جو عمل تقویٰ کے ساتھ انجام دیا جائے وہ تھوڑا نہیں سمجھا جاسکتا، اور مقبول ہونے والا عمل تھوڑ اکیونکر ہوسکتا ہے؟ حکمت 95
(٣٥٣) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ
(۳۵۳)
اَكْبَرُ الْعَیْبِ اَنْ تَعِیْبَ مَا فِیْكَ مِثْلُهٗ.
سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ اس عیب کو برا کہو جس کے مانند خود تمہارے اندر موجود ہے۔
اس سے بڑھ کر اور عیب کیا ہو سکتا ہے کہ انسان دوسروں کے ان عیوب پر نکتہ چینی کرے جو خود اس کے اندر بھی پائے جاتے ہوں۔ تقاضائے عدل تو یہ ہے کہ وہ دوسروں کے عیوب پر نظر کرنے سے پہلے اپنے عیوب پر نظر کرے اور سوچے کہ عیب، عیب ہے، وہ دوسرے کے اندر پایا جائے یا اپنے اندر۔
همه عیب خلق دیدن، نه مروتست و مردی
نگهی به خویشتن کن، که تو هم گناه داری

