خدا تم پر رحم کرے! شاید تم نے حتمی و لازمی قضاء و قدر سمجھ لیا ہے (کہ جس کے انجام دینے پر ہم مجبور ہیں)۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر نہ ثواب کا کوئی سوال پیدا ہوتا نہ عذاب کا، نہ وعدے کے کچھ معنی رہتے نہ وعید کے۔ حکمت 78
(٢٢٤) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ
(۲۲۴)
بِكَثْرَةِ الصَّمْتِ تَكُوْنُ الْهَیْبَةُ، وَ بِالنَّصَفَةِ یَكْثُرُ الْمُوَاصِلُوْنَ، وَ بِالْاِفْضَالِ تَعْظُمُ الْاَقْدَارُ، وَ بِالتَّوَاضُعِ تَتِمُّ النِّعْمَةُ، وَ بِاحْتِمَالِ الْمُؤَنِ یَجِبُ السُّؤْدَدُ، وَ بِالسِّیْرَةِ الْعَادِلَةِ یُقْهَرُ الْمُنَاوِئُ، وَ بِالْحِلْمِ عَنِ السَّفِیْهِ تَكْثُرُ الْاَنْصَارُ عَلیْهِ.
زیادہ خاموشی رعب و ہیبت کا باعث ہوتی ہے، اور انصاف سے دوستوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ لطف و کرم سے قدر و منزلت بلند ہوتی ہے۔ جھک کر ملنے سے نعمت تمام ہوتی ہے۔ دوسروں کا بوجھ بٹانے سے لازماً سرداری حاصل ہوتی ہے، اور خوش رفتاری سے کینہ ور دشمن مغلوب ہوتا ہے، اور سر پھرے آدمی کے مقابلہ میں بردباری کرنے سے اس کے مقابلہ میں اپنے طرفدار زیادہ ہو جاتے ہیں۔