خدا تم پر رحم کرے! شاید تم نے حتمی و لازمی قضاء و قدر سمجھ لیا ہے (کہ جس کے انجام دینے پر ہم مجبور ہیں)۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر نہ ثواب کا کوئی سوال پیدا ہوتا نہ عذاب کا، نہ وعدے کے کچھ معنی رہتے نہ وعید کے۔ حکمت 78
(١٩٠) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ
(۱۹۰)
وَا عَجَبَاهُ! اَ تَكُوْنُ الْخِلَافَةُ بِالصَّحَابَةِ وَ الْقَرَابَةِ؟.
العجب! کیا خلافت کا معیار بس صحابیت اور قرابت ہی ہے؟!
قَالَ الرَّضِیُّ: وَ رُوِیَ لَهٗ شِعْرٌ فِیْ هٰذَا الْمَعْنٰى، وَ هُوَ:
سیّد رضیؒ کہتے ہیں کہ: اس مضمون کے اشعار بھی حضرتؑ سے مروی ہیں جو یہ ہیں:
فَاِنْ كُنْتَ بِالشُّوْرٰى مَلَكْتَ اُمُوْرَهُمْ فَكَیْفَ بِهٰذَا وَ الْمُشِیْرُوْنَ غُیَّبُ؟ وَ اِنْ كنْتَ بِالْقُرْبٰى حَجَجْتَ خَصِیْمَهُمْ فَغَیْرُكَ اَوْلٰى بِالنَّبِیِّ وَ اَقْرَبُ
اگر تم شوریٰ کے ذریعہ لوگوں کے سیاہ و سفید کے مالک ہو گئے ہو تو یہ کیسے؟ جبکہ مشورہ دینے کے حقدار افراد غیر حاضر تھے۔ اور اگر قرابت کی وجہ سے تم اپنے حریف پر غالب آئے ہو تو پھر تمہارے علاوہ دوسرا نبی ﷺ کا زیادہ حقدار اور ان سے زیادہ قریبی ہے۔