خدا تم پر رحم کرے! شاید تم نے حتمی و لازمی قضاء و قدر سمجھ لیا ہے (کہ جس کے انجام دینے پر ہم مجبور ہیں)۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر نہ ثواب کا کوئی سوال پیدا ہوتا نہ عذاب کا، نہ وعدے کے کچھ معنی رہتے نہ وعید کے۔ حکمت 78
(٢٩٣) وَ قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ
(۲۹۳)
لَا تَصْحَبِ الْمَآئِقَ، فَاِنَّهٗ یُزَیِّنُ لَكَ فِعْلَهٗ، وَ یَوَدُّ اَنْ تَكُوْنَ مِثْلَهٗ.
بے وقوف کی ہم نشینی اختیار نہ کرو، کیونکہ وہ تمہارے سامنے اپنے کاموں کو سجا کر پیش کرے گا اور یہ چاہے گا کہ تم اسی کے ایسے ہو جاؤ۔
بے وقوف انسان اپنے طریق کار کو صحیح سمجھتے ہوئے اپنے دوست سے بھی یہی چاہتا ہے کہ وہ اس کا سا طور طریقہ اختیار کرے اور جیسا وہ خود ہے ویسا ہی وہ ہو جائے۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ وہ یہ چاہتا ہے کہ اس کا دوست بھی اس جیسا بے وقوف ہو جائے، کیونکہ وہ اپنے کو بے وقوف ہی کب سمجھتا ہے جو یہ چاہے اور اگر سمجھتا ہوتا تو بے وقوف ہی کیوں ہوتا۔ بلکہ اپنے کو عقلمند اور اپنے طریقہ کار کو صحیح سمجھتے ہوئے اپنے دوست کو بھی اپنے ہی ایسا ’’عقلمند‘‘ دیکھنا چاہتا ہے۔ اس لئے وہ اپنی رائے کو سجا کر اس کے سامنے پیش کرتا ہے اور اس پر عمل پیرا ہونے کا اس سے خواہش مند ہوتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ اس کا دوست اس کی باتوں سے متاثر ہو کر اس کی راہ پرچل پڑے۔ اس لئے اس سے الگ تھلگ رہنا ہی مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

