Quick Contact

جو زمانہ سے کچھ پا لیتا ہے وہ بھی رنج سہتا ہے اور جو کھو دیتا ہے وہ تو دکھ جھیلتا ہی ہے۔ حکمت 72
(٤) وَ فِیْ حَدِیْثِہٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ
[۴]
اِذَا بَلَغَ النِّسَآءُ نَصَّ الْحَقَآئِقِ فَالْعَصَبَةُ اَوْلٰی.
جب لڑکیاں نص الحقائق کو پہنچ جائیں تو ان کیلئے ددہیالی رشتہ دار زیادہ حق رکھتے ہیں۔
وَ یُرْوٰی: نَصُّ الْحَقَاقِ.
سیّد رضیؒ کہتے ہیں کہ: ’’نص الحقائق‘‘ کی جگہ ’’نص الحقاق‘‘ بھی وارد ہوا ہے۔
وَ النَّصُّ: مُنْتَهَى الْاَشْیَآءِ وَ مَبْلَغُ اَقْصَاهَا كَالنَّصِّ فِى السَّیْرِ، لِاَنَّهٗۤ اَقْصٰى مَا تَقْدِرُ عَلَیْهِ الدَّآبَّةُ. وَ تَقُوْلُ: نَصَصْتُ الرَّجُلَ عَنِ الْاَمْرِ، اِذَا اسْتَقْصَیْتَ مَسْئَلَتَهٗ عَنْهُ، لِتَسْتَخْرِجَ مَا عِنْدَهٗ فِیْهِ. فَـ «نَصُّ الْحِقَاقِ» یُرِیْدُ بِهِ الْاِدْرَاكَ، لِاَنَّهٗ مُنتَهَى الصِّغَرِ، وَ الْوَقْتُ الَّذِى یَخْرُجُ مِنْهُ الصَّغِیْرُ اِلٰى حَدِّ الْكَبِیْرِ، وَ هُوَ مِنْ اَفْصَحِ الْكِنَایَاتِ عَنْ هٰذَا الْاَمْرِ وَ اَغْرَبِهَا. یَقُوْلُ: فَاِذَا بَلَغَ النِّسَآءُ ذٰلِكَ، فَالْعَصَبَةُ اَوْلٰى بِالْمَرْاَةِ مِنْ اُمِّهَا اِذَا كَانُوْا مَحْرَمًا، مِثْلَ الْاِخْوَةِ وَ الْاَعْمَامِ، وَ بِتَزْوِیْجِهَا اِنْ اَرَادُوْا ذٰلِكَ.
’’نص‘‘ چیزوں کی انتہا اور ان کی آخری حد کو کہتے ہیں۔ جیسے چوپایہ کی وہ انتہائی رفتار کہ جو وہ دوڑ سکتا ہے ’’ نص‘‘ کہلاتی ہے اور یونہی «نَصَصْتُ الرَّجُلَ عَنِ الْاَمْرِ» اس موقع پر کہا جائے گا جب کسی شخص سے پوری طرح پوچھ گچھ کرنے کے بعد اس سے سب کچھ اگلوا لیا ہو۔ تو حضرتؑ نے ’’نص الحقاق‘‘ سے حد کمال تک پہنچنا مراد لیا ہے کہ جو بچپن کی حد آخر اور وہ زمانہ ہوتا ہے کہ کم سن کم سنی کے حدود سے نکل کر بڑوں کی صف میں داخل ہوتا ہے اور یہ بلوغ کیلئے نہایت فصیح اور بہت عجیب کنایہ ہے۔ حضرتؑ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ: جب لڑکیاں اس حد تک پہنچ جائیں تو ددہیالی رشتہ دار جبکہ وہ محرم بھی ہوں، جیسے بھائی اور چچا، وہ ان کا رشتہ کہیں کرنا چاہیں تو وہ ان کی ماں سے زیادہ رشتہ کے انتخاب کا حق رکھتے ہیں۔
وَ «الْحِقَاقُ»: مُحَاقَّةُ الْاُمِّ لِلْعَصَبَةِ فِى الْمَرْاَةِ، وَ هُوَ الْجِدَالُ وَ الْخُصُوْمَةُ وَ قَوْلُ كُلِّ وَاحِدٍ مِّنهُمَا لِلْاٰخَرِ: «اَنَا اَحَقُّ مِنْكَ بِهٰذَا»، یُقَالُ مِنْهُ: حَاقَقْتُهٗ حِقَاقًا مِثْلَ جَادَلْتُهٗ جِدَالًا.
اور ’’حقاق ‘‘ سے (لڑکی کی) ماں کا ددہیالی رشتہ داروں سے جھگڑنا مراد ہے اور ہر ایک کا اپنے کو دوسرے سے زیادہ حقدار ثابت کرنا ہے۔ اور اسی سے ’’حاققتہ حقاقا‘‘ بر وزن ’’جادلتہ جدالا‘‘ ہے۔ یعنی میں نے اس سے لڑائی جھگڑا کیا۔
وَ قَدْ قِیْلَ: اِنَّ نَصَّ الْحِقَاقِ بُلُوْغُ الْعَقْلِ، وَ هُوَ الْاِدْرَاكُ، لِاَنَّهٗ ؑ اِنَّمَاۤ اَرَادَ مُنْتَهَى الْاَمْرِ الَّذِىْ تَجِبُ فِیْهِ الْحُقُوْقُ وَ الْاَحْكَامُ، وَ مَنْ رَّوَاهُ نَصَّ الْحَقَآئِقِ، فَاِنَّمَاۤ اَرَادَ جَمْعَ حَقِیْقَةٍ.
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’نص الحقاق‘‘ سے مراد بلوغ، عقل اور حد رشد و کمال تک پہنچنا ہے۔ کیونکہ حضرتؑ نے وہ زمانہ مراد لیا ہے کہ جس میں لڑکی پر حقوق و فرائض عائد ہو جاتے ہیں اور جس نے ’’نص الحقائق‘‘ کی روایت کی ہے اس نے ’’ حقائق‘‘ کو حقیقت کی جمع لیا ہے۔
هٰذَا مَعْنٰى مَا ذَكَرَهٗۤ اَبُوْ عُبَیْدٍ الْقَاسِمُ بْنُ سَلَّامٍ وَّ الَّذِىْ عِنْدِىْ: اَنَّ الْمُرَادَ بِنَصِّ الْحِقَاقِ هٰهُنَا بُلُوْغُ الْمَرْاَةِ اِلَى الْحَدِّ الَّذِىْ یَجُوْزُ فِیْهِ تَزْوِیْجُهَا وَ تَصَرُّفُهَا فِىْ حُقُوْقِهَا، تَشْبِیْهًۢا بِالْحِقَاقِ مِنَ الْاِبِلِ، وَ هِىَ جَمْعُ حِقَّةٍ وَّ حِقٍّ، وَ هُوَ الَّذِى اسْتَكْمَلَ ثَلَاثَ سِنِیْنَ وَ دَخَلَ فِى الرَّابِعَةِ، وَ عِنْدَ ذٰلِكَ یَبْلُغُ اِلَى الْحَدِّ الَّذِىْ یُتَّمَكَّنُ فِیْهِ مِنْ رُّكُوْبِ ظَهْرِهٖ وَ نَصِّهٖ فِىْ السَّیْرِ، وَ الْحَقآئِقُ اَیْضًا جَمْعُ حِقَّةٍ، فَالرِّوَایَتَانِ جَمِیْعًا تَرْجِعَانِ اِلٰى مَعْنًى وّاحِدٍ، وَ هٰذَا اَشْبَهُ بِطَرِیْقَةِ الْعَرَبِ مِنَ الْمَعْنَى الْمَذْكُوْرِ اَوَّلًا.
یہ مفاد ہے اس کا جو ابوعبیدہ قاسم ابن سلام نے کہا ہے۔ مگر میرے خیال میں اس مقام پر ’’نص الحقاق‘‘ سے مراد یہ ہے کہ لڑکیاں اس حد تک پہنچ جائیں کہ جس میں ان کیلئے عقد اور اپنے حقوق کا خود استعمال جائز ہوتا ہے۔ اس طرح اسے سہ سالہ اونٹنیوں سے تشبیہ دی گئی ہے اور ’’حقاق ‘‘، حق اور حقّۃ کی جمع ہے۔ یہ اس اونٹنی اور اونٹ کو کہتے ہیں جو تین سال ختم کرنے کے بعد چوتھے سال میں داخل ہو، اور اونٹ اس عمر میں سواری اور تیز دوڑانے کے قابل ہو جاتے ہیں اور ’’حقائق ‘‘ بھی ’’حقّہ ‘‘ کی جمع ہے۔ اس بنا پر دونوں روایتوں کے ایک ہی معنی ہوں گے۔ اور یہ معنی جو ہم نے بیان کئے ہیں، پہلے معنی سے زیادہ اسلوب کلامِ عرب سے میل کھاتے ہیں۔