Quick Contact

جو عمل تقویٰ کے ساتھ انجام دیا جائے وہ تھوڑا نہیں سمجھا جاسکتا، اور مقبول ہونے والا عمل تھوڑ اکیونکر ہوسکتا ہے؟ حکمت 95
(٨) وَ فِیْ حَدِیْثِہٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ
[۸]
کَالْیَاسِرِالْفَالِجِ یَنْتَظِرُ اَوَّلَ فَوْزَةٍ مِّنْ قِدَاحِہٖ.
وہ اس یاسر فالج کے مانند ہے جو جوئے کے تیروں کا پانسہ پھینک کر پہلے ہی داؤں میں کامیابی کا متوقع ہوتا ہے۔
‏اَلْیَاسِرُوْنَ:‏ هُمُ الَّذِیْنَ ‏یَتَضَارَبُوْنَ‏ ‏بِالْقِدَاحِ‏ عَلَی ‏الْجَزُوْرِ، وَ الْفَالِجُ: الْقَاهِرُ الْغَالِبُ، یُقَالُ: قَدْ ‏فَلَجَ‏ عَلَیْهِمْ وَ فَلَجَهُمْ. وَ قَالَ الرَّاجِزُ:
(سیّد رضیؒ کہتے ہیں کہ:) ’’یاسرون ‘‘ وہ لوگ ہوتے ہیں کہ جو نحر کی ہوئی اونٹنی پر جوئے کے تیروں کا پانسہ پھینکتے ہیں اور ’’فالج‘‘ کے معنی جیتنے والے کے ہیں۔ یوں کہا جاتا ہے: «قَدْ فَلَجَ‏عَلَیْهِمْ وَ فَلَجَهُمْ» (وہ ان پر غالب ہوا)۔ چنانچہ مشہور رجز نظم کرنے والے شاعر کا قول ہے:
لَمَّا رَاَیْتُ فَالِجًا قَدْ فَلَجَا
جب میں نے کسی ’’فالج‘‘ کو دیکھا کہ اس نے فلج حاصل کی۔