مرض میں جب تک ہمت ساتھ دے چلتے پھرتے رہو۔ حکمت 26
(۱) وَ مِن خُطْبَةٍ لَّهٗ عَلَیْهِ السَّلَامُ
خطبہ (۱)
یَذْكُرُ فِیْهَا ابْتِدَاءَ خَلْقِ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ وَ خَلْقِ اٰدَمَ ؑ
اس میں ابتدائے آفرینش زمین و آسمان اور پیدائش آدم علیہ السلام کا ذکر فرمایا ہے
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ لَا یَبْلُغُ مِدْحَتَهُ الْقَآئِلُوْنَ، وَ لَا یُحْصِیْ نَعْمَآئَهُ الْعَادُّوْنَ وَ لَا یُؤَدِّیْ حَقَّهٗ الْمُجْتَهِدُوْنَ، الَّذِیْ لَا یُدْرِكُهٗ بُعْدُ الْهِمَمِ، وَ لَا یَنَالُهٗ غَوْصُ الْفِطَنِ، الَّذِیْ لَیْسَ لِصِفَتِهٖ حَدٌّ مَّحْدُوْدٌ، وَ لَا نَعْتٌ مَّوْجُوْدٌ، وَ لَا وَقْتٌ مَّعْدُوْدٌ،وَ لَاۤ اَجَلٌ مَّمْدُوْدٌ.
تمام حمد اس اللہ کیلئے ہے ، جس کی مدح تک بولنے والوں کی رسائی نہیں، جس کی نعمتوں کو گننے والے گن نہیں سکتے، نہ کوشش کرنے والے اس کا حق ادا کر سکتے ہیں، نہ بلند پرواز ہمتیں اسے پا سکتی ہیں، نہ عقل و فہم کی گہرائیاں اس کی تہ تک پہنچ سکتی ہیں۔ اس کے کمالِ ذات کی کوئی حد معین نہیں، نہ اس کیلئے توصیفی الفاظ ہیں، نہ اس (کی ابتدا) کیلئے کوئی وقت ہے جسے شمار میں لایا جا سکے، نہ اس کی کوئی مدت ہے جو کہیں پر ختم ہو جائے۔
فَطَرَ الْخَلَاۗئِقَ بِقُدْرَتِهٖ، وَ نَشَرَ الرِّیَاحَ بِرَحْمَتِهٖ، وَ وَتَّدَ بِالصُّخُوْرِ مَیَدَانَ اَرْضِهٖ.
اس نے مخلوقات کو اپنی قدرت سے پیدا کیا، اپنی رحمت سے ہواؤں کو چلایا اور تھرتھراتی ہوئی زمین پر پہاڑوں کی میخیں گاڑیں۔
اَوَّلُ الدِّیْنِ مَعْرِفَتُهٗ، وَ كَمَالُ مَعْرِفَتِهِ التَّصْدِیْقُ بِهٖ، وَ كَمَالُ التَّصْدِیْقِ بِهٖ تَوْحِیْدُهٗ، وَ كَمَالُ تَوْحِیْدِهِ الْاِخْلَاصُ لَهٗ، وَ كَمَالُ الْاِخْلَاصِ لَهٗ نَفْیُ الصِّفَاتِ عَنْهُ، لِشَهَادَةِ كُلِّ صِفَةٍ اَنَّها غَیْرُ الْمَوْصُوْفِ، وَ شَهَادَةِ كُلِّ مَوْصُوْفٍ اَنَّهٗ غَیْرُ الصِّفَةِ.
دین کی ابتدا [۱] اس کی معرفت ہے، کمالِ معرفت اس کی تصدیق ہے، کمالِ تصدیق توحید ہے، کمالِ توحید تنزیہ و اخلاص ہے اور کمالِ تنزیہ و اخلاص یہ ہے کہ اس سے صفتوں کی نفی کی جائے، کیونکہ ہر صفت شاہد ہے کہ وہ اپنے موصوف کی غیر ہے اور ہر موصوف شاہد ہے کہ وہ صفت کے علاوہ کوئی چیز ہے۔
فَمَنْ وَّصَفَ اللهَ سُبْحَانَهٗ فَقَدْ قَرَنَهٗ، وَ مَنْ قَرَنَهٗ فَقَدْ ثَنَّاهُ، وَ مَنْ ثَنَّاهُ فَقَدْ جَزَّاَهٗ، وَ مَنْ جَزَّاَهٗ فَقَدْ جَهِلَهٗ، وَ مَنْ جَهِلَهٗ فَقَدْ اَشَارَ اِلَیْهِ، وَ مَنْ اَشَارَ اِلَیْهِ فَقَدْ حَدَّهٗ، وَ مَنْ حَدَّهٗ فَقَدْ عَدَّهٗ، وَ مَنْ قَالَ: «فِیْمَ؟» فَقَدْ ضَمَّنَهٗ، وَ مَنْ قَالَ: «عَلَامَ؟» فَقَدْ اَخْلٰى مِنْهُ.
لہٰذا جس نے ذاتِ الٰہی کے علاوہ صفات مانے اس نے ذات کا ایک دوسرا ساتھی مان لیا اور جس نے اس کی ذات کا کوئی اور ساتھی مانا اس نے دوئی پیدا کی اور جس نے دوئی پیدا کی اس نے اس کیلئے جز بنا ڈالا اور جو اس کیلئے اجزا کا قائل ہوا وہ اس سے بے خبر رہا اور جو اس سے بے خبر رہا اس نے اسے قابلِ اشارہ سمجھ لیا اور جس نے اسے قابلِ اشارہ سمجھ لیا اس نے اس کی حد بندی کر دی اور جو اسے محدود سمجھا وہ اسے دوسری چیزوں ہی کی قطار میں لے آیا اور جس نے یہ کہا کہ ’’وہ کس چیز میں ہے‘‘؟ اس نے اسے کسی شے کے ضمن میں فرض کر لیا اور جس نے یہ کہا کہ ’’وہ کس چیز پر ہے؟‘‘ اس نے اور جگہیں اس سے خالی سمجھ لیں۔
كَآئِنٌ لَّا عَنْ حَدَثٍ، مَّوْجُوْدٌ لَّا عَنْ عَدَمٍ، مَعَ كُلِّ شَیْءٍ لَا بِمُقَارَنَةٍ، وَ غَیْرُ كُلِّ شَیْءٍ لَّا بِمُزَایَلَةٍ، فَاعِلٌ لَّا بِمَعْنَى الْحَرَكَاتِ وَ الْاٰلَةِ، بَصِیْرٌ اِذْ لَا مَنْظُوْرَ اِلَیْهِ مِنْ خَلْقِهٖ، مُتَوَحِّدٌ اِذْ لَا سَكَنَ یَسْتَاْنِسُ بِهٖ وَ لَا یَسْتَوْحِشُ لِفَقْدِهٖ.
وہ ہے ہوا نہیں، موجود ہے مگر عدم سے وجود میں نہیں آیا، وہ ہر شے کے ساتھ ہے نہ جسمانی اتصال کی طرح، وہ ہر چیز سے علیحدہ ہے نہ جسمانی دوری کے طور پر، وہ فاعل ہے لیکن حرکات و آلات کا محتاج نہیں، وہ اس وقت بھی دیکھنے والا تھا جب کہ مخلوقات میں کوئی چیز دکھائی دینے والی نہ تھی، وہ یگانہ ہے اس لئے کہ اس کا کوئی ساتھی ہی نہیں ہے کہ جس سے وہ مانوس ہو اور اسے کھو کر پریشان ہو جائے۔
اَنْشَاَ الْخَلْقَ اِنْشَآءً، وَ ابْتَدَاَهُ ابْتِدَآءً، بِلَا رَوِیَّةٍ اَجَالَهَا، وَ لَا تَجْرِبَةٍ اسْتَفَادَهَا، وَ لَا حَرَكَةٍ اَحْدَثَهَا، وَ لَا هَمَامَةِ نَفْسٍ اضْطَرَبَ فِیْهَا. اَحَالَ الْاَشْیَآءَ لِاَوْقَاتِهَا، وَ لَـئَمَ بَیْنَ مُخْتَلِفَاتِهَا، وَ غَرَّزَ غَرَآئِزَهَا وَ اَلْزَمَهَا اَشْبَاحَهَا، عَالِمًۢا بِهَا قَبْلَ ابْتِدَآئِهَا، مُحِیْطًۢا بِحُدُوْدِهَا وَ انْتِهَآئِهَا، عَارِفًۢا بِقَرَآئِنِهَا وَ اَحْنَآئِهَا.
اس نے پہلے پہل خلق کو ایجاد کیا بغیر کسی فکر کی جولانی کے اور بغیر کسی تجربہ کے جس سے فائدہ اٹھانے کی اسے ضرورت پڑی ہو اور بغیر کسی حرکت کے جسے اس نے پیدا کیا ہو اور بغیر کسی ولولہ اور جوش کے جس سے وہ بیتاب ہوا ہو۔ ہر چیز کو اس کے وقت کے حوالے کیا، بے جوڑ چیزوں میں توازن و ہم آہنگی پیدا کی، ہر چیز کو جداگانہ طبیعت اور مزاج کا حامل بنایا اور ان طبیعتوں کیلئے مناسب صورتیں ضروری قرار دیں۔ وہ ان چیزوں کو ان کے وجود میں آنے سے پہلے جانتا تھا، ان کی حد و نہایت پر احاطہ کئے ہوئے تھا اور ان کے نفوس و اعضاء کو پہچانتا تھا۔
ثُمَّ اَنْشَاَ ـ سُبْحَانَهٗ ـ فَتْقَ الْاَجْوَآءِ، وَ شَقَّ الْاَرْجَآءِ، وَ سَكَـآئِكَ الْهَوَآءِ، فَاَجْرٰی فِیْهَا مَآءً مُّتَلَاطِمًا تَیَّارُهٗ، مُتَرَاكِمًا زَخَّارُهٗ، حَمَلَهٗ عَلٰى مَتْنِ الرِّیْحِ الْعَاصِفَةِ، وَ الزَّعْزَعِ الْقَاصِفَةِ، فَاَمَرَهَا بِرَدِّهٖ، وَ سَلَّطَهَا عَلٰى شَدِّهٖ، وَ قَرَنَهَا اِلٰى حَدِّهٖ، الْهَوَآءُ مِنْ تَحْتِهَا فَتِیْقٌ وَّ الْمَآءُ مِنْ فَوْقِهَا دَفِیْقٌ.
پھر یہ کہ اس نے کشادہ فضا، وسیع اطراف و اکناف اور خلا کی وسعتیں خلق کیں اور ان میں ایسا پانی بہایا جس کے دریائے مواج کی لہریں طوفانی اور بحر زخار کی موجیں تہ بہ تہ تھیں، اسے تیز ہوا اور تند آندھی کی پشت پر لادا، پھر اسے پانی کے پلٹانے کا حکم دیا اور اسے اس کے پابند رکھنے پر قابو دیا اور اسے پانی کی سرحد سے ملا دیا۔ اس کے نیچے ہوا دور تک پھیلی ہوئی تھی اور اوپر پانی ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔
ثُمَّ اَنْشَاَ سُبْحَانَهٗ رِیْحَا اِعْتَقَمَ مَهَبَّهَا، وَ اَدَامَ مُرَبَّهَا، وَ اَعْصَفَ مَجْرَاهَا، وَ اَبْعَدَ مَنْشَاهَا، فَاَمَرَهَا بِتَصْفِیْقِ الْمَآءِ الزَّخَّارِ، وَ اِثَارَةِ مَوْجِ الْبِحَارِ، فَمَخَضَتْهُ مَخْضَ السِّقَآءِ، وَ عَصَفَتْ بِهٖ عَصْفَهَا بِالْفَضَآءِ، تَرُدُّ اَوَّلَهٗ اِلٰۤی اٰخِرِهٖ، وَ سَاجِیَهٗ اِلٰی مَآئِرِهٖ حَتّٰى عَبَّ عُبَابُهٗ، وَ رَمٰى بِالزَّبَدِ رُكَامُهٗ، فَرَفَعَهٗ فِیْ هَوَآءٍ مُّنْفَتِقٍ، وَ جَوٍّ مُّنْفَهِقٍ، فَسَوّٰى مِنْهُ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ، جَعَلَ سُفْلَاهُنَّ مَوْجًا مَكْفُوْفًا وَ عُلْیَاهُنَّ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا،وَ سَمْكًا مَّرْفُوْعًا بِغَیْرِ عَمَدٍ یَّدْعَمُهَا، وَ لَا دِسَارٍ یَّنْظِمُهَا. ثُمَّ زَیَّنَهَا بِزِیْنَةِ الْكَوَاكِبِ، وَ ضِیَآءِ الثَّوَاقِبِ وَ اَجْرٰى فِیْهَا سِرَاجًا مُّسْتَطِیْرًا، وَ قَمَرًا مُّنِیْرًا فِیْ فَلَكٍ دَآئِرٍ، وَ سَقْفٍ سَآئِرٍ، وَ رَقِیْمٍ مَآئِرٍ.
پھر اللہ سبحانہ نے اس پانی کے اندر ایک ہوا خلق کی جس کا چلنا بانجھ (بے ثمر) تھا اور اسے اس کے مرکز پر قرار رکھا، اس کے جھونکے تیز کر دیئے اور اس کے چلنے کی جگہ دور و دراز تک پھیلا دی، پھر اس ہوا کو مامور کیا کہ وہ پانی کے ذخیرے کو تھپیٹرے دے اور بحر بے کراں کی موجوں کو اچھالے۔ اس ہوا نے پانی کو یوں متھ دیا جس طرح دہی کے مشکیزے کو متھا جاتا ہے اور اسے دھکیلتی ہوئی تیزی سے چلی جس طرح خالی فضا میں چلتی ہے اور پانی کے ابتدائی حصے کو آخری حصے پر اور ٹھہرے ہوئے کو چلتے ہوئے پانی پر پلٹانے لگی، یہاں تک کہ اس متلاطم پانی کی سطح بلند ہو گئی اور وہ تہ بہ تہ پانی جھاگ دینے لگا، اللہ نے وہ جھاگ کھلی ہوا اور کشادہ فضا کی طرف اٹھائی اور اس سے ساتوں آسمان پیدا کئے۔ نیچے والے آسمان کو رکی ہوئی موج کی طرح بنایا اور اوپر والے آسمان کو محفوظ چھت اور بلند عمارت کی صورت میں اس طرح قائم کیا کہ نہ ستونوں کے سہارے کی حاجت تھی، نہ بندھنوں سے جوڑنے کی ضرورت۔ پھر ان کو ستاروں کی سج دھج اور روشن تاروں کی چمک دمک سے آراستہ کیا اور ان میں ضوپاش چراغ اور جگمگاتا چاند رواں کیا جو گھومنے والے فلک، چلتی پھرتی چھت اور جنبش کھانے والی لوح میں ہے۔
ثُمَّ فَتَقَ مَا بَیْنَ السَّمٰوٰتِ الْعُلَا، فَمَلَاَهُنَّ اَطْوَارًا مِّنْ مَلٰٓئِكَتِهٖ: مِنْهُمْ سُجُوْدٌ لَّا یَرْكَعُوْنَ، وَ رُكُوْعٌ لَّا یَنْتَصِبُوْنَ، وَ صَآفُّوْنَ لَا یَتَزَایَلُوْنَ، وَ مُسَبِّحُوْنَ لَا یَسْاَمُوْنَ، لَا یَغْشَاهُمْ نَوْمُ العُیُوْنِ، وَ لَا سَهْوُ الْعُقُوْلِ، وَ لَا فَتْرَةُ الْاَبْدَانِ، وَ لَا غَفْلَةُ النِّسْیَانِ.
پھر خداوند عالم نے بلند آسمانوں کے درمیان شگاف پیدا کئے اور ان کی وسعتوں کو طرح طرح کے فرشتوں سے بھر دیا۔ کچھ ان میں سر بسجود ہیں جو رکوع نہیں کرتے، کچھ رکوع میں ہیں جو سیدھے نہیں ہوتے، کچھ صفیں باندھے ہوئے ہیں جو اپنی جگہ نہیں چھوڑتے اور کچھ پاکیزگی بیان کر رہے ہیں جو اکتاتے نہیں، نہ ان کی آنکھوں میں نیند آتی ہے، نہ ان کی عقلوں میں بھول چوک پیدا ہوتی ہے، نہ ان کے بدنوں میں سستی و کاہلی آتی ہے، نہ ان پر نسیان کی غفلت طاری ہوتی ہے۔
وَ مِنْهُمْ اُمَنَآءُ عَلٰى وَحْیِهٖ، وَ اَلْسِنَةٌ اِلٰى رُسُلِهٖ، وَ مُخْتَلِفُوْنَ بِقَضَآئِهٖ وَ اَمْرِهٖ. وَ مِنْهُمُ الْحَفَظَةُ لِعِبَادِهٖ، وَ السَّدَنَةُ لِاَبْوَابِ جِنَانِهٖ. وَ مِنْهُمُ الثَّابِتَةُ فِی الْاَرَضِیْنَ السُّفْلٰى اَقْدَامُهُمْ، وَ الْمَارِقَةُ مِنَ السَّمَآءِ الْعُلْیَا اَعْنَاقُهُمْ، وَ الْخَارِجَةُ مِنَ الْاَقْطَارِ اَرْكَانُهُمْ، وَ الْمُنَاسِبَةُ لِقَوَآئِمِ الْعَرْشِ اَكْتَافُهُمْ، نَاكِسَةٌ دُوْنَهٗ اَبْصَارُهُمْ، مُتَلَفِّعُوْنَ تَحْتَهٗ بِاَجْنِحَتِهِمْ، مَضْرُوْبَةٌۢ بَیْنَهُمْ وَ بَیْنَ مَنْ دُوْنَهُمْ حُجُبُ الْعِزَّةِ، وَ اسْتَارُ القُدْرَةِ، لَا یَتَوَهَّمُوْنَ رَبَّهُمْ بِالتَّصْوِیْرِ، وَ لَا یُجْرُوْنَ عَلَیْهِ صِفَاتِ الْمَصْنُوْعِیْنَ، وَ لَا یَحُدُّوْنَهٗ بِالْاَمَاكِنِ، وَ لَا یُشِیْرُوْنَ اِلَیْهِ بِالنَّظَآئِرِ.
ان میں کچھ تو وحی الٰہی کے امین، اس کے رسولوں کی طرف پیغام رسانی کیلئے زبانِ حق اور اس کے قطعی فیصلوں اور فرمانوں کو لے کر آنے جانے والے ہیں، کچھ اس کے بندوں کے نگہبان اور جنت کے دروازوں کے پاسبان ہیں، کچھ وہ ہیں جن کے قدم زمین کی تہ میں جمے ہوئے ہیں (اور ان کی گردنیں بلند ترین آسمانوں سے بھی باہر نکلی ہوئی ہیں) اور ان کے پہلو اطراف عالم سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں، ان کے شانے عرش کے پایوں سے میل کھاتے ہیں، عرش کے سامنے ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہیں اور اس کے نیچے اپنے پروں میں لپٹے ہوئے ہیں اور ان میں اور دوسری مخلوق میں عزت کے حجاب اور قدرت کے سرا پردے حائل ہیں۔ وہ شکل و صورت کے ساتھ اپنے رب کا تصور نہیں کرتے، نہ اس پر مخلوق کی صفتیں طاری کرتے ہیں، نہ اسے محل و مکان میں گھرا ہوا سمجھتے ہیں، نہ اشباہ و نظائر سے اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
[صِفَةُ خَلْقِ اَدَمَ ؑ]
[آدم علیہ السلام کی تخلیق کے بارے میں فرمایا:]
ثُمَّ جَمَعَ سُبْحَانَهٗ مِنْ حَزْنِ الْاَرْضِ وَ سَهْلِهَا، وَعَذْبِهَا وَ سَبَخِهَا، تُرْبَةً سَنَّهَا بِالْمَآءِ حَتّٰى خَلَصَتْ، وَ لَاطَهَا بِالْبَلَّةِ حَتّٰى لَزُبَتْ، فَجَبَلَ مِنْهَا صُوْرَةً ذَاتَ اَحْنَآءٍ وَّ وُصُوْلٍ، وَ اَعْضَآءٍ وَّ فُصُوْلٍ، اَجْمَدَهَا حَتّٰى اسْتَمْسَكَتْ، وَ اَصْلَدَهَا حَتّٰى صَلْصَلَتْ، لِوَقْتٍ مَّعْدُوْدٍ، وَ اَمَدٍ مَّعْلُوْمٍ.
پھر اللہ نے سخت و نرم اور شیریں و شورہ زار زمین سے مٹی جمع کی، اسے پانی سے اتنا بھگویا کہ وہ صاف ہو کر نتھر گئی اور تری سے اتنا گوندھا کہ اس میں لس پیدا ہو گیا، اس سے ایک ایسی صورت بنائی جس میں موڑ ہیں اور جوڑ، اعضاء ہیں اور مختلف حصے، اسے یہاں تک سکھایا کہ وہ خود تھم سکی اور اتنا سخت کیا کہ وہ کھنکھنانے لگی۔ ایک وقت معین اور مدت معلوم تک اسے یونہی رہنے دیا۔
ثُمَّ نَفَخَ فِیْهَا مِنْ رُّوْحِهٖ فَمَثُلَتْ اِنْسَانًا ذَا اَذْهَانٍ یُّجِیْلُهَا، وَ فِكَرٍ یَّتَصَرَّفُ بِهَا، وَ جَوَارِحَ یَخْتَدِمُهَا، وَ اَدَوَاتٍ یُّقَلِّبُهَا، وَ مَعْرِفَةٍ یَفْرُقُ بِهَا بَیْنَ الْحَقِّ وَ الْبَاطِلِ، وَ الْاَذْوَاقِ وَ الْمَشَامِّ، وَ الْاَلْوَانِ وَ الْاَجْنَاسِ، مَعْجُوْنًۢا بِطِیْنَةِ الْاَلْوَانِ الْمُخْتَلِفَةِ، وَ الْاَشْبَاهِ الْمُؤْتَلِفَةِ، وَ الْاَضْدَادِ الْمُتَعَادِیَةِ، و الْاَخْلَاطِ الْمُتَبَایِنَةِ، مِنَ الْحَرِّ و الْبَرْدِ، وَ الْبَلَّةِ وَ الْجُمُوْدِ،
پھر اس میں روح پھونکی تو وہ ایسے انسان کی صورت میں کھڑی ہو گئی جو قوائے ذہنی کو حرکت دینے والا، فکری حرکات سے تصرف کرنے والا، اعضاء و جوارح سے خدمت لینے والا اور ہاتھ پیروں کو چلانے والا ہے اور ایسی شناخت کا مالک ہے جس سے حق و باطل میں تمیز کرتا ہے اور مختلف مزوں، بوؤں، رنگوں اور جنسوں میں فرق کرتا ہے۔ خود رنگا رنگ کی مٹی اور ملتی جلتی ہوئی موافق چیزوں اور مخالف ضدوں اور متضاد خلطوں سے اس کا خمیر ہوا ہے، یعنی گرمی، سردی، تری، خشکی کا پیکر ہے۔
وَاسْتَاْدَى اللهُ سُبْحَانَهُ الْمَلٰٓئِكَةَ وَدِیْعَتَهٗ لَدَیْهِمْ، وَ عَهْدَ وَصِیَّتِهٖۤ اِلَیْهِمْ، فِی الْاِذْعَانِ بِالسُّجُوْدِ لَهٗ، وَ الْخُشُوْعِ لِتَكْرِمَتِهٖ، فَقَالَ سُبْحَانَهُ: ﴿اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَ ؕ ﴾، اعْتَرَتْهُ الْحَمِیَّةُ، وَ غَلَبَتْ عَلَیْهِ الشِّقْوَةُ، وَ تَعَزَّزَ بِخِلْقَۃِ النَّارِ، وَ اسْتَوْهَنَ خَلْقَ الصَّلْصَالِ، فَاَعْطَاهُ اللهُ النَّظِرَةَ اسْتِحْقَاقًا لِّلسُّخْطَةِ، وَاسْتِتْمَامًا لِّلْبَلِیَّةِ، وَ اِنْجَازًا لِّلْعِدَةِ، فَقَالَ: ﴿اِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَۙ اِلٰی یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ﴾.
پھر اللہ نے فرشتوں سے چاہا کہ وہ اس کی سونپی ہوئی ودیعت ادا کریں اور اس کے پیمانِ وصیت کو پورا کریں جو سجدۂ آدمؑ کے حکم کو تسلیم کرنے اور اس کی بزرگی کے سامنے تواضع و فروتنی کیلئے تھا۔ اس لئے اللہ نے کہا کہ: ’’آدم علیہ السلام کو سجدہ کرو، ابلیس کے سوا سب نے سجدہ کیا‘‘، اسے عصبیت نے گھیر لیا، بدبختی اس پر چھا گئی، آگ سے پیدا ہونے کی وجہ سے اپنے کو بزرگ و برتر سمجھا، اور کھنکھناتی ہوئی مٹی کی مخلوق کو ذلیل جانا، اللہ نے اسے مہلت دی تاکہ وہ پورے طور پر غضب کا مستحق بن جائے اور (بنی آدمؑ) کی آزمائش پایۂ تکمیل تک پہنچے اور وعدہ پورا ہو جائے۔ چنانچہ اللہ نے اس سے کہا کہ: ’’تجھے وقت معین کے دن تک کی مہلت ہے‘‘۔
ثُمَّ اَسْكَنَ سُبْحَانَهٗ اٰدَمَ ؑ دَارًا اَرْغَدَ فِیْهَا عِیْشَتَهٗ، وَ اٰمَنَ فِیْهَا مَحَلَّتَهٗ، وَ حَذَّرَهٗۤ اِبْلِیْسَ وَ عَدَاوَتَهٗ، فَاغْتَرَّهٗ عَدُوُّهٗ نَفَاسَةً عَلَیْهِ بِدَارِ الْمُقَامِ، وَ مُرَافَقَةِ الْاَبْرَارِ، فَبَاعَ الْیَقِیْنَ بِشَكِّهٖ، وَ الْعَزِیْمَةَ بِوَهْنِهٖ، وَاسْتَبْدَلَ بِالْجَذَلِ وَجَلًا، وَ بِالْاِغْتِرَارِ نَدَمًا.
پھر اللہ نے آدم علیہ السلام کو ایسے گھر میں ٹھہرایا جہاں ان کی زندگی کو خوشگوار رکھا، انہیں شیطان اور اس کی عداوت سے بھی ہوشیار کر دیا، لیکن ان کے دشمن نے ان کے جنت میں ٹھہرنے اور نیکو کاروں میں مل جل کر رہنے پر حسد کیا اور آخر کار انہیں فریب دے دیا۔ آدم علیہ السلام نے یقین کو شک اور ارادے کے استحکام کو کمزوری کے ہاتھوں بیچ ڈالا، مسرت کو خوف سے بدل لیا اور فریب خوردگی کی وجہ سے ندامت اٹھائی۔
ثُمَّ بَسَطَ اللهُ سُبْحَانَهٗ لَهٗ فِیْ تَوْبَتِهٖ، وَ لَقَّاهُ كَلِمَةَ رَحْمَتِهٖ، وَ وَعَدَهُ الْمَرَدَّ اِلٰى جَنَّتِهٖ، فَاَهْبَطَهٗ اِلٰى دَارِ الْبَلِیَّةِ، وَ تَنَاسُلِ الذُّرِّیَّةِ.
پھر اللہ نے آدم علیہ السلام کیلئے توبہ کی گنجائش رکھی، انہیں رحمت کے کلمے سکھائے، جنت میں دوبارہ پہنچانے کا ان سے وعدہ کیا اور انہیں دارِ ابتلا و محل افزائشِ نسل میں اتار دیا۔
وَ اصْطَفٰى سُبْحَانَهٗ مِنْ وَّلَدِهٖ اَنْۢبِیَآءَ، اَخَذَ عَلَى الْوَحْیِ مِیْثَاقَهُمْ، وَ عَلٰى تَبْلِیْغِ الرِّسَالَةِ اَمَانَتَهُمْ، لَمَّا بَدَّلَ اَكْثَرُ خَلْقِهٖ عَهْدَ اللهِ اِلَیْهِمْ، فَجَهِلُوْا حَقَّهٗ، وَ اتَّخَذُوا الْاَنْدَادَ مَعَهٗ، وَ اجْتَالَتْهُمُ الشَّیٰطِیْنُ عَنْ مَّعْرِفَتِهٖ، وَ اقتَطَعَتْهُمْ عَنْ عِبَادَتِهٖ، فَبَعَثَ فِیْهمْ رُسُلَهٗ، وَ وَاتَرَ اِلَیْهِمْ اَنْۢبِیَآئَهٗ، لِیَسْتَاْدُوْهُمْ مِیْثَاقَ فِطْرَتِهٖ، وَ یُذَكِّرُوْهُمْ مَنْسِیَّ نِعْمَتِهٖ، وَ یَحْتَجُّوْا عَلَیْهِمْ بِالتَّبْلِیْغِ، وَ یُثِیْرُوْا لَهُمْ دَفَآئِنَ الْعُقُوْلِ، وَ یُرُوْهُمْ الْاٰیَاتِ الْمُقَدَّرَةَ: مِنْ سَقْفٍ فَوْقَهُمْ مَرْفُوْعٍ، وَ مِهَادٍ تَحْتَهُمْ مَوْضُوْعٍ، وَ مَعَایِشَ تُحْیِیْهِمْ، وَ اٰجَالٍ تُفْنِیْهِمْ، وَ اَوْصَابٍ تُهْرِمُهُمْ، وَ اَحْدَاثٍ تَتَابَعُ عَلَیْهِمْ.
اللہ سبحانہ نے ان کی اولاد سے انبیاء علیہم السلام چنے، وحی پر ان سے عہد و پیمان لیا، تبلیغ رسالت کا انہیں امین بنایا، جبکہ اکثر لوگوں نے اللہ کا عہد بدل دیا تھا، چنانچہ وہ اس کے حق سے بے خبر ہو گئے اوروں کو اس کا شریک بنا ڈالا، شیاطین نے اس کی معرفت سے انہیں روگرداں اور اس کی عبادت سے الگ کر دیا۔ اللہ نے ان میں اپنے رسولؑ مبعوث کئے اور لگاتار انبیاءؑ بھیجے تاکہ ان سے فطرت کے عہد و پیمان پورے کرائیں، اس کی بھولی ہوئی نعمتیں یاد دلائیں، پیغامِ ربانی پہنچا کر حجت تمام کریں، عقل کے دفینوں کو ابھاریں اور انہیں قدرت کی نشانیاں دکھائیں: یہ سروں پر بلند بام آسمان، ان کے نیچے بچھا ہوا فرشِ زمیں، زندہ رکھنے والا سامانِ معیشت، فنا کرنے والی اجلیں، بوڑھا کر دینے والی بیماریاں اور پے در پے آنے والے حادثات۔
وَ لَمْ یُخْلِ اللهُ سُبْحَانَهٗ خَلْقَهٗ مِنْ نَّبِیٍّ مُّرْسَلٍ، اَوْ كِتَابٍ مُّنْزَلٍ، اَوْ حُجَّةٍ لَّازِمَةٍ، اَوْ مَحَجَّةٍ قَآئِمَةٍ، رُسُلٌ لَّا تُقَصِّرُ بِهِمْ قِلَّةُ عَدَدِهِمْ، وَلَا كَثْرَةُ الْمُكَذِّبِیْنَ لَهُمْ، مِنْ سَابِقٍ سُمِّیَ لَهٗ مَنْۢ بَعْدَهٗ، اَوْ غَابِرٍ عَرَّفَهٗ مَنْ قَبْلَهٗ.
اللہ سبحانہ نے اپنی مخلوق کو بغیر کسی فرستادہ پیغمبرؑ یا آسمانی کتاب یا دلیلِ قطعی یا طریق روشن کے کبھی یونہی نہیں چھوڑا۔ ایسے رسولؑ، جنہیں تعداد کی کمی اور جھٹلانے والوں کی کثرت درماندہ و عاجز نہیں کرتی تھی، ان میں کوئی سابق تھا جس نے بعد میں آنے والے کا نام و نشان بتایا، کوئی بعد میں آیا جسے پہلا پہچنوا چکا تھا۔
عَلٰى ذٰلِكَ نَسَلَتِ الْقُرُوْنُ، وَ مَضَتِ الدُّهُوْرُ، وَ سَلَفَتِ الْاٰبَآءُ، وَ خَلَفَتِ الْاَبْنَآءُ.
اسی طرح مدتیں گزر گئیں، زمانے بیت گئے، باپ داداؤں کی جگہ پر ان کی اولادیں بس گئیں۔
اِلٰۤى اَنْۢ بَعَثَ اللهُ سُبْحَانَهٗ مُحَمَّدًا رَّسُوْلَ اللّٰہِ ﷺ لِاِنْجَازِ عِدَتِهٖ وَ تَمَامِ نُبُوَّتِهٖ، مَاْخُوْذًا عَلَى النَّبِیِّیْنَ مِیْثَاقُهٗ، مَشْهُوْرَةً سِمَاتُهٗ، كَرِیْمًا مِیْلَادُهٗ. وَ اَهْلُ الْاَرْضِ یَوْمَئِذٍ مِلَلٌ مُّتَفَرِّقَةٌ، وَ اَهْوَآءٌ مُّنْتَشِرَةٌ، وَ طَرَآئِقُ مُتَشَتِّتَةٌ، بَیْنَ مُشَبِّهٍ لِّلّٰهِ بِخَلْقِهٖ، اَوْ مُلْحِدٍ فِی اسْمِهٖ، اَوْ مُشِیْرٍ اِلٰى غَیْرِهٖ، فَهَدَاهُمْ بِهٖ مِنَ الضَّلَالَةِ، وَ اَنْقَذَهُمْ بِمَكَانِهٖ مِنَ الْجَهَالَةِ.
یہاں تک کہ اللہ سبحانہ نے ایفائے عہد و اِتمام نبوت کیلئے محمد ﷺ کو مبعوث کیا، جن کے متعلق نبیوں سے عہد و پیمان لیا جا چکا تھا، جن کے علاماتِ (ظہور) مشہور، محل ولادت مبارک و مسعود تھا۔ اس وقت زمین پر بسنے والوں کے مسلک جدا جدا، خواہشیں متفرق و پراگندہ اور راہیں الگ الگ تھیں۔ یوں کہ کچھ اللہ کو مخلوق سے تشبیہ دیتے، کچھ اس کے ناموں کو بگاڑ دیتے، کچھ اسے چھوڑ کر اوروں کی طرف اشارہ کرتے تھے۔ خداوند عالم نے آپؐ کی وجہ سے انہیں گمراہی سے ہدایت کی راہ پر لگایا اور آپ کے وجود سے انہیں جہالت سے چھڑایا۔
ثُمَّ اخْتَارَ سُبْحَانَهٗ لِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَ اٰلِہٖ لِقَآئَهٗ،وَ رَضِیَ لَهٗ مَا عِنْدَهٗ، وَ اَكْرَمَهٗ عَنْ دَارِ الدُّنْیَا، وَ رَغِبَ بِهٖ عَنْ مُّقَارَنَةِ الْبَلْوٰى، فَقَبَضَهٗ اِلَیْهِ كَرِیْمًا ﷺ، وَ خَلَّفَ فِیْكُمْ مَا خَلَّفَتِ الْاَنْۢبِیَآءُ فِیْۤ اُمَمِهَا، اِذْ لَمْ یَتْرُكُوْهُمْ هَمَلًا، بِغَیْرِ طَرِیْقٍ وَّاضِحٍ، وَ لَا عَلَمٍ قَآئِمٍ:
پھر اللہ سبحانہ نے محمد ﷺ کو اپنے لقاء و قرب کیلئے چنا، اپنے خاص انعامات آپؐ کیلئے پسند فرمائے اور دارِ دنیا کی بود و باش سے آپؐ کو بلند تر سمجھا اور زحمتوں سے گھری ہوئی جگہ سے آپؐ کے رخ کو موڑا اور دنیا سے با عزت آپؐ کو اٹھا لیا۔ حضرتؐ تم میں اسی طرح کی چیز چھوڑ گئے جو انبیاءؑ اپنی اُمتوں میں چھوڑتے چلے آئے تھے۔ اس لئے کہ وہ طریق واضح و نشانِ محکم قائم کئے بغیر یوں ہی بے قید و بند انہیں نہیں چھوڑتے تھے۔
كِتَابَ رَبِّكُمْ فِیْکُمْ مُبَیِّنًا حَلَالَهٗ وَ حَرَامَهٗ، وَ فَرَآئِضَهٗ وَ فَضَآئِلَهٗ، وَ نَاسِخَهٗ وَ مَنْسُوْخَهٗ، وَ رُخَصَهٗ وَ عَزَآئِمَهٗ، وَ خَاصَّهٗ وَ عَامَّهٗ، وَ عِبَرَهٗ وَ اَمْثَالَهٗ، وَ مُرْسَلَهٗ وَ مَحْدُوْدَهٗ، وَ مُحْكَمَهٗ وَ مُتَشَابِهَهٗ، مُفَسِّرًا مُجْمَلَهٗ، وَ مُبَیِّنًا غَوَامِضَهٗ.
پیغمبر ﷺ نے تمہارے پروردگار کی کتاب تم میں چھوڑی ہے۔ اس حالت میں کہ انہوں نے کتاب [۲] کے حلال و حرام، واجبات و مستحبات، ناسخ و منسوخ، رخص و عزائم، خاص و عام، عبر و امثال، مقید و مطلق، محکم و متشابہ کو واضح طور سے بیان کر دیا، مجمل آیتوں کی تفسیر کر دی، اس کی گتھیوں کو سلجھا دیا۔
بَیْنَ مَاْخُوْذٍ مِّیْثَاقُ عِلْمِهٖ، وَ مُوَسَّعٍ عَلَى الْعِبَادِ فِیْ جَهْلِهٖ، وَ بَیْنَ مُثْبَتٍ فِی الْكِتَابِ فَرْضُهٗ، وَ مَعْلُوْمٍ فِی السُّنَّۃِ نَسْخُهٗ، وَ وَاجِبٍ فِی السُّنَّةِ اَخْذُهٗ، وَ مُرَخَّصٍ فِی الْكِتَابِ تَرْكُهٗ. وَ بَیْنَ وَاجِبٍۭ بِوَقْتِهٖ، وَ زَآئِلٍ فِیْ مُسْتَقْبَلِهٖ، وَ مُبَایَنٍۭ بَیْنَ مَحَارِمِهٖ، مِنْ كَبِیْرٍ اَوْعَدَ عَلَیْهِ نِیْرَانَهٗ، اَوْ صَغِیْرٍ اَرْصَدَ لَهٗ غُفْرَانَهٗ، وَ بَیْنَ مَقْبُوْلٍ فِیْۤ اَدْنَاهُ، وَ مُوَسَّعٍ فِیْۤ اَقْصَاهُ.
اس میں کچھ آیتیں وہ ہیں جن کے جاننے کی پابندی عائد کی گئی ہے اور کچھ وہ ہیں کہ اگر اس کے بندے ان سے ناواقف رہیں تو مضائقہ نہیں۔ کچھ احکام ایسے ہیں جن کا وجوب کتاب سے ثابت ہے اور حدیث سے ان کے منسوخ ہونے کا پتہ چلتا ہے اور کچھ احکام ایسے ہیں جن پر عمل کرنا حدیث کی رُو سے واجب ہے لیکن کتاب میں ان کے ترک کی اجازت ہے۔ اس کتاب میں بعض واجبات ایسے ہیں جن کا وجوب وقت سے وابستہ ہے اور زمانہ آئندہ میں ان کا وجوب برطرف ہو جاتا ہے۔ قرآن کے محرمات میں بھی تفریق ہے: کچھ کبیرہ ہیں جن کیلئے آتش جہنم کی دھمکیاں ہیں اور کچھ صغیرہ ہیں جن کیلئے مغفرت کے توقعات پیدا کئے ہیں، کچھ اعمال ایسے ہیں جن کا تھوڑا سا حصہ بھی مقبول ہے اور زیادہ سے زیادہ اضافہ کی گنجائش رکھی ہے۔
[مِنْهَا: فِیْ ذِکْرِ الْحَجِّ]
[اسی خطبہ میں حج کے سلسلہ میں فرمایا:]
وَ فَرَضَ عَلَیْكُمْ حَجَّ بَیْتِهِ الْحَرَامِ، الَّذِیْ جَعَلَهٗ قِبْلَةً لِّلْاَنَامِ، یَرِدُوْنَهٗ وُرُوْدَ الْاَنْعَامِ، وَ یَاْلَهُوْنَ اِلَیْهِ وُلُوْهَ الْحَمَامِ.
اللہ نے اپنے گھر کا حج تم پر واجب کیا جسے لوگوں کا قبلہ بنایا ہے، جہاں لوگ اس طرح کھنچ کر آتے ہیں جس طرح پیاسے حیوان پانی کی طرف اور اس طرح وارفتگی سے بڑھتے ہیں جس طرح کبوتر اپنے آشیانوں کی جانب۔
جَعَلَهٗ سُبْحَانَهٗ عَلَامَةً لِّتَوَاضُعِهِمْ لِعَظَمَتِهٖ، وَ اِذْعَانِهِمْ لِعِزَّتِهٖ، وَ اخْتَارَ مِنْ خَلْقِهٖ سُمَّاعًا اَجَابُوْۤا اِلَیْهِ دَعْوَتَهٗ، وَ صَدَّقُوْا كَلِمَتَهٗ، وَ وَقَفُوْا مَوَاقِفَ اَنْۢبِیَآئِهٖ، وَ تَشَبَّهُوْا بِمَلٰٓئِكَتِهِ الْمُطِیْفِیْنَ بِعَرْشِهٖ، یُحْرِزُوْنَ الْاَرْبَاحَ فِیْ مَتْجَرِ عِبَادَتِهٖ، وَ یَتَبَادَرُوْنَ عِنْدَ مَوْعِدِ مَغْفِرَتِهٖ.
اللہ جل شانہ نے اس کو اپنی عظمت کے سامنے ان کی فروتنی و عاجزی اور اپنی عزت کے اعتراف کا نشان بنایا ہے۔ اس نے اپنی مخلوق میں سے سننے والے لوگ چن لئے جنہوں نے اس کی آواز پر لبیک کہی اور اس کے کلام کی تصدیق کی، وہ انبیاء علیہم السلام کی جگہوں پر ٹھہرے، عرش پر طواف کرنے والے فرشتوں سے شباہت اختیار کی، وہ اپنی عبادت کی تجارت گاہ میں منفعتوں کو سمیٹتے ہیں اور اس کی وعدہ گاہ ِمغفرت کی طرف بڑھتے ہیں۔
جَعَلَهٗ سُبْحَانَهٗ وَ تَعَالٰی لِلْاِسْلَامِ عَلَمًا، وَ لِلْعَآئِذِیْنَ حَرَمًا، فَرَضَ حَجَّهٗ، وَ اَوْجَبَ حَقَّهٗ، وَ كَتَبَ عَلَیْكُمْ وِفَادَتَهٗ، فَقَالَ سُبْحَانَهٗ: ﴿وَ لِلّٰهِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًا ؕ وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ﴾.
اللہ سبحانہ نے اس گھر کو اسلام کا نشان (اور) پناہ چاہنے والوں کیلئے حرم بنایا ہے، اس کا حج فرض اور ادائیگی حق کو واجب کیا ہے اور اس کی طرف راہ نوردی فرض کر دی ہے۔ چنانچہ اللہ نے قرآن میں فرمایا:’’اللہ کا واجب الادا حق لوگوں پر یہ ہے کہ وہ خانہ کعبہ کا حج کریں جنہیں وہاں تک پہنچنے کی استطاعت ہو اور جس نے کفر کیا تو جان لے کہ اللہ سارے جہان سے بے نیاز ہے‘‘۔
۱دین کی اصل و اساس خدا شناسی ہے۔ ’’دین‘‘ کے لغوی معنی اطاعت اور عرفی معنی شریعت کے ہیں۔ یہاں خواہ لغوی معنی مراد لئے جائیں یا عرفی دونوں صورتوں میں اگر ذہن کسی معبود کے تصور سے خالی ہو تو نہ اطاعت کا سوال پیدا ہوتا ہے اور نہ کسی آئین کی پابندی کا، کیونکہ جب کوئی منزل ہی سامنے نہ ہو گی تو منزل کے رخ پر بڑھنے کے کیا معنی؟ اور جب کوئی مقصد ہی پیشِ نظر نہ ہو گا تو اس کیلئے تگ و دو کرنے کا کیا مطلب؟ البتہ جب انسان کی عقل و فطرت اس کا سر رشتہ کسی مافوق الفطرت طاقت سے جوڑ دیتی ہے اور اس کا ذوقِ پرستاری و جذبۂ عبودیت اسے کسی معبود کے آگے جھکا دیتا ہے تو وہ من مانی کر گزرنے کے بجائے اپنی زندگی کو مختلف قسم کی پابندیوں میں جکڑا ہوا محسوس کرتا ہے اور انہی پابندیوں کا نام ’’دین‘‘ ہے جس کا نقطۂ آغاز صانع کی معرفت اور اس کی ہستی کا اعتراف ہے۔
معرفت کی بنیادی حیثیت کی طرف اشارہ کرنے کے بعد اس کے ضروری ارکان و شرائط بیان فرمائے ہیں اور عموماً افرادِ انسانی جن ناقص مراتب ادراک کو اپنی منزل آخر بنا کر قانع ہو جاتے ہیں ان کے ناکافی ہونے کا اظہار فرمایا ہے۔
اور اس کا پہلا درجہ یہ ہے کہ فطرت کے وجدانی احساس اور ضمیر کی راہنمائی سے یا اہلِ مذاہب کی زبان سے سن کر اُس اَن دیکھی ہستی کا تصور ذہن میں پیدا ہو جائے جو ’’خدا‘‘ کہی جاتی ہے۔ یہ تصور در حقیقت فکر و نظر کی ذمہ داری اور تحصیل معرفت کا حکم عائد ہونے کا عقلاً پیش خیمہ ہے، لیکن تساہل پسند یا ماحول کے دباؤ میں اسیر ہستیاں اس تصور کے پیدا ہونے کے باوجود طلب کی زحمت گوارا نہیں کرتیں تو وہ تصور تصدیق کی شکل اختیار نہیں کرتا۔ اس صورت میں وہ معرفت سے محروم ہو جاتی ہیں اور باوجودِ تصور بمنزل تصدیق سے ان کی محرومی چونکہ بالاختیار ہوتی ہے، اس لئے وہ اس پر مواخذہ کی مستحق ہوتی ہیں، لیکن جو اس تصور کی تحریک سے متاثر ہو کر قدم آگے بڑھاتا ہے وہ غور و فکر ضروری سمجھتا ہے۔
اور اس طرح دوسرا درجہ اِدراک کا حاصل ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ مخلوقات کی بو قلمونیوں اور مصنوعات کی نیرنگیوں سے صانع عالم کا کھوج لگایا جائے۔ کیونکہ ہر نقش نقاش کے وجود پر اور ہر اثر مؤثر کی کارفرمائی پر ایک ٹھوس اور بے لچک دلیل ہے۔ چنانچہ انسان جب اپنے گرد و پیش نظر دوڑاتا ہے تو اسے ایسی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی کہ جو کسی صانع کی کا فرمائی کے بغیر موجود ہو گئی ہو، یہاں تک کہ کوئی نقشِ قدم بغیر راہرو کے اور کوئی عمارت بغیر معمار کے کھڑی ہوتے ہوئے نہیں دیکھتا تو کیونکر یہ باور کر سکتا ہے کہ یہ فلک نیلگوں اور اس کی پہنائیوں میں آفتاب و مہتاب کی تجلیاں اور یہ زمین اور اس کی وسعتوں میں سبزہ و گل کی رعنائیاں بغیر کسی صانع کی صنعت طرازی کے موجود ہو گئی ہوں گی۔ لہٰذا موجودات عالم اور نظم کائنات کو دیکھنے کے بعد کوئی انسان اس نتیجہ تک پہنچنے سے اپنے دل و دماغ کو نہیں روک سکتا کہ اس جہان رنگ وبو کا کوئی بنانے سنوارنے والا ہے، کیونکہ تہی دامانِ وجود سے فیضانِ وجود نہیں ہو سکتا اور نہ عدم سے وجود کا سرچشمہ پھوٹ سکتا ہے۔ قرآن نے اس استدلال کی طرف ان لفظوں میں اشارہ کیا ہے:
﴿اَفِى اللّٰهِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِؕ﴾
کیا اللہ کے وجود میں شک ہو سکتا ہے جو زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا ہے۔[۱]
لیکن یہ درجہ بھی ناکافی ہے، جبکہ اس کی تصدیق میں غیر کی الوہیت کے عقیدہ کی آمیزش ہو۔
تیسرا درجہ یہ ہے کہ اس کی ہستی کا اقرار وحدت و یگانگت کے اعتراف کے ساتھ ہو۔ بغیر اس کے خدا کی تصدیق مکمل نہیں ہو سکتی، کیونکہ جس کے ساتھ اور بھی خدا مانے جائیں گے وہ ایک نہیں ہو گا اور خدا کیلئے ایک ہونا ضروری ہے، کیونکہ ایک سے زائد ہونے کی صورت میں یہ سوال پیدا ہو گا کہ اس کائنات کو ان میں سے ایک نے پیدا کیا ہے یا سب نے مل جل کر۔ اگر ایک نے پیدا کیا ہے تو اس میں کوئی خصوصیت ہونا چاہیے، ورنہ اس ایک کو بلا وجہ ترجیح ہو گی جو عقلاً باطل ہے اور اگر سب نے مل جل کر بنایا ہے تو دو حال سے خالی نہیں: یا تو وہ دوسروں کی مدد کے بغیر اپنے اُمور کی انجام دہی نہ کر سکتا ہو گا یا ان کی شرکت و تعاون سے بے نیاز ہو گا۔پہلی صورت میں اس کا محتاج و دستِ نگر ہونا اور دوسری صورت میں ایک فعل کیلئے کئی ایک مستقل فاعلوں کا کارفرما ہونا لازم آئے گا اور یہ دونوں صورتیں اپنے مقام پر باطل کی جا چکی ہیں۔ اور اگر یہ فرض کیا جائے کہ سارے خداؤں نے حصہ رسدی مخلوقات کو آپس میں بانٹ کر ایجاد کیا ہے تو اس صورت میں تمام ممکنات کی ہر واجب الوجود سے یکساں نسبت نہ رہے گی، بلکہ صرف اپنے بنانے والے ہی سے نسبت ہو گی، حالانکہ ہر واجب کو ہر ممکن سے اور ہر ممکن کو ہر واجب سے یکساں نسبت ہونا چاہیے، کیونکہ تمام ممکنات اثر پذیری میں اور تمام واجب الوجود اثر اندازی میں ایک سے مانے گئے ہیں۔ تو اب اسے ایک مانے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے، کیونکہ متعدد خالق ماننے کی صورت میں کسی چیز کے موجود ہونے کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی اور زمین و آسمان اور کائنات کی ہر شے کیلئے تباہی و بربادی ضروری قرار پاتی ہے۔ اللہ سبحانہ نے اس دلیل کو ان لفظوں میں پیش کیا ہے:
﴿ لَوْ كَانَ فِيْهِمَاۤ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ لَـفَسَدَتَاۚ﴾
اگر زمین و آسمان میں اللہ کے علاوہ اور بھی خدا ہوتے تو یہ زمین و آسمان دونوں تباہ و برباد ہو جاتے۔[۲]
چوتھا درجہ یہ ہے کہ اسے ہر نقص و عیب سے پاک سمجھا جائے اور جسم و صورت، تمثیل و تشبیہ، مکان و زمان ، حرکت و سکون اور عجز و جہل سے منزہ مانا جائے، کیونکہ اس باکمال و بے عیب ذات میں نہ کسی نقص کا گزر ہو سکتا ہے نہ اس کے دامن پر کسی عیب کا دھبہ اُبھر سکتا ہے اور نہ اس کو کسی کے مثل و مانند ٹھہرایا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ تمام چیزیں وجوب کی بلندیوں سے اتار کر امکان کی پستیوں میں لے آنے والی ہیں۔ چنانچہ قدرت نے توحید کے پہلو بہ پہلو اپنی تنزیہ و تقدیس کو بھی جگہ دی ہے:
(۱)﴿قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ ۚ اَللّٰهُ الصَّمَدُ ۚ لَمْ يَلِدْ ۙ وَلَمْ يُوْلَدْ ۙ وَلَمْ يَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ
کہہ دو کہ اللہ یگانہ ہے، اس کی ذات بے نیاز ہے، نہ وہ کسی کی اولاد ہے نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ اس کا کوئی ہم پلّہ ہے۔[۳]
(۲)﴿لَا تُدْرِكُهُ الْاَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَۚ وَهُوَ اللَّطِيْفُ الْخَبِيْرُ﴾
اس کو نگاہیں دیکھ نہیں سکتیں، البتہ وہ نگاہوں کو دیکھ رہا ہے اور وہ ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز سے آگاہ اور با خبر ہے۔[۴]
(۳)﴿فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰهِ الْاَمْثَالَؕ اِنَّ اللّٰهَ يَعْلَمُ وَاَنْـتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾
اللہ کیلئے مثالیں نہ گھڑ لیا کرو۔ بے شک اصل حقیقت کو اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔[۵]
(۴)﴿لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَىْءٌ ۚ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ﴾
کوئی چیز اس کے مانند نہیں ہے وہ سنتا بھی ہے اور دیکھتا بھی ہے۔[۶]
پانچواں درجہ یہ ہے جس سے معرفت مکمل ہوتی ہے کہ اس کی ذات میں صفتوں کو الگ سے نہ سمویا جائے کہ ذاتِ احدیت میں دوئی کی جھلک پیدا ہو جائے اور توحید اپنے صحیح مفہوم کو کھو کر ایک، تین اور تین ایک کے چکر میں پڑ جائے، کیونکہ اس کی ذات جو ہر و عرض کا مجموعہ نہیں کہ اس میں صفتیں اس طرح قائم ہوں جس طرح پھول میں خوشبو اور ستاروں میں چمک، بلکہ اس کی ذات خود تمام صفتوں کا سر چشمہ ہے اور وہ اپنے کمالاتِ ذاتی کے اظہار کیلئے کسی توسط کی محتاج نہیں ہے۔ اگر اسے ’’عالم‘‘ کہا جاتا ہے تو اس بنا پر کہ اس کے علم کے آثار نمایاں ہیں اور اگر اسے ’’قادر‘‘ کہا جاتا ہے تو اس لیے کہ ہر ذرّہ اس کی قدرت و کارفرمائی کا پتہ دے رہا ہے اور ’’سمیع و بصیر‘‘ کہا جاتا ہے تو اس وجہ سے کہ کائنات کی شیرازہ بندی اور مخلوقات کی چارہ سازی دیکھے اور سنے بغیر نہیں ہو سکتی۔ مگر ان صفتوں کی نمود اس کی ذات میں اس طرح نہیں ٹھہرائی جا سکتی جس طرح ممکنات میں کہ اس میں علم آئے تو وہ عالم ہو اور ہاتھ پیروں میں توانائی آئے تو وہ قادر و توانا ہو، کیونکہ صفت کو ذات سے الگ ماننے کا لازمی نتیجہ دوئی ہے اور جہاں دوئی کا تصور ہوا وہاں توحید کا عقیدہ رخصت ہوا۔ اسی لئے امیر المومنین علیہ السلام نے زائد بر ذات صفات کی نفی فرما کر صحیح توحید کے خد و خال سے آشنا فرمایا ہے اور دامن وحدت کو کثرت کے دھبوں سے بدنما نہیں ہونے دیا۔ اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ اس کیلئے کوئی صفت تجویز ہی نہیں کی جا سکتی کہ ان لوگوں کے مسلک کی تائید ہو جو سلبی تصورات کے بھیانک اندھیروں میں ٹھوکریں کھا رہے ہیں، حالانکہ کائنات کا گوشہ گوشہ اس کی صفتوں کے آثار سے چھلک رہا ہے اور مخلوقات کا ذرّہ ذرّہ گواہی دے رہا ہے کہ وہ جاننے والا ہے، قدرت والا ہے، سننے اور دیکھنے والا ہے اور اپنے دامن ربوبیت میں پالنے والا اور سایۂ رحمت میں پروان چڑھانے والا ہے، بلکہ مقصد یہ ہے کہ اس کی ذات میں الگ سے کوئی ایسی چیز تجویز نہیں کی جا سکتی کہ اسے صفت سے تعبیر کرنا صحیح ہو، کیونکہ جو ذات ہے وہی صفت ہے اور جو صفت ہے وہی ذات ہے۔
اسی مطلب کو امام جعفر صادق علیہ السلام کی زبانِ فیض ترجمان سے سماعت فرمائیے اور پھر مذاہب عالم کے عقیدہ توحید کو اس کی روشنی میں دیکھئے اور پرکھئے کہ توحید کے صحیح مفہوم سے روشناس کرانے والی فردیں کون تھیں۔ چنانچہ آپؑ فرماتے ہیں:
لَمْ يَزَلِ اللّٰهُ عَزَّ وَ جَلَّ رَبَّنَا وَ الْعِلْمُ ذَاتُهٗ وَ لَا مَعْلُوْمَ وَ السَّمْعُ ذَاتُهٗ وَ لَا مَسْمُوْعَ وَ الْبَصَرُ ذَاتُهٗ وَ لَا مُبْصَرَ وَ الْقُدْرَةُ ذَاتُهٗ وَ لَا مَقْدُوْرَ، فَلَمَّاۤ اَحْدَثَ الْاَشْيَآءَ وَ كَانَ الْمَعْلُوْمُ وَقَعَ الْعِلْمُ مِنْهُ عَلَى الْمَعْلُوْمِ وَ السَّمْعُ عَلَى الْمَسْمُوْعِ وَ الْبَصَرُ عَلَى الْمُبْصَرِ وَ الْقُدْرَةُ عَلَى الْمَقْدُوْرِ.
ہمارا خدائے بزرگ و بر تر ہمیشہ سے عینِ علم رہا حالانکہ معلوم ابھی کتم عدم میں تھا، اور عین سمع و بصر رہا حالانکہ نہ کسی آواز کی گونج بلند ہوئی تھی اور نہ کوئی دکھائی دینے والی چیز تھی، اور عین قدرت رہا، حالانکہ قدرت کے اثرات کو قبول کرنے والی کوئی شے نہ تھی۔ پھر جب اس نے ان چیزوں کو پیدا کیا اور معلوم کا وجود ہوا تو اس کا علم معلومات پر پوری طرح منطبق ہوا، خواہ وہ سنی جانے والی صدائیں ہوں یا دیکھی جانے والی چیزیں ہوں اور مقدور کے تعلق سے اس کی قدرت نمایاں ہوئی۔(توحید صدوق، ص۱۳۹)
یہ وہ عقیدہ ہے جس پر آئمہ اہل بیت علیہم السلام کا اجماع ہے، مگر سواد اعظم نے اس کے خلاف دوسرا راستہ اختیار کیا ہے اور ذات و صفات میں علیحدگی کا تصور پیدا کر دیا ہے۔ چنانچہ شہر ستانی نے تحریر کیا ہے کہ:
قَالَ اَبُو الْحَسَنِ: الْبَارِیْ تَعَالٰى عَالِمٌۢ بِعِلْمٍ، قَادِرٌۢ بِقُدْرَةٍ، حَیٌّۢ بِحَيَاةٍ، مُرِيْدٌۢ بِاِرَادَةٍ، مُتَكَلِّمٌۢ بِكَلَامٍ، سَمِيْعٌۢ بِسَمْعٍ، بَصِيْرٌۢ بِبَصَرٍ.
ابوالحسن اشعری کہتے ہیں کہ: باری تعالیٰ علم، قدرت ، حیات، ارادہ، کلام اور سمع و بصر کے ذریعہ عالم، قادر، زندہ، مرید، متکلم اور سمیع و بصیر ہے۔ (الملل و النحل، شہرستانی، ج۱، ص۹۳)
اگر صفتوں کو اس طرح زائد بر ذات مانا جائے گا تو دو حال سے خالی نہیں: یا تو یہ صفتیں ہمیشہ سے اس میں ہوں گی یا بعد میں طاری ہوئی ہوں گی۔ پہلی صورت میں جتنی اس کی صفتیں مانی جائیں گی اتنے ہی قدیم اور ماننا پڑیں گے جو قدامت میں اس کے شریک ہوں گے ﴿تَعٰلَى اللہُ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ﴾۔ اور دوسری صورت میں اس کی ذات کو محلِ حوادث قرار دینے کے علاوہ یہ لازم آئے گا کہ وہ ان صفتوں کے پیدا ہونے سے پہلے نہ عالم ہو، نہ قادر، نہ سمیع ہو اور نہ بصیر ۔اور یہ عقیدہ اساسی طور پر اسلام کے خلاف ہے۔↑
۲۲قرآن مجید کے احکام کے سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ:
اس میں حلال و حرام کا بیان ہے، جیسے: ﴿وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا ؕ﴾ [۷]: ’’اللہ نے خرید و فروخت کو جائز کیا ہے اور سود کو حرام کر دیا ہے‘‘۔
اس میں فرائض و مستحبات کا ذکر ہے، جیسے: ﴿فَاِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلٰوةَ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ قِيَامًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰى جُنُوْبِكُمْ ۚؕ فَاِذَا اطْمَاْنَنْتُمْ فَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ ۚ﴾ [۸]: ’’جب نماز (خوف) ادا کر چکو تو اٹھتے بیٹھتے لیٹتے اللہ کو یاد کرو اور جب (دشمن کی طرف سے) مطمئن ہو جاؤ تو پھر (معمول کے مطابق) نماز پڑھا کرو‘‘۔ نماز فرض ہے اور دوسرے اذکار مستحب ہیں۔
اس میں ناسخ و منسوخ بھی ہیں۔ ’’ناسخ‘‘ جیسے عدہ وفات میں: ﴿اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّعَشْرًا﴾[۹]: ’’چار مہینے دس دن‘‘ اور ’’منسوخ‘‘ جیسے: ﴿مَتَاعًا اِلَى الْحَوْلِ غَيْرَ اِخْرَاجٍ۰ۚ﴾ (سورۂ بقرہ، آیت۲۴۰) جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدہ وفات ایک سال ہے۔
اس میں مخصوص مواقع پر حرام چیزوں کیلئے رخصت و اجازت بھی ہے، جیسے: ﴿فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَلَاۤ اِثْمَ عَلَيْهِؕ ﴾[۱۰]: ’’اگر کوئی شخص بحالت مجبوری (حرام چیزوں میں سے) کچھ کھالے تو اس پر کوئی گناہ نہیں، درآں صورتیکہ حدود شریعت کو توڑنا اور ان سے متجاوز ہونا نہ چاہتا ہو‘‘۔
اس میں اٹل احکام بھی ہیں جیسے: ﴿وَّلَايُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا ﴾[۱۱]: ’’چاہئے کہ وہ اپنے پروردگار کی عبادت میں کسی کو شریک نہ کرے‘‘۔
اس میں خاص و عام بھی ہیں۔ ’’خاص‘‘ وہ کہ جس کے لفظ میں وسعت ہو اور معنی مقصود کا دائرہ محدود ہو، جیسے: ﴿وَاَنِّىْ فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعٰلَمِيْنَ﴾[۱۲]: ’’اے بنی اسرائیل ہم نے تمہیں عالمین پر فضیلت دی ہے‘‘۔ اس میں ’’عالمین‘‘ سے صرف انہی کا زمانہ مراد ہے، اگرچہ لفظ تمام جہانوں کو شامل ہے، اور ’’عام‘‘ وہ ہے جو اپنے معنی میں پھیلاؤ رکھتا ہو، جیسے: ﴿وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيْمٌ ۙ﴾[۱۳]: ’’اللہ ہر چیز کا جاننے والا ہے‘‘۔
اس میں عبرتیں اور مثالیں بھی ہیں: ’’عبرتیں‘‘ جیسے: ﴿فَاَخَذَهُ اللّٰهُ نَڪَالَ الْاٰخِرَةِ وَالْاُوْلٰى ؕ اِنَّ فِىْ ذٰلِكَ لَعِبْرَةً لِّمَنْ يَّخْشٰىؕ ﴾[۱۴]: ’’خدا نے اسے دنیا و آخرت کے عذاب میں دھر لیا، جو اللہ سے ڈرے اس کیلئے اس میں عبرت کا سامان ہے‘‘۔ اور ’’مثالیں‘‘ جیسے: ﴿ مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِىْ سَبِيْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِىْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍؕ﴾©۱۵®: ’’جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس بیج کی سی ہے جس سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو سو دانے ہوں‘‘۔
اس میں مطلق و مقید ہیں۔ ’’مطلق‘‘ وہ کہ جس میں کسی قسم کی تقیید و پابندی نہ ہو، جیسے: ﴿وَاِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖۤ اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُكُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَةً ؕ﴾©۱۶®: ’’اس موقعہ کو یاد کرو کہ جب موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ تمہیں اللہ کا یہ حکم ہے کہ تم کوئی سی گائے ذبح کرو‘‘۔ اور ’’مقید‘‘ وہ کہ جس میں تشخص و قیود کی پابندی ہو، جیسے: ﴿اِنَّهٗ يَقُوْلُ اِنَّهَا بَقَرَةٌ لَّا ذَلُوْلٌ تُثِيْرُ الْاَرْضَ وَلَا تَسْقِى الْحَـرْثَ﴾©۱۷®: ’’اللہ فرماتا ہے کہ وہ ایسی گائے ہو . جو نہ ہل میں جوتی گئی ہو اور نہ اس سے کھیتوں کو سینچا گیا ہو‘‘۔
اس میں محکم و متشابہہ بھی ہیں۔ ’’محکم‘‘ وہ کہ جس میں کوئی گنجلک نہ ہو جیسے: ﴿اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى کُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ﴾©۱۸®: ’’بے شک اللہ ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔ اور ’’متشابہ‘‘ وہ کہ جس کے معنی الجھے ہوئے ہوں جیسے: ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوٰى﴾©۱۹® جس کے ظاہر مفہوم سے یہ توہم بھی ہوتا ہے کہ وہ جسمانی طور سے عرش پر برقرار ہے، لیکن مقصود غلبہ و تسلط ہے۔
اس میں بعض احکام مجمل ہیں، جیسے: ﴿وَّاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ﴾©۲۰®:‘‘ نماز قائم کرو‘‘۔
اس میں گہرے مطالب بھی ہیں جیسے وہ آیات کہ جن کے متعلق قدرت کا ارشاد ہے کہ: ﴿وَمَا يَعْلَمُ تَاْوِيْلَهٗۤ اِلَّا اللّٰهُ ؔۘ وَ الرّٰسِخُوْنَ فِى الْعِلْمِ﴾©۲۱®: ’’ان کی تاویل کو اللہ اور رسولؐ اور علم کی گہرائیوں میں اترے ہوئے لوگوں کے علاوہ کوئی دوسرا نہیں جانتا‘‘۔
پھر ایک دوسرے عنوان سے تفصیل بیان فرماتے ہیں کہ:
اس میں کچھ چیزیں وہ ہیں جن کا جاننا ضروری ہے، جیسے: ﴿فَاعْلَمْ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ﴾©۲۲®: ’’اس بات کو جانے رہو کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں‘‘۔ اور کچھ چیزیں وہ ہیں جن کا جاننا ضروری نہیں ہے، جیسے: ﴿الٓمّٓۚ﴾ (سورۂ بقرہ، آیت۱)وغیرہ۔
اور اس میں کچھ احکام ایسے ہیں جو سنت پیغمبرؐ سے منسوخ ہو گئے ہیں، جیسے: ﴿وَالّٰتِىْ يَاْتِيْنَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِّسَآٮِٕكُمْ فَاسْتَشْهِدُوْا عَلَيْهِنَّ اَرْبَعَةً مِّنْكُمْ ۚ فَاِنْ شَهِدُوْا فَاَمْسِكُوْهُنَّ فِى الْبُيُوْتِ حَتّٰى يَتَوَفّٰٮهُنَّ الْمَوْتُ﴾ ©۲۳®: ’’تمہاری عورتوں میں سے جو بد چلنی کی مرتکب ہوں ان کی بدکاری پر اپنے آدمیوں میں سے چار کی گواہی لو، اگر وہ گواہی دیں تو ایسی عورتوں کو گھروں میں بند کر دو، یہاں تک کہ موت ان کی زندگی ختم کر دے‘‘۔ یہ سزا اوائل اسلام میں تھی لیکن بعد میں شوہر دار عورتوں کیلئے اس حکم کو حکم رجم سے منسوخ کر دیا گیا۔ اس میں کچھ احکام ایسے ہیں جن سے سنت پیغمبرؐ منسوخ ہو گئی، جیسے: ﴿فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَـرَامِؕ﴾©۲۴®: ’’چاہئے کہ تم اپنا رخ مسجد حرام کی طرف موڑ لو‘‘۔ اس سے بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا حکم منسوخ کر دیا گیا۔
اس میں ایسے احکام بھی ہیں جو صرف مقررہ وقت پر واجب ہوتے ہیں اور اس کے بعد ان کا وجوب باقی نہیں رہتا، جیسے: ﴿اِذَا نُوْدِىَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ﴾ ©۲۵®: ’’جب جمعہ کے دن نماز کیلئے پکارا جائے تو ذکر الٰہی کی طرف جلدی سے بڑھو‘‘۔
اس میں حرام کردہ چیزوں کی تفریق بھی قائم کی گئی ہے،جیسے گناہوں کا صغیرہ و کبیرہ ہونا۔ صغیرہ جیسے: ﴿قُلْ لِّـلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُـضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ﴾©۲۶®: ’’ایمان والوں سے کہو کہ وہ اپنی آنکھیں نیچی رکھیں‘‘۔ اور کبیرہ جیسے: ﴿وَمَنْ يَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَـنَّمُ خَالِدًا فِيْهَا﴾©۲۷®: ’’جو شخص کسی مومن کو جان بوجھ کر مار ڈالے اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا‘‘۔
اس میں ان اعمال کا بھی ذکر ہے جنہیں تھوڑا سا بجا لانا بھی کفایت کرتا ہے اور زیادہ سے زیادہ بجا لانے کی بھی گنجائش ہے. جیسے: ﴿فَاقْرَءُوْا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ﴾©۲۸®: ’’جتنا بآسانی قرآن پڑھ سکو اتنا پڑھ لیا کرو‘‘۔↑
[۱]۔ سورۂ ابراہیم، آیت ۱۰۔
[۲]۔ سورۂ انبیاء، آیت ۲۲۔
[۳]۔ سورۂ اخلاص، آیت ۱-۴۔
[۴]۔ سورۂ انعام، آیت ۱۰۳۔
[۵]۔ سورۂ نحل، آیت ۷۴۔
[۶]۔ سورۂ شوریٰ آیت، ۱۱۔
[۷]۔ سورۂ بقرہ، آیت ۲۷۵۔
[۸]۔ سورۂ نساء، آیت ۱۰۳۔
[۹]۔ سورۂ بقرہ، آیت ۲۳۴۔
[۱۰]۔ سورۂ بقرہ، آیت ۱۷۳۔
[۱۱]۔ سورۂ کہف، آیت ۱۱۰۔
[۱۲]۔ سورۂ بقرہ، آیت ۱۲۲۔
[۱۳]۔ سورۂ نور، آیت ۳۵۔
[۱۴]۔ سورۂ نازعات، آیت ۲۵-۲۶۔
[۱۵]۔ سورۂ بقرہ، آیت ۲۶۱۔
[۱۶]۔ سورۂ بقرہ، آیت ۶۷۔
[۱۷]۔ سورۂ بقرہ، آیت ۷۱۔
[۱۸]۔ سورۂ بقرہ، آیت ۱۰۹۔
[۱۹]۔ سورۂ طہ، آیت ۵۔
[۲۰]۔ سورۂ بقرہ، آیت ۸۳۔
[۲۱]۔ سورۂ آل عمران، آیت ۷۔
[۲۲]۔ سورۂ محمد، آیت ۱۹۔
[۲۳]۔ سورۂ نساء، آیت ۱۵۔
[۲۴]۔ سورۂ بقرہ، آیت ۱۴۴۔
[۲۵]۔ سورۂ جمعہ، آیت ۹۔
[۲۶]۔ سورۂ نور، آیت ۳۰۔
[۲۷]۔ سورۂ نساء، آیت ۹۳۔
[۲۸]۔ سورۂ مزمل، آیت ۲۰۔