کامیابی دور اندیشی سے وابستہ ہے، اور دور اندیشی فکر و تدبر کو کام میں لانے سے، اور تدبر بھیدوں کو چھپاکر رکھنے سے۔ حکمت 48
(٤٠) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ
(۴۰)
لِسَانُ الْعَاقِلِ وَرَآءَ قَلْبِهِ، وَ قَلْبُ الْاَحْمَقِ وَرَآءَ لِسَانِهٖ.
عقل مند کی زبان اس کے دل کے پیچھے ہے اور بے وقوف کا دل اس کی زبان کے پیچھے ہے۔
قَالَ الرَّضِیُّ: وَ هٰذَا مِنَ الْمَعَانِی الْعَجِيْبَةِ الشَّرِيْفَةِ، وَ الْمُرَادُ بِهٖ: اَنَّ الْعَاقِلَ لَا يُطْلِقُ لِسَانَهٗ، اِلَّا بَعْدَ مُشَاوَرَةِ الرَّوِيَّةِ وَ مُؤَامَرَةِ الْفِكْرَةِ. وَ الْاَحْمَقُ تَسْبِقُ حَذَفَاتُ لِسَانِهٖ وَ فَلَتَاتُ كَلَامِهٖ، مُرَاجَعَةَ فِكْرِهٖ وَ مُمَاخَضَةَ رَاْيِهٖ. فَكَاَنَّ لِسَانَ الْعَاقِلِ تابِـعٌ لِّقَلْبِهٖ، وَ كَاَنَّ قَلْبَ الْاَحْمَقِ تَابِعٌ لِلِسَانِهٖ.
سیّد رضیؒ کہتے ہیں کہ: یہ جملہ عجیب و پاکیزہ معنی کا حامل ہے۔ مقصد یہ ہے کہ عقلمند اس وقت زبان کھولتا ہے جب دل میں سوچ بچار اور غور و فکر سے نتیجہ اخذ کر لیتا ہے۔ لیکن بے وقوف بے سوچے سمجھے جو منہ میں آتا ہے کہہ گزرتا ہے۔ اس طرح گویا عقلمند کی زبان اس کے دل کے تابع ہے اور بے وقوف کا دل اس کی زبان کے تابع ہے۔