دنیا میں بندوں کے جو اعمال ہیں وہ آخرت میں ان کی آنکھوں کے سامنے ہوں گے۔ حکمت 6
(٢٢٩) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ
(۲۲۹)
كَفٰى بِالْقَنَاعَةِ مُلْكًا، وَ بِحُسْنِ الْخُلُقِ نَعِیْمًا.
قناعت سے بڑھ کر کوئی سلطنت اور خوش خلقی سے بڑھ کر کوئی عیش و آرام نہیں ہے۔
وَ سُئِلَ ؑ عَنْ قَوْلِهٖ تَعَالٰى: ﴿فَلَنُحْیِیَنَّهٗ حَیٰوةً طَیِّبَةً ۚ ﴾، فَقَالَ:
حضرتؑ سے اس آیت کے متعلق دریافت کیا گیا کہ: ’’ہم اس کو پاک و پاکیزہ زندگی دیں گے‘‘ ، آپؑ نے فرمایا کہ:
هِیَ الْقَنَاعَةُ.
وہ قناعت ہے۔
’’حُسنِ خلق‘‘ کو نعمت سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جس طرح نعمت باعث لذت ہوتی ہے، اسی طرح انسان خوش اخلاقی و نرمی سے دوسروں کے دلوں کو اپنی مٹھی میں لے کر اپنے ماحول کو خوشگوار بنا سکتا ہے اور اپنے لئے لذت و راحت کا سامان کر نے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ اور قناعت کو سرمایہ و جاگیر اس لئے قرار دیا ہے کہ جس طرح ملک و جاگیر احتیاج کو ختم کر دیتی ہے، اسی طرح جب انسان قناعت اختیار کر لیتا ہے اور اپنے رزق پر خوش رہتا ہے تو وہ خلق سے مستغنی اور احتیاج سے دور ہو جاتا ہے۔
هر که قانع شد به خشک و تر، شهِ بحر و بر است