سب معاملے تقدیر کے آگے سر نگوں ہیں، یہاں تک کہ کبھی تدبیر کے نتیجہ میں موت ہوجاتی ہے۔ حکمت 15
(٣٠٧) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ
(۳۰۷)
یَنَامُ الرَّجُلُ عَلَى الثُّكْلِ، وَ لَا یَنَامُ عَلَى الْحَرَبِ.
اولاد کے مرنے پر آدمی کو نیند آ جاتی ہے، مگر مال کے چھن جانے پر اسے نیند نہیں آتی۔
قَالَ الرَّضِیُّ: وَ مَعْنٰى ذٰلِكَ: اَنَّهٗ یَصْبِرُ عَلٰى قَتْلِ الْاَوْلَادِ، وَ لَا یَصْبِرُ عَلٰى سَلْبِ الْاَمْوَالِ.
سیّد رضیؒ فرماتے ہیں کہ: اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اولاد کے مرنے پر صبر کر لیتا ہے، مگر مال کے جانے پر صبر نہیں کرتا۔

