Quick Contact

یہ فیصلہ پیغمبر اُمّی ﷺ کی زبان سے ہو گیا ہے کہ آپؐ نے فرمایا: «اے علی! کوئی مومن تم سے دشمنی نہ رکھے گا، اور کوئی منافق تم سے محبت نہ کرے گا»۔ حکمت 45
(٢) وَ فِیْ حَدِیْثِہٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ
[۲]
ھٰذَا الْخَطِیْبُ الشَّحْشَحُ.
یہ خطیب شحشح۔
یُرِیْدُ الْمَاھِرَ بِالْخُطْبَةِ الْمَاضِیَ فِیْھَا، وَ کُلُّ مَاضٍ فِیْ کَلَامٍ اَوْ سَیْرٍ فَھُوَ شَحْشَحٌ. وَ الشَّحْشَحُ فِیْ غَیْرِ ھٰذَا الْمَوْضِعِ الْبَخِیْلِ الْمُمْسِكِ.
سیّد رضیؒ کہتے ہیں کہ: ’’شحشح ‘‘ کے معنی خطیب ماہر و شعلہ بیان کے ہیں اور جو زبان آوری یا رفتار میں رواں ہو اسے ’’شحشح ‘‘ کہا جاتا ہے اور دوسرے مقام پر اس کے معنی بخیل اور کنجوس کے ہوتے ہیں۔

۱؂’’خطیب ماہر‘‘ سے مراد صعصعہ ابن صوحان عبدی ہیں جو حضرتؑ کے خواص اصحاب میں سے تھے۔ امیر المومنین علیہ السلام کے اس ارشاد سے ان کی خطابت کی رفعت اور قوت کلام کی بلندی کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ ابن ابی الحدید نے تحریر کیا ہے:
وَ كَفٰى صَعْصَعْةَ بِهَا فَخْرًا اَنْ يَّكُوْنَ مِثْلُ عَلِیٍّ ؑ يُثْنِيْ عَلَيْهِ باِلْمَهَارَةِ وَ فَصَاحَةِ اللِّسَانِ.
صعصعہ کے افتخار کیلئے یہ کافی ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام ایسے (افصح عالم) ان کی مہارت کلام و فصاحت بیان کو سراہتے ہیں۔ (شرح ابن ابی الحدید، ج۴، ص۳۵۵)
اِنْقَضٰی هٰذَا الْفَصْلُ، وَ رَجَعْنا اِلٰی سَنَنِ الْغَرَضِ الْاَوَّلِ فِیْ هٰذَا الْبَابِ:
یہ فصل تمام ہو گئی۔ اب ہم اس باب میں پہلے مقصد کی طرف رجوع کرتے ہیں۔