فہرست کلمات

1- فتنہ وفسادسےعلیحدگی
2- ذلتِ نفس کے اسباب
3- عیوب و محاسن
4- علم وادب
5- چند اوصاف
6- خود پسندی
7- انسانی حاسے
8- اقبال و ادبار
9- حُسنِ معاشرت
10- عفو و اقتدار
11- عجز و درماندگی
12- ناشکری
13- اپنے اور بیگانے
14- مبتلائے فتنہ
15- تدبیر کی بے چارگی
16- خضاب
17- غیر جانبداری
18- طول اَمل
19- پاس مروّت
20- شرم و حیا
21- حق سے محرومی
22- عمل اور نسب
23- دستگیری
24- مہلت
25- بات چھپ نہیں سکتی
26- ہمت نہ چھوڑو
27- اخفائے زہد
28- موت
29- پردہ پوشی
30- ایمان
31- کفر
32- نیکی و بدی
33- میانہ روی
34- ترکِ آرزو
35- مرنجان مرنج
36- طول اَمل
37- تعظیم کا ایک طریقہ
38- امام حسن ؈ کو نصیحت
39- فرائض کی اہمیت
40- دانا و نادان
41- عاقل و احمق
42- اجر و عوض
43- خباب ابن ارت
44- قابل مبارکباد
45- مومن و منافق
46- خود پسندی
47- قدر ہر کس بقدر ہمت اوست
48- حزم و احتیاط
49- شریف و رذیل
50- دل وحشت پسند
51- خوش بختی
52- عفوو درگزر
53- سخاوت کے معنی
54- چند صفتیں
55- صبر کی دو قسمیں
56- فقر و غنا
57- قناعت
58- مال و دولت
59- ناصح کی تلخ بیانی
60- زبان کی درندگی
61- عورت ایک بچھو ہے
62- احسان کا بدلہ
63- سفارش
64- دنیا والوں کی غفلت
65- دوستوں کو کھونا
66- نا اہل سے سوال
67- سائل کو ناکام نہ پھیرو
68- عفت و شکر
69- ناکامی کا خیال نہ کرو
70- افراط و تفریط
71- کمال عقل
72- زمانہ کا رویہ
73- پیشوا کے اوصاف
74- یہ سانسیں
75- رفتنی وگزشتنی
76- آغاز و انجام
77- ضرار کا بیان
78- قضا و قدر
79- حکمت
80- سرمایۂ حکمت
81- ہنر کی قدر و قیمت
82- پانچ نصیحتیں
83- مدح سرائی
84- بقیۃ السیف
85- ہمہ دانی
86- بڑوں کا مشورہ
87- استغفار
88- ایک لطیف استنباط
89- اللہ سے خوش معاملگی
90- پورا علم
91- دل کی خستگی
92- علم بے عمل
93- فتنہ کی تفسیر
94- خیر کی تشریح
95- معیار عمل
96- معیار تقرب
97- ایک خارجی کی عبادت
98- روایت و درایت
99- ﴿ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّآ اِلَيْہِ رٰجِعُوْنَ﴾ کی تفسیر
100- جواب مدح
101- حاجت روائی
102- ایک پیشین گوئی
103- بوسیدہ لباس
104- نوف بکالی کا بیان
105- فرائض کی پابندی
106- دین سے بے اعتنائی
107- غیر مفید علم
108- دل کی حالت
109- مرکز ہدایت
110- حاکم کے اوصاف
111- سہل ابن حنیف
112- محبت اہل بیتؑ
113- پسندیدہ اوصاف
114- خوش گمانی و بد گمانی
115- مزاج پُرسی کا جواب
116- ابتلاء و آزمائش
117- دوست و دشمن
118- فرصت کے کھونے کا نتیجہ
119- دنیا کی ایک مثال
120- قریش کی خصوصیت
121- دو عمل
122- مشایعت جنازہ
123- چند صفات
124- غیرت
125- حقیقی اسلام
126- تعجب انگیز چیزیں
127- کوتاہی اعمال کا نتیجہ
128- بہار و خزاں میں احتیاط
129- عظمتِ خالق
130- مرنے والوں سے خطاب
131- دنیا کی ستائش
132- فرشتے کی ندا
133- بے ثباتی دنیا
134- دوستی کے شرائط
135- چار چیزیں
136- بعض عبادات کی تشریح
137- صدقہ
138- جود و سخا
139- رزق و روزی
140- کفایت شعاری
141- راحت و آسودگی
142- میل ملاقات
143- غم
144- صبر
145- عمل بے روح
146- صدقہ و زکوٰۃ
147- فضیلتِ علم
148- تا مرد سخن نگفتہ باشد
149- قدر نا شناسی
150- پندو موعظت
151- انجام
152- نیستی و بربادی
153- صبر و شکیبائی
154- عمل اور اس پر رضا مندی
155- عہد و پیمان
156- معرفتِ امام
157- پند و نصیحت
158- بُرائی کا بدلہ بھلائی
159- مواقع تہمت
160- جانبداری
161- خودرائی
162- رازداری
163- فقر و ناداری
164- حق کی ادائیگی
165- اطاعتِ مخلوق
166- حق سے دستبرداری
167- خود پسندی
168- قربِ موت
169- صبح کا اُجالا
170- توبہ میں مشکلات
171- حرص و طمع
172- جہل و نادانی
173- مشورہ
174- نیت کا روزہ
175- خوف کا علاج
176- سردار کی علامت
177- بدی سے روکنے کا طریقہ
178- دل کی صفائی
179- ضد اور ہٹ دھرمی
180- طمع
181- دُور اندیشی
182- خاموشی و گویائی کا محل
183- دو مختلف دعوتیں
184- یقین
185- صدق بیانی
186- ظلم کا انجام
187- چل چلاؤ کا ہنگام
188- حق سے رو گردانی
189- صبر
190- معیارِ خلافت
191- دنیا کی حالت
192- دوسروں کا حق
193- خوش دلی و بد دلی
194- غصّہ اور انتقام
195- گندگی کو دیکھ کر
196- عبرت کی قدر و قیمت
197- دلوں کی خستگی
198- قول خوارج
199- عوام
200- تماشائی
201- محافظ فرشتے
202- بجواب طلحہ و زبیر
203- موت کی گرفت
204- قدرت کی قدر دانی
205- ظرفِ علم
206- علم و بردباری
207- برد بار بنو
208- محاسبہ
209- آخری دور
210- آخرت
211- چند ہدایتیں
212- خود پسندی
213- صبر و درگزر
214- نرمی و ملائمت
215- مخالفت بے جا
216- گردن کشی
217- نشیب و فراز
218- حسد
219- طمع و حرص
220- بدگمانی
221- ظلم و تعدی
222- چشم پوشی
223- شرم و حیا
224- چند اوصاف
225- یہ حاسد
226- طمع
227- ایمان کی تعریف
228- غم دنیا
229- قناعت
230- شرکت
231- عدل و احسان
232- اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے
233- دعوت مقابلہ
234- عورت و مرد کے صفات
235- عاقل و جاہل
236- دنیا کی بے قدری
237- عبادت کے اقسام
238- عورت کی مذمت
239- تساہل و عیب جوئی
240- غصب
241- ظالم و مظلوم
242- تقویٰ
243- جوابات کی کثرت
244- شکر و سپاس
245- خواہشات کی کمی
246- کفرانِ نعمت
247- جذبۂ کرم
248- حُسنِ ظن
249- افضل اعمال
250- خداشناسی
251- تلخی و شیرینی
252- فرائض کے حکم و مصالح
253- جھوٹی قسم
254- اُمور خیر کی وصیت
255- غیظ و غضب
256- حسد
257- حاجت روائی
258- صدقہ
259- وفا و غداری
260- ابتلا و آزمائش
261- بے وفا ساتھی
262- حارث ابن حُوط
263- مصاحب سلطان
264- حُسنِ سلوک
265- کلام حکماء
266- ایک سائل کے جواب میں
267- فکر فردا
268- دوستی و دشمنی میں احتیاط
269- عمل دنیا و عمل آخرت
270- خانہ کعبہ کے زیور
271- بیت المال کی چوری
272- احکام میں ترمیم
273- تقدیر و تدبیر
274- علم و یقین
275- طمع و حرص
276- ظاہر و باطن
277- ایک قسم
278- مفید عمل
279- فرائض کی اہمیت
280- آخرت
281- عقل کی رہبری
282- غفلت
283- عالم و جاہل
284- قطع عذر
285- طلب مہلت
286- بُرا دن
287- قضا ا ور قدر
288- علم سے محرومی
289- ایک دینی بھائی
290- ترک معصیت
291- تعزیت
292- قبر رسولؐ پر
293- بے وقوف کی مصاحبت
294- مغرب و مشرق کا فاصلہ
295- دوست و دشمن
296- ایذا رسانی
297- عبرت و بصیرت
298- دشمنی میں خوفِ خدا کا لحاظ
299- توبہ
300- حساب و کتاب
301- قاصد
302- محتاجِ دعا
303- ابنائے دنیا
304- خدا کا فرستادہ
305- غیرت مند
306- پاسبانِ زندگی
307- مال سے لگاؤ
308- دوستی و قرابت
309- ظن مومن
310- توکل
311- اَنس ابن مالک
312- دلوں کی حالت
313- قرآن کی جامعیت
314- پتھر کا جواب پتھر سے
315- خط کی دیدہ زیبی
316- یعسوب المومنین
317- ایک یہودی
318- غلبہ کا سبب
319- فقر و فاقہ
320- طرزِ سوال
321- ایک مشورہ
322- زنانِ کوفہ
323- خوارج نہروان
324- گواہ بھی اور حاکم بھی
325- محمد ابن ابی بکر کی موت
326- عذر پذیری
327- غلط طریقہ سے کامیابی
328- فقراء کا حصّہ
329- عذر خواہی
330- نعمت کا صرف بے جا
331- ادائے فرض کا موقعہ
332- بادشاہ کی حیثیت
333- مومن کے اوصاف
334- فریب آرزو
335- دوحصہ دار
336- وعدہ وفائی
337- بےعمل کی دُعا
338- علم کی دو قسمیں
339- اِقبال و اِدبار
340- عفت و شکر
341- ظالم و مظلوم
342- بڑی دولت مندی
343- کچھ لوگوں کی حالت
344- پندو موعظت
345- گناہ سے درماندگی
346- سوال
347- مدح میں حد اعتدال
348- بڑا گناہ
349- اچھے اور بُرے اوصاف
350- ظالم کے علامات
351- سختی کے بعد آسانی
352- زن و فرزند سے لگاؤ
353- عیب جوئی
354- تہنیت فرزند
355- دولت کے آثار
356- رزق رسانی
357- تعزیت
358- نعمت و نقمت
359- اِصلاح نفس
360- بدگمانی
361- دُعا کا طریقہ
362- عزت کی نگہداشت
363- موقع و محل
364- بے فائدہ سوال
365- پسندیدہ صفتیں
366- علم و عمل
367- تغیر و انقلاب
368- ثواب و عقاب
369- ایک زمانہ
370- تقویٰ و پرہیزگاری
371- اچھی اور بُری صفتیں
372- جابر ابن عبد اللہ
373- امر بالمعروف و نہی عن المنکر
374- امر بالمعروف و نہی عن المنکر
375- امر بالمعروف و نہی عن المنکر
376- حق و باطل کا نتیجہ
377- امید و یاس
378- بخل
379- رزق وروزی
380- زندگی و موت
381- زبان کی نگہداشت
382- سکوت
383- معصیت
384- محل اعتماد
385- دنیا
386- جویندہ یا بندہ
387- نیکی اور بدی
388- بڑی نعمت
389- حسب و نسب
390- مومن کے اوقات
391- زہدِ دنیا
392- تامرد سخن نگفتہ باشد
393- طلب دنیا
394- بات کا اثر
395- قناعت
396- دو دن
397- مشک
398- فخر و سربلندی
399- فرزند و پدر کے حقوق
400- با اثر اور بے اثر
401- اخلاق میں ہم آہنگی
402- بے محل گفتگو
403- طلب الکل، فوت الکل
404- »لَاحَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ «کے معنی
405- مغیرہ ابن شعبہ
406- تواضع و خود داری
407- عقل
408- حق سے ٹکراؤ
409- دل
410- تقویٰ
411- استاد کا احترام
412- آراستگیٔ نفس
413- قہری صبر
414- تعزیت
415- دنیا کی حالت
416- امام حسن ؈ کو ہدایت
417- استغفار کے معنی
418- حلم و بُردباری
419- بے بسی
420- بے باک نگاہیں
421- عقل کی رہبری
422- چھوٹی اور بڑی نیکی
423- اللہ سے خوش معاملگی
424- حلم و عقل
425- حقوق نعمت
426- صحت و ثروت
427- اللہ کا شکوہ
428- عید
429- حسرت و اندوہ
430- ناکام کوشش
431- رزق و روزی
432- دوستانِ خدا
433- موت کی یاد
434- آزمائش
435- شکر، دُعا اور توبہ
436- رگِ شرافت
437- عدل و جود
438- جہالت
439- زُہد کی تعریف
440- غفلت
441- حکومت
442- بہترین شہر
443- مالک اشتر
444- استقلال
445- صفات میں ہم رنگی
446- غالب ابن صعصعہ
447- تجارت
448- بڑی معصیت
449- عزت نفس
450- مزاح
451- خود داری
452- فقر و غنا
453- عبد اللہ ابن زبیر
454- فخر و غرور
455- امراء القیس
456- ترکِ دنیا
457- دو طلبگار
458- ایمان کی علامت
459- تقدیر و تدبیر
460- بلند ہمتی
461- غیبت
462- حُسنِ ثنا
463- دُنیا
464- بنی اُمیہ
465- انصار
466- ایک استعارہ
467- ایک والی
468- خریدو فروخت
469- دشمن و دوست
470- توحید و عدل
471- کلام اور خاموشی
472- طلب باراں
473- ترک خضاب
474- عفت
475- قناعت
476- زیاد ابن ابیہ
477- سہل انگاری
478- تعلیم و تعلّم
479- تکلّف
480- مفارقت

Quick Contact

علمی و عملی اوصاف نوبنو خلعت ہیں، اور فکر صاف و شفاف آئینہ ہے۔ حکمت 4
(٢٥٢) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ
(۲۵۲)
فَرَضَ اللهُ الْاِیْمَانَ تَطْهِیْرًا مِّنَ الشِّرْكِ، وَ الصَّلٰوةَ تَنْزِیْهًا عَنِ الْكِبْرِ، وَ الزَّكٰوةَ تَسْبِیْبًا لِّلرِّزْقِ، وَ الصِّیَامَ ابْتِلَآءً لِّاِخْلَاصِ الْخَلْقِ، وَ الْحَجَّ تَقْوِیَۃً لِّلدِّیْنِ، وَ الْجِهَادَ عِزًّا لِّلْاِسْلَامِ، وَ الْاَمْرَ بِالْمَعْرُوْفِ مَصْلَحَةً لِّلْعَوَامِّ، وَ النَّهْیَ عَنِ الْمُنْكَرِ رَدْعًا لِّلسُّفَهَآءِ، وَ صِلَةَ الرَّحَمِ مَنْمَاةً لِّلْعَدَدِ، وَ الْقِصَاصَ حَقْنًا لِّلدِّمَآءِ، وَ اِقَامَةَ الْحُدُوْدِ اِعْظَامًا لِّلْمَحَارِمِ، وَ تَرْكَ شُرْبِ الْخَمْرِ تَحْصِیْنًا لِّلْعَقْلِ، وَ مُجَانَبَةَ السَّرِقَةِ اِیْجَابًا لِّلْعِفَّةِ، وَ تَرْكَ الزِّنٰى تَحْصِیْنًا لِّلنَّسَبِ، وَ تَرْكَ اللِّوَاطِ تَكْثِیْرًا لِّلنَّسْلِ، وَ الشَّهَادَةَ اسْتِظهَارًا عَلَى الْـمُجَاحَدَاتِ، وَ تَرْكَ الْكَذِبِ تَشْرِیْفًا لِّلصِّدْقِ، وَ السَّلَامَ اَمَانًا مِّنَ الْـمَخَاوِفِ، وَ الْاَمَانَاتِ نِظَامًا لِّلْاُمَّةِ، وَ الطَّاعَةَ تَعْظِیْمًا لِّلْاِمَامَةِ.
خداوند عالم نے ایمان کا فریضہ عائد کیا شرک کی آلودگیوں سے پاک کرنے کیلئے، اور نماز کو فرض کیا رعونت سے بچانے کیلئے، اور زکوٰة کو رزق کے اضافہ کا سبب بنانے کیلئے، اور روزہ کو مخلوق کے اخلاص کو آزمانے کیلئے اور حج کو دین کے تقویت پہنچانے کیلئے، اور جہاد کو اسلام کو سرفرازی بخشنے کیلئے، اور امر بالمعروف کو اصلاح خلائق کیلئے، اور نہی عن المنکر کو سرپھروں کی روک تھام کیلئے، اور حقوقِ قرابت کے ادا کرنے کو (یار و انصار کی) گنتی بڑھانے کیلئے، اور قصاص کو خونریزی کے انسداد کیلئے، اور حدود شرعیہ کے اجراء کو محرمات کی اہمیت قائم کرنے کیلئے، اور شراب خوری کے ترک کو عقل کی حفاظت کیلئے، اور چوری سے پرہیز کو پاک بازی کا باعث ہونے کیلئے، اور زنا کاری سے بچنے کو نسب کے محفوظ رکھنے کیلئے، اور اغلام کے ترک کو نسل بڑھانے کیلئے، اور گواہی کو انکارِ حقوق کے مقابلہ میں ثبوت مہیا کرنے کیلئے، اور جھوٹ سے علیحدگی کو سچائی کا شرف آشکارا کرنے کیلئے، اور قیامِ امن کو خطروں سے تحفظ کیلئے، اور امانتوں کی حفاظت کو اُمت کا نظام درست رکھنے کیلئے، اور اطاعت کو امامت کی عظمت ظاہر کرنے کیلئے۔

احکامِ شرع کی بعض حکمتوں اور مصلحتوں کا تذکرہ کرنے سے قبل ’’ایمان‘‘ کی غرض و غایت کا ذکر فرمایا ہے۔ کیونکہ ’’ایمان‘‘ شرعی احکام کیلئے اساس و بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے اور اس کے بغیر کسی شرع و آئین کی ضرورت کا احساس ہی پیدا نہیں ہوتا۔
’’ایمان‘‘ ہستی خالق کے اقرار اور اُس کی یگانگت کے اعتراف کا نام ہے اور جب انسان کے قلب و ضمیر میں یہ عقیدہ رچ بس جاتا ہے تو وہ کسی دوسرے کے آگے جھکنا گوارا نہیں کرتا اور نہ کسی طاقت سے مرعوب و متاثرہوتا ہے، بلکہ ذہنی طور پر تمام بندھنوں سے آزاد ہو کر خود کو خدائے واحد کا حلقہ بگوش تصور کرتا ہے۔ اور اس طرح توحید سے وابستگی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کا دامن شرک کی آلودگیوں سے آلودہ ہونے نہیں پاتا۔
’’نماز‘‘ عبادات میں سب سے بڑی عبادت ہے جو قیام و قعود اور رکوع و سجود پر مشتمل ہوتی ہے اور یہ اعمال غرور و نخوت کے احساسات کو ختم کرنے، کبر و انانیت کو مٹانے اور عجز و فروتنی کے پیدا کرنے کا کامیاب ذریعہ ہیں۔ کیونکہ متکبرانہ افعال و حرکات سے نفس میں تکبّر و رُعونت کا جذبہ اُبھرتا ہے، اور منکسرانہ اعمال سے نفس میں تذلل و خشوع کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور رفتہ رفتہ ان اعمال کی بجا آوری سے انسان متواضع و منکسر المزاج ہو جاتا ہے۔ چنانچہ وہ عرب کہ جن کے کبر و غرور کا یہ عالم تھا کہ اگر ان کے ہاتھ سے کوڑا گر پڑتا تھا تو اُسے اُٹھانے کیلئے جھکنا گوارا نہ کرتے تھے اور چلتے ہوئے جوتی کا تسمہ ٹوٹ جاتا تھا تو جھک کر اسے درست کرنا عار سمجھتے تھے، سجدوں میں اپنے چہرے خاکِ مذلّت پر بچھانے لگے اور نماز جماعت میں دوسروں کے قدموں کی جگہ پر اپنی پیشانیاں رکھنے لگے اور غرور و عصبیت جاہلیت کو چھوڑ کر اسلام کی صحیح روح سے آشنا ہو گئے۔
’’زکوٰة‘‘ یعنی ہر با استطاعت اپنے مال میں سے ایک مقررہ مقدار سال بسال ان لوگوں کو دے کہ جو وسائل حیات سے بالکل محروم یا سال بھر کے آذوقہ کا کوئی ذریعہ نہ رکھتے ہوں۔ یہ اسلام کا ایک اہم فریضہ ہے جس سے غرض یہ ہے کہ اسلامی معاشرہ کا کوئی فرد محتاج و مفلس نہ رہے اور احتیاج و افلاس سے جو برائیاں پیدا ہوتی ہیں ان سے محفوظ رہیں اور اس کے علاوہ یہ بھی مقصد ہے کہ دولت چلتی پھرتی اور ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہوتی رہے اور چند افراد کیلئے مخصوص ہو کر نہ رہ جائے۔
’’روزہ‘‘ وہ عبادت ہے جس میں ریا کا شائبہ نہیں ہوتا اور نہ حسنِ نیّت کے علاوہ کوئی اور جذبہ کار فرما ہوتا ہے۔ چنانچہ تنہائی میں جبکہ بھوک بے چین کئے ہوئے ہو اور پیاس تڑپا رہی ہو، نہ کھانے کی طرف ہاتھ بڑھتا ہے، نہ پانی کی خواہش بے قابو ہونے دیتی ہے۔ حالانکہ اگر کھا پی لیا جائے تو کوئی پیٹ میں جھانک کر دیکھنے والا نہیں ہوتا۔ مگر ضمیر کا حُسن اور خلوص کا جوہر نیت کو ڈانواں ڈول نہیں ہونے دیتا اور یہی روزہ کا سب سے بڑا فائدہ ہے کہ اس سے عمل میں اخلاص پیدا ہوتا ہے۔
’’حج‘‘ کا مقصد یہ ہے کہ حلقہ بگوشانِ اسلام، اطراف و اکنافِ عالم سے سمٹ کر ایک مرکز پر جمع ہوں، تاکہ اس عالمی اجتماع سے اسلام کی عظمت کا مظاہرہ ہو اور اللہ کی پرستش و عبادت کا ولولہ تازہ اور آپس میں روابط کے قائم کرنے کا موقع حاصل ہو۔
’’جہاد‘‘ کا مقصد یہ ہے کہ جو قوتیں اسلام کی راہ میں مزاحم ہوں اُن کے خلاف امکانی طاقتوں کے ساتھ جنگ آزما ہوا جائے، تاکہ اسلام کو فروغ و استحکام حاصل ہو۔ اگرچہ اس راہ میں جان کیلئے خطرات پیدا ہوتے ہیں اور قدم قدم پر مشکلیں حائل ہوتی ہیں، مگر راحتِ ابدی و حیات دائمی کی نوید، ان تمام مصیبتوں کو جھیل لے جانے کی ہمت بندھاتی رہتی ہے۔
’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر‘‘ دوسروں کو صحیح راہ دکھانے اور غلط روی سے باز رکھنے کا ایک مؤثر ذریعہ ہے۔ اگر کسی قوم میں اس فریضہ کے انجام دینے والے ناپید ہو جاتے ہیں تو پھر اس کو تباہی سے کوئی چیز نہیں بچا سکتی اور وہ اخلاقی و تمدنی لحاظ سے انتہائی پستیوں میں جا گرتی ہے۔ اسی لئے اسلام نے اور فرائض کے مقابلہ میں اُسے بڑی اہمیت دی ہے اور اس سے پہلو بچالے جانے کو ’’ناقابلِِ تلافی جُرم‘‘ قرار دیا ہے۔
’’صلۂ رحمی‘‘ یہ ہے کہ انسان اپنے قرابت داروں کے ساتھ حسنِ سلوک سے پیش آئے اور کم از کم باہمی سلام و کلام کا سلسلہ قطع نہ کرے، تاکہ دلوں میں صفائی پیدا ہو اور خاندان کی شیرازہ بندی ہو کر یہ بکھرے ہوئے افراد ایک دوسرے کے دست و بازو ثابت ہوں۔
’’قصاص‘‘ یہ ایک حق ہے جو مقتول کے وارثوں کو دیا گیا ہے کہ وہ قتل کے بدلہ میں قتل کا مطالبہ کریں، تاکہ پاداش جرم کے خوف سے آئندہ کسی کو قتل کی جرأت نہ ہو سکے اور وارثوں کے جوشِ انتقام میں ایک جان سے زیادہ جانوں کے ہلاک ہونے کی نوبت نہ پہنچے۔ بیشک عفو و درگزر اپنے مقام پر فضیلت رکھتی ہے، مگر جہاں حقوقِ بشر کی پامالی اور امن عالم کی تباہی کا سبب بن جائے، اُسے اصلاح نہیں قرار دیا جا سکتا، بلکہ اس موقع پر قتل و خونریزی کے انسداد اور حیات انسانی کی بقا کا واحد ذریعہ قصاص ہی ہو گا۔ چنانچہ ارشادِ قدرت ہے:
﴿ وَ لَـكُمْ فِى الْقِصَاصِ حَيٰوةٌ يّٰٓـاُولِىْ الْاَلْبَابِ﴾
اے عقل والو! تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے۔ (سورۂ بقرہ، آیت۱۷۹)
’’اجرائے حدود‘‘ کا مقصد یہ ہے کہ محرماتِ الٰہیہ کے مرتکب ہونے والے کو جرم کی سنگینی کا احساس دلایا جائے تاکہ وہ سزا و عقوبت کے خوف سے منہیات سے اپنا دامن بچا کر رکھے۔
’’شراب‘‘ ذہنی انتشار، پراگندگیٔ حواس اور زوالِ عقل کا باعث ہوتی ہے، جس کے نتیجہ میں انسان وہ قبیح افعال کر گزرتا ہے جن کی ہوش و حواس کی حالت میں اس سے توقع نہیں کی جا سکتی۔ اس کے علاوہ یہ صحت کو تباہ اور طبیعت کو وبائی امراض کی پذیرائی کیلئے مستعد کر دیتی ہے اور بے خوابی، ضعفِ اعصاب اور نقرس وغیرہ امراض اس کا لازمی خاصہ ہیں اور انہی مفاد و مفاسد کو دیکھتے ہوئے شریعت نے اسے حرام کیا ہے۔
’’سرقہ‘‘ یعنی دوسروں کے مال میں دست درازی کرنا وہ قبیح عادت ہے جو حرص اور ہوائے نفس کے غلبہ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور چونکہ مشتہیاتِ نفس کو حدِ افراط سے ہٹا کر نقطۂ اعتدال پر لانا عفّت کہلاتا ہے، اس لئے بڑھتی ہوئی خواہش اور طمع کو روک کر چوری سے اجتناب کرنا عفّت کا باعث ہو گا۔
’’زنا و لواطہ‘‘ کو اس لئے حرام کیا گیا ہے کہ نسب محفوظ رہے اور نسل انسانی پھلے پھولے اور بڑھے۔کیونکہ زنا سے پیدا ہونے والی اولاد، اولاد ہی نہیں قرار پاتی کہ اس سے نسب ثابت ہوتا۔ اسی لئے اُسے مستحق میراث نہیں قرار دیا جاتا اور خلافِ فطرت افعال سے نسل کے بڑھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ ان قبیح افعال کے نتیجہ میں انسان ایسے امراض میں مبتلا ہو جاتا ہے جو قطع نسل کے ساتھ زندگی کی بربادی کا سبب ہوتے ہیں۔
’’قانونِ شہادت‘‘ کی اس لئے ضرورت ہے کہ اگر ایک فریق دوسرے فریق کے کسی حق کا انکار کرے تو وہ شہادت کے ذریعہ اپنے حق کا اِثبات کرکے اسے محفوظ کر سکے۔
’’کذب و دروغ‘‘ سے اجتناب کا حکم اس لئے ہے تاکہ اس کی ضد یعنی صداقت کی عظمت و اہمیت نمایاں ہو اور سچائی کے مصالح و منافع کو دیکھ کر جھوٹ سے پیدا ہونے والی اخلاقی کمزوریوں سے بچا جائے۔
’’سلام‘‘[۱] کے معنی امن و صلح پسندی کے ہیں اور ظاہر ہے کہ صلح پسندانہ روش خطرات سے تحفظ اور جنگ و جدال کی روک تھام کا کامیاب ذریعہ ہے۔ عموماً شارحین نے ’’سلام‘‘ کو باہمی سلام و دعا کے معنی میں لیا ہے، مگر سیاق کلام اور فرائض کے ذیل میں اس کا تذکرہ اس معنی کی تائید نہیں کرتا۔ بہرحال اس معنی کی رو سے سلام خطرات سے تحفظ کا ذریعہ اس طرح ہے کہ اسے امن و سلامتی کا شعار سمجھا جاتا ہے اور جب دو مسلمان آپس میں ایک دوسرے پر سلام کرتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کی خیر خواہی و دوستی کا اعلان کرتے ہیں جس کے بعد دونوں ایک دوسرے سے مطمئن ہو جاتے ہیں۔
’’امانت‘‘ کا تعلق صرف مال ہی سے نہیں، بلکہ اپنے متعلقہ امور کی بجا آوری میں کوتاہی کرنا بھی امانت کے منافی ہے۔ تو جب مسلمان اپنے فرائض و متعلّقہ امور کا لحاظ رکھیں گے تو اس سے نظم و نسق ملت کا مقصد حاصل ہو گا اور جماعت کی شیرازہ بندی پایہ تکمیل کو پہنچے گی۔
’’امامت‘‘ کے اجرا کا مقصد یہ ہے کہ اُمت کی شیرازہ بندی ہو اور اسلام کے احکام تبدیل و تحریف سے محفوظ رہیں۔ کیونکہ اگر اُمت کا کوئی سربراہ اور دین کا کوئی محافظ نہ ہو تو نہ اُمت کا نظم و نسق باقی رہ سکتا ہے اور نہ احکام دوسرے کی دستبرد سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ اور یہ مقصد اسی صورت میں حاصل ہو سکتا ہے جب اُمت پر اس کی اطاعت بھی واجب ہو۔ اس لئے کہ اگر وہ مطاع اور واجب الاطاعت نہ ہوگا تو وہ نہ عدل و انصاف قائم کر سکتا ہے، نہ ظالم سے مظلوم کا حق دلا سکتا ہے، نہ قوانین شریعت کا اجرا و نفاذ کر سکتا ہے اور نہ دنیا سے فتنہ و فساد کے ختم ہونے کی توقع کی جا سکتی ہے۔

[۱]۔ نہج البلاغہ کے عام نسخوں میں لفظ ”سلام“ ہی تحریر ہے، مگر ابن میثم نے اسے لفظ ”اسلام“ قرار دیتے ہوئے اس کی شرح کی ہے اور لفظ ”سلام“ بھی روایت کیا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی نسخہ میں لفظ ”اسلام“ بھی ہو۔