جو لوگوں کا پیشوا بنتا ہے تو اسے دوسروں کو تعلیم دینے سے پہلے اپنے کو تعلیم دینا چاہیے، اور زبان سے درس اخلاق دینے سے پہلے اپنی سیرت و کردار سے تعلیم دینا چاہیے۔ حکمت 73
(٦) وَ فِیْ حَدِیْثِہٖ عَلَیْهِ السَّلَامُ
[۶]
اِنَّ الرَّجُلَ اِذَا کَانَ لَہُ الدَّیْنُ الظَّنُوْنَ یَجِبُ عَلَیْہِ اَنْ یُّزَکِّیَہٗ لِمَا مَضٰی اِذَا قَبَضَہٗ.
جو شخص کوئی ’’دین ظنون‘‘ وصول کرے تو جتنے سال اس پر گزرے ہوں گے ان کی زکوٰة دینا ضروری ہے۔
فَـ «الظَّنُوْنُ»: الَّذِیْ لَا یَعْلَمُ صاحِبُهٗ اَ یَقْبِضُهٗ مِنَ الَّذِیْ هُوَ عَلَیْهِ اَمْ لَا، فَكَاَنَّهُ الَّذِیْ یَظُنُّ بِهٖ، فَمَرَّةً یَّرْجُوْهُ، وَ مَرَّةً لَّا یَرْجُوْهُ. وَ هُوَ مِنْ اَفْصَحِ الْكَلَامِ، وَ كَذٰلِكَ كُلُّ اَمْرٍ تَطْلُبُهٗ وَ لَا تَدْرِیْ عَلٰۤی اَیِّ شَیْءٍ اَنْتَ مِنْهُ، فَهُوَ ظَنُوْنٌ، وَ عَلٰی ذٰلِكِ قَوْلُ الْاَعْشٰی:
(سیّد رضیؒ کہتے ہیں کہ:) ’’دین ظنون‘‘ وہ قرضہ ہوتا ہے کہ قرض خواہ یہ فیصلہ نہ کر سکے کہ وہ اسے وصول ہو گا یا نہیں، کبھی امید پیدا ہو اور کبھی نا امیدی۔ اور یہ بہت فصیح کلام ہے۔ یونہی ہر وہ چیز جس کی تمہیں طلب ہو اور یہ نہ جان سکو کہ تم اسے حاصل کرو گے یا نہیں، وہ ’’ظنون ‘‘ کہلاتی ہے۔ چنانچہ اعشیٰ کا یہ قول اسی معنی کا حامل ہے جس کا مضمون یہ ہے:
مَا یُجْعَلُ الْجُدُّ الظَّنُوْنُ الَّذِیْ جُنِّبَ صَوْبَ اللَّجِبِ الْمَاطِرِ مِثْلَ الْفُرَاتِیِّ اِذَا مَا طَمَا یَقْذِفُ بِالْبُوْصِیِّ وَ الْمَاهِرِ
’’وہ ’’جد ظنون‘‘ جو گرج کر برسنے والے اَبر کی بارش سے بھی محروم ہو، دریائے فرات کے مانند نہیں قرار دیا جا سکتا جبکہ وہ ٹھاٹھیں مار رہا ہو اور کشتی اور اچھے تیراک کو دھکیل کر دور پھینک رہا ہو‘‘۔
وَ «الْجُدُّ»: الْبِئْرُ الْعَادِیَةُ فِی الصَّحْرَآءِ، وَ «الظَّنُوْنُ»: الَّتِیْ لَا یُعْلَمُ هَلْ فِیْهَا مَآءٌ اَمْ لَا.
’’جد ‘‘ اس پرانے کنوئیں کو کہتے ہیں جو کسی بیابان میں واقع ہو، اور ’’ظنون ‘‘ وہ ہے کہ جس کے متعلق یہ خبر نہ ہو کہ اس میں پانی ہے یا نہیں۔

