یہ دل بھی اسی طرح اکتا جاتے ہیں جس طرح بدن اکتا جاتے ہیں، لہٰذا (جب ایسا ہو تو) ان کیلئے لطیف حکیمانہ نکات تلاش کرو۔ حکمت 91
(٤٠٢) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ
(۴۰۲)
لِبَعْضِ مُخَاطِبِیْهِ، وَ قَدْ تَكَلَّمَ بِكَلِمَةٍ یُسْتَصْغَرُ مِثْلُهٗ عَنْ قَوْلِ مِثْلِهَا:
ایک ہم کلام ہونے والے سے کہ جس نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر ایک بات کہی تھی، فرمایا:
لَقَدْ طِرْتَ شَكِیْرًا، هَدَرْتَ سَقْبًا.
تم پر نکلتے ہی اڑنے لگے اور جوان ہونے سے پہلے بلبلانے لگے۔
قَالَ الرَّضِیُّ: وَ «الشَّكِیْرُ» هٰهُنَا: اَوَّلُ مَا یَنْۢبُتُ مِنْ رِّیْشِ الطَّآئِرِ قَبْلَ اَنْ یَّقْوٰى وَ یَسْتَحْصِفُ، و «السَّقْبُ»: الصَّغِیْرُ مِنَ الْاِبِلِ، وَ لَا یَهْدِرُ اِلَّا بَعْدَ اَنْ یَّسْتَفْحِلَ.
سیّد رضیؒ فرماتے ہیں کہ: اس فقرہ میں ’’شکیر‘‘ سے مراد وہ پر ہیں جو پہلے پہل نکلتے ہیں اور ابھی مضبوط و مستحکم نہیں ہونے پاتے۔ اور ’’سقب‘‘ اونٹ کے بچے کو کہتے ہیں اور وہ اس وقت بلبلاتا ہے جب جوان ہو جاتا ہے۔

