو اس کے گھر کی وسعت کو دیکھ کر فرمایا:
مَا كُنْتَ تَصْنَعُ بِسَعَةِ هٰذِهِ الدَّارِ فِی الدُّنْیَا، اَمَا اَنْتَ اِلَیْهَا فِی الْاٰخِرَةِ كُنْتَ اَحْوَجَ؟ وَ بَلٰۤی اِنْ شِئْتَ بَلَغْتَ بِهَا الْاٰخِرَةَ: تَقْرِیْ فِیْهَا الضَّیْفَ، وَ تَصِلُ فِیْهَا الرَّحِمَ، وَ تُطْلِعُ مِنْهَا الْحُقُوْقَ مَطَالِعَهَا، فَاِذَاۤ اَنْتَ قَدْ بَلَغْتَ بِهَا الْاٰخِرَةَ.
تم دنیا میں اس گھر کی وسعت کو کیا کرو گے؟ درآنحالیکہ آخرت میں تم گھر کی وسعت کے زیادہ محتاج ہو (کہ جہاں تمہیں ہمیشہ رہنا ہے)۔ ہاں! اگر اس کے ساتھ تم آخرت میں بھی وسیع گھر چاہتے ہو تو اس میں مہمانوں کی مہمان نوازی، قریبیوں سے اچھا برتاؤ اور موقع و محل کے مطابق حقوق کی ادائیگی کرو۔ اگر ایسا کیا تو اس کے ذریعے آخرت کی کامرانیوں کو پالو گے۔
فَقَالَ لَهُ الْعَلَآءُ: یَاۤ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ، اَشْكُوْۤ اِلَیْكَ اَخِیْ عَاصِمَ بْنَ زِیَادٍ. قَالَ: وَ مَا لَهٗ؟ قَالَ: لَبِسَ الْعَبَآءَةَ وَ تَخَلّٰی عَنِ الدُّنْیَا. قَالَ: عَلَیَّ بِهٖ. فَلمَّا جَآءَ قَالَ ؑ:
علاء ابن زیاد نے کہا کہ: یا امیر المومنینؑ! مجھے اپنے بھائی عاصم ابن زیاد کی آپؑ سے شکایت کرنا ہے۔ حضرتؑ نے پوچھا: ’’کیوں، اسے کیا ہوا؟‘‘ علاء [۱] نے کہا کہ: اس نے بالوں کی چادر اوڑھ لی ہے اور دنیا سے بالکل بے لگاؤ ہو گیا ہے تو حضرتؑ نے کہا کہ: ’’اسے میرے پاس لاؤ‘‘۔ جب وہ آیا تو آپؑ نے فرمایا کہ:
یَا عُدَیَّ نَفْسِهٖ! لَقَدِ اسْتَهَامَ بِكَ الْخَبِیْثُ! اَمَا رَحِمْتَ اَهْلَكَ وَ وَلَدَكَ! اَتَرَی اللهَ اَحَلَّ لَكَ الطَّیِّبٰتِ، وَ هُوَ یَكْرَهُ اَنْ تَاْخُذَهَا! اَنْتَ اَهْوَنُ عَلَی اللهِ مِنْ ذٰلِكَ!.
اے اپنی جان کے دشمن! تمہیں شیطان خبیث نے بھٹکا دیا ہے، تمہیں اپنی آل اولاد پر ترس نہیں آتا؟ اور کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اللہ نے جن پاکیزہ چیزوں کو تمہارے لئے حلال کیا ہے اگر تم انہیں کھاؤ برتو گے تو اسے ناگوار گزرے گا؟ تم اللہ کی نظروں میں اس سے کہیں زیادہ گرے ہوئے ہو کہ وہ تمہارے لئے یہ چاہے۔
قَالَ: یَاۤ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ! هٰذَاۤ اَنْتَ فِیْ خُشُوْنَةِ مَلْبَسِكَ وَ جُشُوْبَةِ مَاْكَلِكَ؟!
اس نے کہا کہ یا امیر المومنینؑ! یہ آپؑ کا پہناوا بھی تو موٹا جھوٹا اور کھانا روکھا سوکھا ہوتا ہے؟
قَالَ: وَیْحَكَ! اِنِّیْ لَسْتُ كَاَنْتَ، اِنَّ اللهَ فَرَضَ عَلٰۤی اَئِمَّةِ الْعَدْلِ اَنْ یُّقَدِّرُوْۤا اَنْفُسَهُمْ بِضَعَفَةِ النَّاسِ، كَیْلَا یَتَبَیَّغَ بِالْفَقِیْرِ فَقْرُهٗ!.
تو حضرتؑ نے فرمایا کہ: تم پر حیف ہے! میں تمہارے مانند نہیں ہوں۔ خدا نے آئمہ حق پر فرض کیا ہے کہ وہ اپنے کو مفلس و نادار لوگوں کی سطح پر رکھیں، تاکہ مفلوک الحال اپنے فقر کی وجہ سے پیچ و تاب نہ کھائے۔

۱؂’’رہبانیت‘‘ و ’’ترک علائق‘‘ کو زمانہ قدیم سے طہارت نفس و درستگی اعمال کا ذریعہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ چنانچہ جو لوگ زہد و استغراق میں زندگی بسر کرنا چاہتے تھے وہ شہروں اور بستیوں سے نکل کھڑے ہوتے اور جنگلوں اور پہاڑوں کی غاروں میں سکونت اختیار کر کے بخیال خود الله سے لو لگائے پڑے رہتے۔ اگر کسی راہ گیر یا آس پاس کی بستی والے نے کچھ کھانے کو دے دیا تو کھا لیا، ورنہ جنگلی درختوں کے پھلوں اور چشموں کے پانی پر قناعت کر لیتے اور اس طرح زندگی کے لمحات گزار دیتے۔
اس طریقہ عبادت کی ابتدا یوں ہوئی کہ کچھ لوگ حکمرانوں کے ظلم و تشدد سے تنگ آ کر اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے اور ان کی گرفت سے بچنے کیلئے کسی سنسان جنگل یا کسی پہاڑ کی کھو میں جا چھپے اور وہاں اللہ کی عبادت و پرستش میں منہمک ہو گئے۔ بعد میں اس قہری زہد و انزوا نے اختیاری صورت حاصل کر لی اور لوگ با ختیار خود کھوؤں اور غاروں میں گوشہ نشین ہونے لگے اور یہ طریقہ رائج ہو گیا کہ جو روحانی ترقی کا خواہشمند ہوتا وہ تمام دنیوی بندھنوں کو توڑ کر کسی گوشے میں معتکف ہو جاتا۔ چنانچہ صدیوں تک اس پر عمل در آمد ہوتا رہا اور اب تک اس طریقہ عبادت کے آثار بدھسٹوں اور عیسائیوں میں پائے جاتے ہیں۔
لیکن اسلام کا اعتدال پسندانہ مزاج اس خانقاہی زندگی سے سازگار نہیں ہے۔ وہ روحانی ترقی کیلئے دنیا کی نعمتوں اور سعادتوں سے ہاتھ اٹھا لینے کی تعلیم نہیں دیتا اور نہ اس چیز کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہے کہ مسلمان گھر بار چھوڑ کر اور ابنائے جنس سے علیحدہ ہو کر کسی گوشے میں چھپ کر بیٹھ جائے اور صرف رسمی عبادت میں لگا رہے۔ اسلام میں عبادت کا مفہوم صرف چند مخصوص اعمال تک محدود نہیں ہے، بلکہ جائز ذریعہ معاش سے روزی کی تلاش اور باہمی سلوک و ہمدردی اور تعاون و سازگاری کو بھی عبادت کا ایک اہم جزو قرار دیتا ہے۔ اگر انسان دنیوی حقوق و فرائض کو نظر انداز کر دے کہ نہ اہل و عیال کی ذمہ داریوں کو محسوس کرے، نہ کسب معاش کیلئے سعی و کوشش کو برسرکار رکھے اور دوسروں پر سہارا کر کے ہر وقت مراقبہ میں پڑا رہے تو وہ مقصد حیات کو پورا کرنے کے بجائے اپنی زندگی کو تباہ کر رہا ہے۔ اگر اللہ کو یہی چیز مطلوب ہوتی تو پھر دنیا کو بسانے اور آباد کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی، جب کہ پہلے ہی سے ایک ایسی مخلوق موجود تھی جو ہمہ وقت اس کی عبادت و پرستش میں مشغول رہتی تھی۔ انسان کو تو قدرت نے اس دو راہے پر کھڑا کیا ہے کہ جس میں حد وسط ہی ہدایت کا مرکز ہے کہ اگر ذرا اس نقطہ اعتدال سے اِدھر اُدھر ہوا تو اس کیلئے گمراہی ہی گمراہی ہے اور وہ حد وسط یہ ہے کہ انسان نہ دنیا کی طرف اتنا جھکے کہ آخرت کو نظر انداز کر کے صرف دنیا ہی کا ہو کر رہ جائے اور نہ دنیا سے اتنا کنارہ کش ہو جائے کہ کسی چیز سے کوئی لگاؤ نہ رکھے اور ہر چیز سے دستبردار ہو کر کسی گوشہ میں معتکف ہو جائے۔
جب الله نے انسان کو دنیا میں پیدا کیا ہے تو اسے اس دنیا میں رہتے ہوئے دستور حیات پر عمل پیرا ہونا چاہیے اور حد اعتدال میں رہتے ہوئے اللہ کی دی ہوئی نعمتوں اور آسائشوں سے بہرہ اندوز ہونا چاہیے۔ ایسا نہیں کہ اللہ کی حلال کی ہوئی چیزوں کو کھانا برتنا خدا پرستی کے خلاف ہو، بلکہ قدرت نے ان نعمتوں کو اسی لئے پیدا کیا ہے کہ ان سے فائدہ اٹھایا جائے۔ چنانچہ جو خاصان خدا تھے وہ دنیا میں مل جل کر رہتے سہتے اور دنیا داروں کی طرح کھاتے پیتے تھے، انہیں ویرانوں اور پہاڑوں کی غاروں کو اپنا مسکن بنانے اور دنیا والوں سے منہ موڑ کر کسی دور دراز جگہ پر منزل کرنے کی ضرورت نہ ہوتی تھی۔ بلکہ دنیا کے جھمیلوں میں پڑ کر الله کو یاد رکھتے تھے اور زندگی کی آسائشوں اور راحتوں کے باوجود موت کو نہ بھولتے تھے۔
رہبانیت کی زندگی عموماً ایسے مفاسد کا باعث ہوتی ہے کہ جو دنیا کے ساتھ عقبیٰ کو بھی تباہ و برباد کر دیتے ہیں اور انسان صحیح معنی میں «خَسِرَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ » کا مصداق ہو کر رہ جاتا ہے۔ چنانچہ جب فطری خواہشات کو حلال و مشروع طریقے سے پورا نہیں کیا جاتا تو انسان کا ذہن خیالات فاسدہ کا مرکز بن جاتا ہے اور اطمینان و یکسوئی سے عبادت کو سر انجام دینے سے قاصر رہتا ہے اور کبھی ہوائے نفس اس طرح اس پر غلبہ پا لیتی ہے کہ وہ تمام اخلاقی بندھنوں کو توڑ کر نفسانی خواہشوں کے پورا کرنے کے در پے ہو جاتا ہے اور پھر ہلاکت کے ایسے گڑھے میں جا پڑتا ہے کہ جس سے نکلنا نا ممکن ہو جاتا ہے۔ اسی لئے شریعت نے متاہل کی عبادت کو غیر متاہل کی عبادت پر فضیلت دی ہے، کیونکہ وہ عبادت و اعمال میں ذہنی سکون و یکسوئی بہم پہنچا سکتا ہے۔
وہ افراد جو جامہ تصوف پہن کر زہد و بے تعلقی دنیا اور روحانی عظمت کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں وہ اسلام کی عملی راہ سے الگ اور اس کی حکیمانہ تعلیم سے نا آشنا ہیں اور صرف شیطان کے بہکانے سے خود ساختہ سہاروں پر بھروسا کر کے ضلالت کے راستے پر گامزن ہیں۔ چنانچہ ان کی گمراہی اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ وہ اپنے پیشواؤں کو اس سطح پر سمجھنے لگتے ہیں کہ گویا ان کی آواز خدا کی آواز اور ان کا عمل خدا کا عمل ہے اور کبھی شرعی حدود و قیود سے اپنے کو آزاد سمجھتے ہوئے ہر امر قبیح کو اپنے لئے جائز قرار دے لیتے ہیں۔
اس الحاد و بے دینی کو ’’تصوف‘‘ کے نام سے پیش کیا جاتا ہے اور اس کے غیر شرعی اصولوں کو ’’طریقت‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے اور یہ مسلک اختیار کرنے والے ’’صوفی‘‘ کہے جاتے ہیں۔ سب سے پہلے ابو ہاشم کوفی و شامی نے یہ لقب اختیار کیا کہ جو اموی النسب اور جبری العقیدہ تھا۔ اسے اس لقب سے پکارے جانے کی وجہ یہ تھی کہ اس نے زہد و تقویٰ کی نمائش کیلئے ’’صوف‘‘ کا لباس پہن رکھا تھا۔ بعد میں اس لقب نے عمومیت حاصل کر لی اور اس کی وجہ تسمیہ میں مختلف توجیہات گھڑ لی گئیں۔ چنانچہ:
ایک توجیہ یہ ہے کہ ’’صوف‘‘ کے تین حرف ہیں: ’’ص، و، ف،‘‘۔ ’’صاد‘‘ سے مراد صبر، صدق اور صفا ہے اور ’’واو‘‘ سے مراد وُدّ، ورد اور وفا ہے اور ’’فا‘‘ سے مراد فرد، فقر اور فنا ہے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ یہ ’’صفہ‘‘ سے ماخوذ ہے اور صفہ مسجد نبوی کے قریب ایک چبوترا تھا جس پر کجھور کی شاخوں کی چھت پڑی ہوئی تھی جس میں رہنے والے ’’اصحاب صفہ‘‘ کہلاتے تھے اور غربت و بیچارگی کی وجہ سے وہیں پڑے رہتے تھے۔
تیسرا قول یہ ہے کہ عرب کے ایک قبیلہ کے جد اعلیٰ کا نام ’’صوفہ‘‘ تھا اور یہ قبیلہ خانہ کعبہ اور حجاج کی خدمت کے فرائض سر انجام دیتا تھا اور اسی قبیلہ کی نسبت سے یہ لوگ ’’صوفی‘‘ کہے جاتے ہیں۔
یہ گروہ متعدد فرقوں میں بٹا ہوا ہے، لیکن بنیادی فرقے صرف سات ہیں:
۱۔ وحدتیہ:یہ فرقہ وحدة الوجود کا قائل ہے۔ چنانچہ اس کا عقیدہ یہ ہے کہ دنیا کی ہر چیز خدا ہے، یہاں تک کہ ہر نجس و ناپاک چیز کو بھی یہ اسی منزل اُلوہیت پر ٹھہراتے ہیں اور اللہ کو دریا سے اور مخلوقات کو اس میں اٹھنے والی لہروں سے تشبیہ دیتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ دریا کی لہریں دریا کے علاوہ کوئی جداگانہ وجود نہیں رکھتیں، بلکہ ان کا وجود بعینہ دریا کا وجود ہے جو کبھی ابھرتی ہیں اور کبھی دریا کے اندر سمٹ جاتی ہيں۔ لہٰذا کسی چیز کو اس کی ہستی سے الگ نہیں قرار دیا جا سکتا۔
۲۔ اتحادیہ:اس فرقہ کا خیال یہ ہے کہ وہ اللہ سے اور اللہ اس سے متحد ہو چکا ہے۔ یہ اللہ کو آگ سے اور اپنے کو اس لوہے سے تشبیہ دیتے ہیں کہ جو آگ میں پڑا رہنے کی وجہ سے اس کی صورت و خاصیت پیدا کر چکا ہو۔
۳۔ حلولیہ:اس کا عقیدہ یہ ہے کہ خداوند عالم عارفوں اور کاملوں کے اندر حلول کر جاتا ہے اور ان کا جسم اس کی فرود گاہ ہوتا ہے۔ اس لئے وہ بظاہر بشر اور بباطن خدا ہوتے ہیں۔
۴۔ واصلیہ:یہ فرقہ اپنے کو واصل بالله سمجھتا ہے اور اس کا نظریہ ہے کہ احکام شرع تکمیل نفس و تہذیب اخلاق کا ذریعہ ہیں اور جب نفس حق سے متصل ہو جاتا ہے تو پھر اسے تکمیل و تہذیب کی احتیاج نہیں رہتی، لہٰذا واصلین کیلئے عبادات و اعمال بیکار ہو جاتے ہیں، کیونکہ اِذَا حَصَلَتِ الْحَقِیْقَۃُ بَطَلَتِ الشَّرِیْعَۃُ : ’’جب حقیقت حاصل ہو جاتی ہے تو شریعت بیکار ہو جاتی ہے‘‘، لہٰذا وہ جو چاہیں کریں ان پر حرف گیری نہیں کی جا سکتی۔
۵۔ زراقیہ:یہ فرقہ نغمہ و سرود کی دھنوں اور حال و قال کی سرمستیوں کو سرمایہ عبادت سمجھتا ہے اور درویشی و دریوزہ گری سے دنیا کماتا ہے اور اپنے پیشواؤں کی من گھڑت کرامتیں سنا کر عوام کو مرعوب کرنے کی فکر میں لگا رہتا ہے۔
۶۔ عشاقیہ:اس فرقہ کا نظریہ یہ ہے کہ اَلْمَجَازَةُ قَنْطَرَةُ الْحَقِیْقَۃِ : ’’عشق مجازی، عشق حقیقی کا ذریعہ ہوتا ہے‘‘، لہٰذا عشق الٰہی کی منزل تک پہنچنے کیلئے ضروری ہے کہ کسی مہوش سے عشق کیا جائے، لیکن جس عشق کو یہ عشق الٰہی کا ذریعہ سمجھتے ہیں وہ صرف اختلال دماغی کا نتیجہ ہوتا ہے کہ جس کی وجہ سے عاشق قلب و روح کی پوری توجہ کے ساتھ ایک فرد کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور اس تک رسائی ہی اس کی منزل آخر ہوتی ہے۔ یہ عشق فسق و فجور کی راہ پر تو لگا سکتا ہے، مگر عشق حقیقی کی منزل سے اسے کوئی لگاؤ نہیں ہوتا:
عشق مجاز چون بحقیقت نظر کنی
دیو است و دیو را نبود پای رھبری
۷۔ تلقیہ:اس فرقے کے نزدیک علوم دینیہ کا پڑھنا اور کتب علمیہ کا مطالعہ کرنا قطعاً حرام ہے، بلکہ جو مرتبہ علمی ستر (۷۰) برس تک پڑھنے سے حاصل نہیں ہوتا وہ ایک ساعت میں مرشد کے تصرف روحانی سے حاصل ہو جاتا ہے۔
علمائے شیعہ کے نزدیک یہ تمام فرقے گمراہ اور اسلام سے خارج ہیں۔ چنانچہ اس سلسلہ میں آئمہ اطہار علیہم السلام کے بکثرت ارشادات موجود ہیں اور اس خطبہ میں بھی امیر المومنین علیہ السلام نے عاصم بن زیاد کے قطع علائق دنیا کو شیطانی وسوسہ کا نتیجہ قرار دیا ہے اور اسے اس راہ پر چلنے سے بشدت منع کیا ہے۔