جس نے اپنی آخرت کو سنوار لیا تو خدا اس کی دنیا بھی سنوار دے گا، اور جو خود اپنے آپ کو وعظ و پند کرلے تو اللہ کی طرف سے اس کی حفاظت ہوتی رہے گی۔ حکمت 89
(٣٧٩) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ
(۳۷۹)
اَلرِّزْقُ رِزْقَانِ: رِزْقٌ تَطْلُبُهٗ، وَ رِزْقٌ یَّطْلُبُكَ، فَاِنْ لَّمْ تَاْتِهٖ اَتَاكَ، فَلَا تَحْمِلْ هَمَّ سَنَتِكَ عَلٰى هَمِّ یَوْمِكَ! كَفَاكَ كُلُّ یَوْمٍ مَّا فِیْهِ، فَاِنْ تَكُنِ السَّنَةُ مِنْ عُمُرِكَ، فَاِنَّ اللهَ تَعَالٰى سَیُؤْتِیْكَ فِیْ كُلِّ غَدٍ جَدِیْدٍ مَّا قَسَمَ لَكَ، وَ اِنْ لَّمْ تَكُنِ السَّنَةُ مِنْ عُمُرِكَ، فَمَا تَصْنَعُ بِالْهَمِّ لِمَا لَیْسَ لَكَ، وَ لَنْ یَّسْبِقَكَ اِلٰى رِزْقِكَ طَالِبٌ، وَ لَنْ یَّغْلِبَكَ عَلَیْهِ غَالِبٌ، وَ لَنْ یُّبْطِئَ عَنْكَ مَا قَدْ قُدِّرَ لَكَ.
رزق دو طرح کا ہوتا ہے: ایک وہ جس کی تلاش میں تم ہو اور ایک وہ جو تمہاری جستجو میں ہے۔ اگر تم اس تک نہ پہنچ سکو گے تو وہ تم تک پہنچ کر رہے گا۔ لہٰذا اپنے ایک دن کی فکر پر سال بھر کی فکریں نہ لا دو۔ جو ہر دن کا رزق ہے وہ تمہارے لئے کافی ہے۔ اگر تمہاری عمر کا کوئی سال باقی ہے تو اللہ ہر نئے دن جو روزی اس نے تمہارے لئے مقرر کر رکھی ہے وہ تمہیں دے گا، اور اگر تمہاری عمر کا کوئی سال باقی نہیں ہے تو پھر اس چیز کی فکر کیوں کرو جو تمہارے لئے نہیں ہے۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ کوئی طلبگار تمہارے رزق کی طرف تم سے آگے بڑھ نہیں سکتا، اور نہ کوئی غلبہ پانے والا اس میں تم پر غالب آ سکتا ہے، اور جو تمہارے لئے مقدر ہو چکا ہے اس کے ملنے میں کبھی تاخیر نہ ہو گی۔
قَالَ الرَّضِیُّ: وَ قَدْ مَضٰى هٰذَا الْكَلَامُ فِیْمَا تَقَدَّمَ مِنْ هٰذَا الْبَابِ، اِلَّاۤ اَنَّهْ هٰهُنَا اَوْضَحُ وَ اَشْرَحُ، فَلِذٰلِكَ كَرَّرْنَاهُ عَلَى الْقَاعِدَةِ الْمُقَرَّرَةِ فِیْۤ اَوَّلِ الْكِتَابِ.
سیّد رضیؒ فرماتے ہیں کہ: یہ کلام اسی باب میں پہلے بھی درج ہو چکا ہے۔ مگر یہاں کچھ زیادہ وضاحت و تشریح کے ساتھ تھا، اس لئے ہم نے اس کا اعادہ کیا ہے، اس قاعدہ کی بنا پر جو کتاب کے دیباچہ میں گزر چکا ہے۔