Quick Contact

عقلمند کا سینہ اس کے بھیدوں کا مخزن ہوتا ہے، اور کشادہ روئی محبت و دوستی کا پھندا ہے۔ حکمت 5
(٩) وَ فِیْ حَدِیْثِہٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ
[۹]
کُنَّاۤ اِذَا احْمَرَّ الْبَاْسُ اتَّقَیْنَا بِرَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ فَلَمْ یَکُنْ اَحَدٌ مِّنَّاۤ اَقْرَبَ اِلَی الْعَدُوِّ مِنْہُ.
جب احمرارِ باس ہوتا تھا تو ہم رسول اللہ ﷺ کی سپر میں جاتے تھے، اور ہم میں سے کوئی بھی ان سے زیادہ دشمن سے قریب تر نہ ہوتا تھا۔
وَ مَعْنٰی ذٰلِكَ: اَنَّهٗۤ اِذَا عَظُمَ الْخَوْفُ مِنَ الْعَدُوِّ، وَ اشْتَدَّ ‏عِضَاضُ‏ الْحَرْبِ، ‏فَزِعَ‏ ‏الْمُسْلِمُوْنَ‏ اِلٰی قِتَالِ رَسُوْلِ اللّٰهِ ﷺ بِنَفْسِهٖ، فَیُنْزِلُ اللّٰهُ عَلَیْهِمُ النَّصْرَ بِهٖ، وَ یَاْمَنُوْنَ مِمَّا كَانُوْا یَخَافُوْنَهٗ بِمَكَانِهٖ.
(سیّد رضیؒ کہتے ہیں کہ:) اس کا مطلب یہ ہے کہ جب دشمن کا خطرہ بڑھ جاتا تھا اور جنگ سختی سے کاٹنے لگتی تھی تو مسلمان یہ سہارا ڈھونڈنے لگتے تھے کہ رسول اللہ ﷺ خود بنفس نفیس جنگ کریں تو اللہ تعالیٰ آنحضرت ﷺ کی وجہ سے ان کی نصرت فرمائے اور آپؐ کی موجودگی کے باعث خوف و خطر کے موقع سے محفوظ رہیں۔
وَ قَوْلُهٗ: «اِذَا احْمَرَّ الْبَاْسُ»، كِنَایَةٌ عَنِ اشْتِدَادِ الْاَمْرِ، وَ قَدْ قِیْلَ فِیْ ذٰلِكَ اَقْوَالٌ اَحْسَنُهَا: اَنَّهٗ شَبَّهَ ‏حَمْیَ‏ الْحَرْبِ بِالنَّارِ، الَّتِیْ تَجْمَعُ الْحَرَارَةَ وَ الْحُمْرَةَ بِفِعْلِهَا وَ لَوْنِهَا. وَ مِمَّا یُقَوِّیْ ذٰلِكَ قَوْلُ رَسُوْلِ اللّٰهِ ﷺ، وَ قَدْ رَاٰی ‏مُجْتَلَدَ النَّاسِ یَوْمَ حُنَیْنٍ وَّ هِیَ حَرْبُ هَوازِنَ: «‏اَلْاٰنَ‏ ‏حَمِیَ‏ ‏الْوَطِیْسُ»،‏ فَـ «الْوَطِیْسُ»: مُسْتَوْقَدُ النَّارِ، فَشَبَّهَ رَسُوْلُ اللّٰهِ ﷺ مَا ‏اسْتَحَرَّ مِنْ ‏جِلَادِ الْقَوْمِ بِاحْتِدَامِ النَّارِ وَ شِدَّةِ الْتِهَابِهَا.
حضرت کا ارشاد جب ’’احمرار باس ہوتا تھا‘‘ (جس کے لفظی معنی یہ ہیں کہ: جنگ سرخ ہو جاتی تھی) یہ کنایہ ہے جنگ کی شدت و سختی سے۔ اور اس کی توجیہ میں چند اقوال ذکر کئے گئے ہیں، مگر ان میں سب سے بہتر قول یہ ہے کہ آپؑ نے جنگ کی تیزی اور گرمی کو آگ سے تشبیہ دی ہے جو اپنے اثر اور رنگ دونوں کے اعتبار سے گرمی اور سرخی لئے ہوتی ہے۔ اور اس معنی کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے حنین کے دن قبیلۂ بنی ہوازن کی جنگ میں لوگوں کو جنگ کرتے دیکھا تو فرمایا: «اب وطیس گرم ہو گیا»۔ ’’وطیس ‘‘ اس جگہ کو کہتے ہیں جس میں آگ جلائی جائے۔ اس مقام پر پیغمبر ﷺ نے لوگوں کے میدانِ کارزار کی گرم بازاری کو آگ کے بھڑکنے اور اس کے لپکوں کی تیزی سے تشبیہ دی ہے۔