جو لوگوں کا پیشوا بنتا ہے تو اسے دوسروں کو تعلیم دینے سے پہلے اپنے کو تعلیم دینا چاہیے، اور زبان سے درس اخلاق دینے سے پہلے اپنی سیرت و کردار سے تعلیم دینا چاہیے۔ حکمت 73
(١٠٢) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ
(۱۰۲)
یَاْتِیْ عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لَّا یُقَرَّبُ فِیْهِ اِلَّا الْمَاحِلُ، وَ لَا یُظَرَّفُ فِیْهِ اِلَّا الْفَاجِرُ، وَ لَا یُضَعَّفُ فِیْهِ اِلَّا الْمُنْصِفُ، یَعُدُّوْنَ الصَّدَقَةَ فِیْهِ غُرْمًا، وَ صِلَةَ الرَّحِمُ مَنًّا، وَ الْعِبَادَةَ اسْتِطَالَةً عَلَى النَّاسِ، فَعِنْدَ ذٰلِكَ یَكُوْنُ السُّلْطَانُ بِمَشُوْرَةِ النِّسَآءِ، وَ اِمَارَةِ الصِّبْیَانِ، وَ تَدْبِیْرِ الْخِصْیَانِ۔
لوگوں پر ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا جس میں وہی بارگاہوں میں مقرب ہو گا جو لوگوں کے عیوب بیان کرنے والا ہو، اور وہی خوش مذاق سمجھا جائے گا جو فاسق و فاجر ہو، اور انصاف پسند کو کمزور و ناتواں سمجھا جائے گا، صدقہ کو لوگ خسارہ اور صلہ رحمی کو احسان سمجھیں گے، اور عبادت لوگوں پر تفوق جتلانے کیلئے ہو گی۔ ایسے زمانہ میں حکومت کا دارومدار عورتوں کے مشورے، نو خیز لڑکوں کی کار فرمائی اور خواجہ سراؤں کی تدبیر و رائے پر ہو گا۔