خدا تم پر رحم کرے! شاید تم نے حتمی و لازمی قضاء و قدر سمجھ لیا ہے (کہ جس کے انجام دینے پر ہم مجبور ہیں)۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر نہ ثواب کا کوئی سوال پیدا ہوتا نہ عذاب کا، نہ وعدے کے کچھ معنی رہتے نہ وعید کے۔ حکمت 78
(٦٦) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ
(۶۶)
فَوْتُ الْحَاجَةِ اَهْوَنُ مِنْ طَلَبِهَا اِلٰى غَیْرِ اَهْلِهَا.
مطلب کا ہاتھ سے چلا جانا نااہل کے آگے ہاتھ پھیلانے سے آسان ہے۔
نا اہل کے سامنے حاجت پیش کرنے سے جو شرمندگی حاصل ہوتی ہے وہ محرومی کے اندوہ سے کہیں زیادہ روحانی اذیت کا باعث ہوتی ہے۔ اس لئے مقصد سے محرومی کو برداشت کیا جا سکتا ہے، مگر ایک دنی و فر و مایہ کی زیر باری ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ چنانچہ ہر با حمیت انسان نااہل کے ممنونِ احسان ہونے سے اپنی حرمانِ نصیبی کو ترجیح دے گا اور کسی پست و دنی کے آگے دستِ سوال دراز کرنا گوارا نہ کرے گا۔

