Quick Contact

خوشا نصیب اس کے جس نے آخرت کو یاد رکھا، حساب و کتاب کیلئے عمل کیا، ضرورت بھر پر قناعت کی اور اللہ سے راضی و خوشنود رہا۔ حکمت 44
بسم اللہ الرحمن الرحیم
مقدمہ السید الشریف الرضی
دیباچہ
مؤلف نہج البلاغہ علامہ شریف رضی علیہ الرحمہ
اَمَّا بَعْدَ حَمْدِ اللهِ الَّذِیْ جَعَلَ الْحَمْدَ ثَمَنًا لِّنَعْمَآئِهٖ، وَ مَعَاذًا مِّنْ بَلَآئِهٖ، وَ سَبِیْلًا اِلٰی جِنَانِهٖ، وَ سَبَبًا لِّزِیَادَةِ اِحْسَانِهٖ.
حمد و ستائش اس اللہ کیلئے ہے جس نے حمد کو اپنی نعمتوں کی قیمت، ابتلاؤں سے بچنے کا ذریعہ، جنت کا وسیلہ اور اپنے احسانات کے بڑھانے کا سبب قرار دیا ہے۔
وَالصَّلٰوةِ عَلٰى رَسُوْلِهٖ نَبِیِّ الرَّحْمَةِ، وَ اِمَامِ الْاَئِمَّةِ، وَ سِرَاجِ الْاُمَّةِ، الْمُنْتَخَبِ مِنْ طِیْنَةِ الْكَرَمِ، وَ سُلَالَةِ الْمَجْدِ الْاَقْدَمِ، وَ مَغْرِسِ الْفَخَارِ الْمُعْرِقِ، وَ فَرْعِ الْعَلَآءِ الْمُثْمِرِ الْمُوْرِقِ.
درود ہو اس کے رسول ﷺ پر جو نبی رحمت، پیشواؤں کا پیشوا، اُمت کا چراغ، دودمانِ شرافت کا انتخاب، قدیم ترین بزرگیوں کا نچوڑ، رگ و پے میں سمائے ہوئے فخر کی کھیتی، رفعت و بلندی کی برگ پوش و ثمردار شاخ ہے۔
وَ عَلٰۤى اَهْلِ بَیْتِهٖ مَصَابِیْحِ الظُّلَمِ، وَ عِصَمِ الْاُمَمِ، وَ مَنَارِ الدِّیْنِ الْوَاضِحَةِ، وَ مَثَاقِیْلِ الْفَضْلِ الرَّاجِحَةِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِمْ اَجْمَعِیْنَ، صَلَاةً تَكُوْنُ اِزَآءً لِّفَضْلِهِمْ، وَ مُكَافَاَةً لِّعَمَلِهِمْ، وَ كِفَآءً لِّطِیْبِ فَرْعِهِمْ وَ اَصْلِهِمْ، مَاۤ اَنَارَ فَجْرٌ سَاطِعٌ، وَ خَوٰى نَجْمٌ طَالِعٌ.
اور آپؐ کے اہلبیتؑ پر رحمت ہو جو تاریکیوں کے چراغ، اُمت کیلئے سامان حفاظت، دین کے روشن مینار اور فضل و کمال کا بلند معیار ہیں۔ اللہ ان سب پر رحمت نازل کرے، ایسی رحمت جو ان کے فضل و کمال کے شایان، ان کے عمل و کردار کی جزا اور ان کی ذاتی و خاندانی پاکیزگی کے ہم پلہ ہو، جب تک صبح درخشاں لو دیتی رہے اور جگمگاتے ستارے اُبھر کر ڈوبتے رہیں۔
فَاِنِّیْ كُنْتُ فِیْ عُنْفُوَانِ السِّنِّ، وَ غَضَاضَةِ الْغُصْنِ، ابْتَدَاْتُ بِتَاْلِیْفِ كِتَابٍ فِیْ خَصَآئِصِ الْاَئِمَّةِ عَلَیْهِمُ السَّلَامُ: یَشْتَمِلُ عَلٰى مَحَاسِنِ اَخْبَارِهِمْ، وَجَوَاهِرِ كَلَامِهِمْ، حَدَانِیْ عَلَیْهِ غَرَضٌ ذَكَرْتُهٗ فِیْ صَدْرِ الْكِتَابِ، وَ جَعَلْتُهٗ اِمَامَ الْكَلَامِ. وَ فَرَغْتُ مِنَ الْخَصَآئِصِ الَّتِیْ تَخُصُّ اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلِیًّا ؑ، وَ عَاقَتْ عَنْ اِتْمَامِ بَقِیَّةِ الْكِتَابِ مُحَاجَزَاتُ الزَّمَانِ، وَ مُمَاطَلَاتُ الْاَیَّامِ، وَ كُنْتُ قَدْ بَوَّبْتُ مَا خَرَجَ مِنْ ذٰلِكَ اَبْوَابًا، وَ فَصَّلْتُهٗ فُصُوْلًا، فَجَآءَ فِیْۤ اٰخِرِهَا فَصْلٌ یَّتَضَمَّنُ مَحَاسِنَ مَا نُقِلَ عَنْهُ مِنَ الْكَلَامِ الْقَصِیْرِ فِی الْمَوَاعِظِ وَ الْحِكَمِ وَالْاَمْثَالِ وَالْاٰدَابِ، دُوْنَ الْخُطَبِ الطَّوِیْلَةِ، وَالْكُتُبِ الْمَبْسُوْطَةِ.
میں نے اوائل عمر اور شاخ جوانی کی شادابی میں آئمہ علیہم السلام کے حالات و خصائص میں ایک کتاب کی تالیف شروع کی تھی جو ان کے نفیس واقعات اور ان کے کلام کے جواہر ریزوں پر مشتمل تھی، جس کا غرض تالیف میں نے اسی کتاب کے دیباچہ میں ذکر کیا ہے اور اس میں وہ حصہ جو امیر المومنین علی علیہ السلام کے خصائص سے متعلق تھا پایہ تکمیل کو پہنچا، لیکن زمانہ کی مزاحمتوں اور شب و روز کی رکاوٹوں نے بقیہ کتاب پایۂ تکمیل کو نہ پہنچنے دی۔ جتنا حصہ لکھا گیا تھا اسے میں نے چند ابواب و فصول پر تقسیم کیا۔ چنانچہ اس کی آخری فصل حضرتؑ سے منقول شدہ پند و نصائح، حکم و امثلہ اور اخلاقیات کے حسین و مختصر جملوں پر مشتمل تھی، مگر طویل خطبات اور بسیط خطوط درج نہ تھے۔
فَاسْتَحْسَنَ جَمَاعَةٌ مِّنَ الْاَصْدِقَآءِ وَ اْلِاخْوَانِ مَا اشْتَمَلَ عَلَیْهِ الْفَصْلُ الْمُقَدَّمُ ذِكْرُهٗ، مُعْجَبِیْنَ بِبَدَآئِعِهٖ، وَ مُتَعَجِّبِیْنَ مِنْ نَّوَاصِعِهٖ، وَ سَئَلُوْنِیْ عِنْدَ ذٰلِكَ اَنْ اَبْدَاَ بِتَاْلِیْفِ كِتَابٍ یَّحْتَوِیْ عَلٰى مُخْتَارِ كَلَامِ مَوْلَانَا اَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ ؑ فِیْ جَمِیْعِ فُنُوْنِهٖ، وَ مُتَشَعِّبَاتِ غُصُوْنِهٖ مِنْ خُطَبٍ، وَ كُتُبٍ، وَ مَوَاعِظَ وَ اٰدَابٍ. عِلْمًا اَنَّ ذٰلِكَ یَتَضَمَّنُ مِنْ عَجَآئِبِ الْبَلَاغَةِ، وَ غَرَآئِبِ الْفَصَاحَةِ، وَ جَوَاهِرِ الْعَرَبِیَّةِ، وَ ثَوَاقِبِ الْكَلِمِ الدِّیْنِیَّةِ وَ الدُّنْیَوِیَّةِ، مَا لَا یُوْجَدُ مُجْتَمِعًا فِیْ كَلَامٍ، وَ لَا مَجْمُوْعَ الْاَطْرَافِ فِیْ كِتَابٍ، اِذْ كَانَ اَمِیْرُالْمُؤْمِنِیْنَ ؑ مَشْرَعَ الْفَصَاحَةِ وَ مَوْرِدَهَا، وَ مَنْشَاَ الْبَلَاغَةِ وَ مَوْلِدَهَا، وَمِنْهُ ؑ ظَهَرَ مَكْنُوْنُهَا، وَعَنْهُ اُخِذَتْ قَوَانِیْنُهَا، وَ عَلٰۤى اَمْثِلَتِهٖ حَذَا كُلُّ قَآئِلٍ خَطِیْبٍ، وَ بِكَلَامِهِ اسْتَعَانَ كُلُّ وَاعِظٍ بَلِیْغٍ. وَ مَعَ ذٰلِكَ فَقَدْ سَبَقَ وَ قَصَّرُوْا، وَ تَقَدَّمَ وَ تَاَخَّرُوْا، لِاَنَّ كَلَامَهٗ ؑ الْكَلَامُ الَّذِیْ عَلَیْهِ مَسْحَةٌ مِّنَ الْعِلْمِ الْاِلٰهِیْ، وَ فِیْهِ عَبْقَةٌ مِّنَ الْكَلَامِ النَّبَوِیِّ. فَاَجَبْتُهُمْ اِلَى الْاِبْتِدَآءِ بِذٰلِكَ، عَالِمًۢا بِمَا فِیْهِ مِنْ عَظِیْمِ النَّفْعِ، وَ مَنْشُوْرِ الذِّكْرِ، وَ مَذْخُوْرِ الْاَجْرِ۔
احباب اور برادرانِ دینی کی ایک جماعت نے اِس کے لطیف و شگفتہ کلمات پر اظہارِ تعجب و حیرت کرتے ہوئے فصل مذکور کے مندرجات پسند کئے اور مجھ سے خواہشمند ہوئے کہ میں ایک ایسی کتاب ترتیب دوں جو امیر المومنین علیہ السلام کے تمام اسالیب کلام اور اس کے متفرق شعبوں پر حاوی ہو، از قبیل خطبات و خطوط اور نصائح و آداب وغیرہ، اس یقین کے ساتھ کہ وہ فصاحت و بلاغت کے عجائب و نوادر، عربیت کے گہر ہائے تابدار اور دین و دنیا کے متعلق درخشندہ کلمات پر مشتمل ہو گی، جو نہ کسی کلام میں جمع اور نہ کسی کتاب میں یکجا ہیں۔ چونکہ امیرالمومنین علیہ السلام فصاحت کا سرچشمہ اور بلاغت کا مخرج و منبع تھے، فصاحت و بلاغت کی چُھپی ہوئی باریکیاں آپؑ ہی سے ظاہر ہوئیں اور آپؑ ہی سے اس کے اُصول و قواعد سیکھے گئے اور ہر خطیب و متکلم کو آپؑ کی مثالوں پر چلنا پڑا اور ہر واعظِ بلیغ نے آپؑ کے کلام سے خوشہ چینی کی، پھر بھی وہ آپؑ کے برابر کبھی نہیں آ سکے اور سبقت و تقدم کا سہرا آپؑ کے سر رہا۔ اس لئے کہ آپؑ کا کلام وہ ہے جس میں علم الٰہی کا پَرتو اور کلام نبویؐ کی بوباس ہے، چنانچہ اس فرمائش کو میں نے منظور کیا، یہ جانتے ہوئے کہ اِس میں نفع عظیم، نیک نامی اور ذخیرۂ اجر ہے۔
وَ اعْتَمَدْتُّ بِهٖۤ اَنْ اُبَیِّنَ مِنْ عَظِیْمِ قَدْرِ اَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ ؑ فِیْ هٰذِهِ الْفَضِیْلَةِ، مُضَافَةً اِلَى الْمَحَاسِنِ الدَّثِرَةِ، وَ الْفَضَآئِلِ الْجَمَّةِ، وَ اَنَّهٗ ؑ انْفَرَدَ بِبُلُوْغِ غَایَتِهَا عَنْ جَمِیْعِ السَّلَفِ الْاَوَّلِیْنَ الَّذِیْنَ اِنَّمَا یُؤْثَرُ عَنْهُمْ مِنْهَا الْقَلِیْلُ النَّادِرُ، وَ الشَّاذُّ الشَّارِدُ، وَ اَمَّا كَلَامُهٗ فَهُوَ الْبَحْرُ الَّذِیْ لَا یُسَاجَلُ، وَ الْجَمُّ الَّذِیْ لَا یُحَافَلُ، وَ اَرَدْتُّ اَنْ یَّسُوْغَ لِیَ التَّمَثُّلُ فِی الْاِفْتِخَارِ بِهٖ ؑ بِقَوْلِ الْفَرَزْدَقِ:
اس تالیف سے مقصود یہ ہے کہ میں امیر المومنین علیہ السلام کی فنِ بلاغت میں رفعت و برتری کو ظاہر کروں جو آپؑ کی بے شمار خوبیوں اور ان گنت فضیلتوں کے علاوہ ہے اور یہ کہ آپؑ اس فضیلت کے مقامِ منتہا تک پہنچنے میں ان تمام سلف اولین میں یکتا ہیں جن کا کلام تھوڑا بہت پاشان و پریشان نقل کیا جاتا ہے، لیکن آپؑ کا کلام ایک ایسا امنڈتا ہوا دریا ہے جس کے بہاؤ سے ٹکر نہیں لی جا سکتی اور اتنی خوبیوں کا مجموعہ ہے کہ اس کا مقابلہ نہیں ہو سکتا۔ میرے لئے جائز و خوشگوار ہو گا کہ میں حضرتؑ کی طرف اپنے نسبی استناد کی بنا پر فخر و ناز کرتے ہوئے فرزدق کا شعر بطورِ مثل پیش کروں:
اُوْلٰٓئِكَ اٰبَآئِیْ فَجِئْنِیْ بِمِثْلِهِمْ
’’یہ ہیں میرے آبا ؤ اجداد اے جریر! جب مجلسیں ہمیں ایک جا اکٹھا کریں تو ذرا ان کی مثال لاؤ‘‘۔۱
اِذَا جَمَعَتْنَا یَا جَرِیْرُ الْمَجَامِعُ
وَ رَاَیْتُ كَلَامَهٗ ؑ یَدُوْرُ عَلٰۤى اَقْطَابٍ ثَلَاثَةٍ:
میری نظر میں حضرتؑ کا کلام تین بنیادی قسموں میں دائر ہے:
اَوَّلُهَا:الْخُطَبُ وَ الْاَوَامِرُ
اوّل: خطبات و احکام
وَ ثَانِیْهَا:الْكُتُبُ وَ الرِّسَآئِلُ
دوسرے: مکتوبات و رسائل
وَ ثَالِثُهَا:الْحِكَمُ وَ الْمَوَاعِظُ
تیسرے: حکم و نصائح
فَاَجْمَعْتُ بِتَوْفِیْقِ اللهِ تَعَالٰی عَلَى الْاِبْتِدَآءِ بِاخْتِیَارِ مَحَاسِنِ الْخُطَبِ، ثُمَّ مَحَاسِنِ الْكُتُبِ، ثُمّ مَحَاسِنِ الْحِكَمِ وَ الْاَدَبِ، مُفْرِدًا لِّكُلِّ صِنْفٍ مِّنْ ذٰلِكَ بَابًا، وَ مُفَصِّلًا فِیْهِ اَوْرَاقًا، لِتَكُوْنَ مُقَدِّمَةً لِّاسْتِدْرَاكِ مَا عَسَاهُ یَشُذُّ عَنِّیْ عَاجِلًا، وَ یَقَعُ اِلَیَّ اٰجِلًا، وَاِذَا جَآءَ شَیْءٌ مِّنْ كَلَامِهٖ ؑ الْخَارِجِ فِیْۤ اَثْنَاءِ حِوَارٍ، اَوْجَوَابِ سُؤَالٍ، اَوْغَرَضٍ اٰخَرَ مِنَ الْاَغْرَاضِ ـ فِیْ غَیْرِ الْاَنْحَآءِ الَّتِیْ ذَكَرْتُهَا، وَ قَرَّرْتُ الْقَاعِدَةَ عَلَیْهَا ـ نَسَبْتُهٗۤ اِلٰى اَلْیَقِ الْاَبْوَابِ بِهٖ، وَاَشَدِّهَا مُلَا مَحَةً لِّغَرَضِهٖ. وَ رُبَّمَا جَآءَ فِیْمَاۤ اَخْتَارُهٗ مِنْ ذٰلِكَ فُصُوْلٌ غَیْرُ مُتَّسِقَةٍ، وَ مَحَاسِنُ كَلِمٍ غُیْرُ مُنْتَظِمَةٍ، لِاَنِّیْۤ اُوْرِدُ النُّكَتَ وَ اللُّمَعَ، وَ لَاۤ اَقْصِدُ التَّتَالِیْ وَ النَّسَقَ.
میں نے بتوفیق ایزدی پہلے خطبات، پھر خطوط، پھر حکم و آداب کے انتخاب کا ارادہ کیا ہے اور ہر صنف کیلئے الگ الگ باب تجویز کیا ہے اور ہر باب کے بعد درمیان میں چند اوراق سادہ چھوڑ دیئے ہیں تاکہ جو کلام مجھ سے چھوٹ جائے اور بعد میں ہاتھ آئے اس کا اندراج ان میں ہو جائے اور ایسا کلام جو روز مرہ کی گفتگو یا کسی سوال کے جواب میں یا کسی دوسرے مقصد کیلئے ہو جو اقسام مذکورہ اور میرے قرار دادہ قاعدے سے خارج ہو، اسے اس باب میں درج کر دیا جائے جو اس کیلئے مناسب اور اس کے مقاصد سے اشبہ ہو۔ میرے اس انتخاب میں کچھ فصلیں اور کلمے ایسے بھی آ گئے ہیں جن کے نظم و ترتیب میں برہمی و انتشار ہے، چونکہ میں رموز و دقائق اور درخشندہ کلمات کو صرف سمیٹ رہا ہوں، ربط و ترتیب مقصود نہیں ہے۔
وَ مِنْ عَجَآئِبِهٖ ؑ الَّتِی انْفَرَدَ بِهَا، وَ اَمِنَ الْمُشَارَكةَ فِیْهَا، اَنَّ كَلَامَهٗ ؑ الْوَارِدَ فِی الزُّهْدِ وَ الْمَوَاعِظِ، وَ التَّذْكِیْرِ وَ الزَّوَاجِرِ، اِذَاۤ تَاَمَّلَهُ الْمُتَاَمِّلُ، وَ فَكَّرَ فِیْهِ الْمُتَفَكِّرُ،وَ خَلَعَ مِنْ قَلْبِهٖ اَنَّهٗ كَلَامُ مِثْلِهٖ مِمَّنْ عَظُمَ قْدْرُهٗ، وَ نَفَذَ اَمْرُهٗ، وَ اَحَاطَ بِالرِّقَابِ مُلْكُهٗ، لَمْ یَعْتَرِضْهُ الشَّكُّ فِیْۤ اَنَّهٗ مِنْ كَلَامِ مَنْ لَّا حَظَّ لَهٗ فِیْ غَیْرِ الزَّهَادَةِ، وَ لَا شُغْلَ لَهٗ بِغَیْرِ الْعِبَادَةِ، قَدْ قَبَعَ فِیْ كِسْرِ بَیْتٍ،اَوِ انْقَطَعَ اِلٰى سَفْحِ جَبَلٍ، لَا یَسْمَعُ اِلَّا حِسَّهٗ، وَ لَا یَرٰى اِلَّا نَفْسَهٗ،وَ لَا یَكَادُ یُوْقِنُ بِاَنَّهٗ كَلَامُ مَنْ یَّنْغَمِسُ فِی الْحَرْبِ مُصْلِتًا سَیْفَهٗ، فَیَقُطُّ الرِّقَابُ، وَ یُجَدِّلُ الْاَبْطَالُ،وَ یُعُوْدُ بِهٖ یَنْطُفُ دَمًا، وَ یَقْطُرُ مُهَجًا،وَ هُوَ مَعَ تِلْكَ الْحَالِ زَاهِدُ الزُهَّادِ، وَ بَدَلُ الْاَبْدَالُ.
امیر المومنین علیہ السلام ۲ کے ان عجائب و خوارق میں کہ جن میں بلا شرکت غیرے آپؑ منفرد و یکتا ہیں، یہ ہے کہ آپؑ کے وہ کلمات جو زہد و پند، تذکیر و ارشاد اور زجر و توبیخ کے سلسلہ میں ہیں، جب فکر و تامل کرنے والے ان میں دقت نظر اور غور و فکر سے کام لے اور دل سے یہ بات نکال ڈالے کہ یہ ارشادات اس ہستی کے ہیں جس کا مرتبہ عظیم، جس کے احکام جاری و ساری، جس کی حکومت اس دنیا کی گردنوں پر محیط ہے تو اسے قطعاً اس میں شبہ نہ ہو گا کہ یہ ایسے شخص کا کلام ہے جو زہد و تقویٰ کے علاوہ کسی شے سے بہرہ مند نہیں اور اظہارِ عبودیت کے سوا اس کا کوئی مشغلہ نہیں، وہ کسی جھونپڑے کے گوشہ میں سربگریباں یا کسی پہاڑ کے دامن میں دنیا سے الگ تھلگ پڑا ہوا ہے، جس کے کانوں میں اپنی حس و حرکت کے علاوہ کوئی آواز نہیں پہنچتی اور اپنے سوا اسے کوئی دکھائی نہیں دیتا۔ بھلا کیونکر اسے یقین آئے گا کہ یہ اس کا کلام ہے جو تلوار سونت کر جنگ کی گہرائیوں میں ڈوب جاتا ہے تو گردنیں کاٹ کر رکھ دیتا ہے اور شہ زوروں کو زمین پر پچھاڑ دیتا ہے اور تلوار لے کر اس طرح پلٹتا ہے کہ اس سے لہو برستا ہوتا ہے اور خونِ دل کی بوندیں ٹپک رہی ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود آپؑ زاہدوں میں ممتاز اور ولیوں میں فائق تھے۔
وَ هٰذِهٖ مِنْ فَضَآئِلِهِ الْعَجِیْبَةِ، وَ خَصَآئِصِهِ اللَّطِیْفَةِ، الَّتِیْ جَمَعَ بِهَا بَیْنَ الْاَضْدَادِ، وَ اَلَّفَ بَیْنَ الْاَشْتَاتِ، وَ كَثِیْرًا مَّاۤ اُذَاكِرُ الْاِخْوَانَ بِهَا، وَ اَسْتَخْرِجُ عَجَبَهُمْ مِنْهَا، وَ هِیَ مَوْضِعٌ لِّلْعِبْرَةِ بِهَا، وَ الْفِكْرَةِ فِیْهَا.
یہ فضیلت آپؑ کی اُن عجیب فضیلتوں اور لطیف خصوصیتوں میں شامل ہے کہ جس کی وجہ سے آپؑ نے متضاد صفتوں کو سمیٹ لیا اور بکھرے ہوئے کمالات کو پیوند لگا کر جوڑ دیا۔ اکثر برادرانِ دینی سے اس کا ذکر کر کے انہیں حیرت و استعجاب میں ڈالتا ہوں۔ یہ عبرت کی جگہ اور تفکر و تدبر کا مقام ہے۔
وَ رُبَّمَا جَآءَ فِیْۤ اَثْنَآءِ هٰذَا الْاِخْتِیَارِ اللَّفْظُ الْمَرَدَّدُ، وَ الْمَعْنَى الْمُكَرَّرُ، وَ الْعُذْرُ فِیْ ذٰلِكَ اَنَّ رِوَایَاتِ كَلَامِهٖ ؑ تَخْتَلِفُ اخْتِلَافًا شَدِیْدًا: فَرُبَّمَا اتَّفَقَ الْكَلَامُ الْمُخْتَارُ فِیْ رِوَایَةٍ فَنُقِلَ عَلٰى وَجْهِهٖ، ثُمَّ وُجِدَ بَعْدَ ذٰلِكَ فِیْ رِوَایَةٍ اُخْرٰى مَوْضُوْعًا غَیْرَ وَضْعِهِ الْاَوَّلِ: اِمَّا بِزِیَادَةٍ مُّخْتَارَةٍ، اَوْ بِلَفْظٍ اَحْسَنَ عِبَارَةً، فَتَقْتَضِی الْحَالُ اَنْ یُّعَادَ، اسْتِظْهَارًا لِّلْاِخْتِیَارِ، وَ غَیْرَةً عَلٰى عَقَآئِلِ الْكَلَامِ. وَ رُبَّمَا بَعُدَ الْعَهْدُ اَیْضًۢا بِمَا اخْتِیْرَ اَوَّلًا فَاُعِیْدَ بَعْضُهٗ سَهْوًا اَوْ نِسْیَانًا، لَا قَصْدًا وَ اعْتِمَادًا.
اس انتخاب میں کہیں کہیں الفاظ و مطالب کا تکرار بھی ہو گیا ہے جس کیلئے یہ عذر ہے کہ آپؑ کے کلام کی مختلف صورتوں سے روایت کی گئی ہے تو کبھی ایسا ہوا ہے کہ ایک کلام منتخب کو ایک روایت میں جس طرح پایا اسی طرح اسے نقل کر دیا پھر وہی کلام کسی اور روایت میں دوسری وضع و صورت میں پایا گیا یوں کہ اس میں کچھ قابل انتخاب اضافہ تھا یا الفاظ کا اسلوب و نہج زیادہ حسین و دلکش تھا، لہٰذا صورت حال اس کی مقتضی ہوئی کہ انتخاب کے مقصد کو زیادہ کامیاب بنانے کیلئے اور کلامِ نفیس و پاکیزہ کو ضائع ہونے سے محفوظ رکھنے کیلئے اس کا پھر سے اعادہ کیا جائے۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ جو کلام پہلے نظر انتخاب میں آ چکا تھا اس سے بعید العہد ہو جانے کی وجہ سے اس کی تکرار ہو گئی، یہ بھول چوک کی وجہ سے ہے جس میں قصد و اختیار کو دخل نہیں تھا۔
وَ لَاۤ اَدَّعِيْ ـ مَعَ ذٰلِكَ ـ اَنِّیْۤ اُحِیْطُ بِاَقْطَارِ جَمِیْعِ كَلَامِهٖ ؑ حَتّٰى لَا یَشِذَّ عَنِّیْ مِنْهُ شَآذٌّ، وَ لَا یَنِدَّ نَآدٌّ، بَلْ لَاۤ اَبْعِدُ اَنْ یَّكُوْنَ الْقَاصِرُ عَنِّیْ فَوْقَ الْوَاقِعِ اِلَیَّ، وَ الْحَاصِلُ فِیْ رِبْقَتِیْ دُوْنَ الْخَارِجِ مِنْ یَّدَیَّ، وَ مَا عَلَیَّ اِلَّا بَذْلُ الْجُهْدِ، وَ بَلَاغُ الْوُسْعِ، وَ عَلَى اللهِ سُبْحَانَهٗ نَهْجُ السَّبِیْلِ، وَ رَشَادُ الدَّلِیْلِ، اِنْ شَآءَ اللهُ.
مجھے یہ دعویٰ نہیں کہ میں نے حضرتؑ کا کلام ہر طرف سے سمیٹ لیا ہے اور کوئی اکا دکا جملہ اور بھولا بھٹکا فقرہ بھی چھوٹنے نہیں پایا، بلکہ میں یہ بعید نہیں سمجھتا کہ جو مجھ سے رہ گیا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہو جو مجھ تک پہنچا ہے اور جو میرے احاطۂ علم و تصرف میں ہے وہ اس سے کہیں کم ہو جو میری دسترس سے باہر ہے۔ میرا کام جد وجہد اور بقدر وسعت سعی و کوشش کرنا ہے، یہ اللہ سبحانہ کا کام ہے کہ وہ راہ سہل و آسان کرے اور منزل کی طرف رہنمائی فرمائے۔ ان شاء اللہ!
وَ رَاَیْتُ مِنْۢ بَعْدُ تَسْمِیَةَ هٰذَا الْكِتَابِ بِـ"نَهْجِ الْبَلَاغَةِ"، اِذْ كَانَ یَفْتَحُ لِلنَّاظِرِ فِیْهِ اَبْوَابَهَا،وَ یُقَرِّبُ عَلَیْهِ طِلَابَهَا، وَ فِیْهِ حَاجَةُ الْعَالِمِ وَ الْمُتَعَلِّمِ، وَ بُغْیَةُ الْبَلِیْغِ وَ الزَّاهِدِ، وَ یَمْضِیْ فِیْۤ اَثْنَآئِهٖ مِنْ عَجِیْبِ الْكَلَامِ فِی التَّوْحِیْدِ وَ الْعَدْلِ، وَ تَنْزِیْهِ اللهِ سُبْحَانَهٗ عَنْ شَبَهِ الْخَلْقِ، مَا هُوَ بِلَالُ كُلِّ غُلَّةٍ، وَشِفَآءُ كُلِّ عِلَّةٍ، وَ جِلَآءُ كُلِّ شُبْهَةٍ.
اس جمع و انتخاب کے بعد میری رائے ہوئی کہ اس کتاب کا نام ’’نہج البلاغہ‘‘ رکھا جائے۔ اس لئے کہ یہ کتاب دیکھنے والے کیلئے بلاغت کے بند دروازے کھولے گی اور اس کیلئے راہ تلاش قریب کرے گی۔ اس سے عالم و متعلم اپنی ضرورتیں پوری کریں گے اور صاحبِ بلاغت و تارک علائق دنیا اپنے مقاصد پائیں گے۔ اس کتاب میں توحید، عدل اور خدا وند عالم کے جسم و جسمانیات سے منزہ و مبرّا ہونے کے متعلق عجیب و غریب کلام ملے گا جو ہر تشنگی کی سیرابی، ہر مرض کی شفا اور ہر شبہ کا دافع ہے۔
وَ مِنَ اللهِ سُبْحَانَهٗ اَسْتَمِدُّ التَّوْفِیْقَ وَ الْعِصْمَةَ، وَاَتَنَجَّزُ التَّسْدِیْدَ وَ الْمَعُوْنَةَ، وَ اَسْتَعِیْذُهٗ مِنْ خَطَاِ الْجَنَانِ، قَبْلَ خَطَاِ اللِّسَانِ، وَمِنْ زَلَّةِ الْكَلِمِ، قَبْلَ زَلَّةِ الْقَدَمِ، وَهُوَ حَسْبِیْ وَنِعْمَ الْوَكِیْلُ.
میں اللہ سے توفیق اور بے راہ روی سے بچاؤ کا طالب ہوں اور عمل کی درستگی اور اعانت کا خواستگار ہوں اور لغزشِ زبان سے پہلے لغزشِ دل و دماغ سے اور لغزشِ قدم سے پہلے لغزش کلام سے پناہ مانگتا ہوں۔ وہی میرے لئے کافی اور اچھا کارساز ہے۔

۱؂’’فرزدق‘‘ کہ جس کا نام ہمام ابن غالب ہے، قبیلۂ بنی دارم کا ایک فرد اور عرب کا نامور شاعر تھا۔ اس میں اور عرب کے ایک دوسرے شاعر جریر ابن عطیہ میں ہمیشہ نوک جھونک رہا کرتی تھی اور ایک دوسرے کی ہجو اور باہمی مفاخرت ہی میں ان کی طبیعتوں کے جوہر کھلا کرتے تھے۔ چنانچہ فرزدق کا یہ شعر بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے جس میں جریر کو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ: ’’میرے آباؤ اجداد تو وہ ہیں (جن کی خوبیوں کو تو سن چکا ہے) اور اگر تیرے آباؤ اجداد میں بھی کوئی ان جیسا ہو گزرا ہو تو کسی بھری محفل میں اس کا نام لو۔
سیّد رضی علیہ الرحمہ اس شعر کو اپنے آباؤ اجداد کیلئے پیش کرتے ہوئے ہر شخص سے مخاطب ہیں کہ کوئی ان کی مثل و نظیر لا سکتا ہو تو لائے۔ فرزدق کے شعر میں تو خطاب صرف جریر سے کیا گیا ہے مگر یہاں اسے مثل کی صورت میں پیش کرنے سے عمومیت اور ہمہ گیری پیدا ہو گئی ہے اور خطاب کسی فردِ خاص سے نہیں رہا ہے، بلکہ ہر شخص اپنے کو اس کا مخاطب قرار دے سکتا ہے۔ مگر اتنی عمومیت و وسعت کے باوجود فَجِئْنِیْ بِمِثْلِہِمْ کا دعویٰ ﴿فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ۝۰۠ ﴾ [۱] کی طرح توڑا نہیں جا سکتا۔
سیّد رضیؒ نے اس نسبت و امتیاز کی طرف ایسے مناسب محل پر اشارہ کیا ہے کہ اس سے زیادہ موزوں مقام دوسرا نہیں ہو سکتا، کیونکہ جس ہستی پر افتخار مقصود ہے اس کی خوبیوں اور فضیلتوں کی طرف اشارہ ہو چکا ہے اور نگاہیں اس کے جمالِ عظمت سے خیرہ اور ذہن اس کے کمال رفعت سے متاثر ہو چکے ہیں۔ اب دلوں کو بآسانی اس فرد کی رفعت و بلندی کے آگے جھکایا جا سکتا ہے جسے اس ذاتِ ممدوح سے نسبت ہو۔ لہٰذا سیّد کی بلاغت آشنا نظروں نے دل و دماغ کے رجحان کے موقعہ پر نگاہوں کو اس طرف موڑا کہ وہ بھی اسی آفتابِ جہاں تاب کی کرن ہیں جس کی طغیانی نور سے آنکھیں چکا چوند ہو جاتی ہیں اور اسی شجرۂ طیبہ کے برگ و بار ہیں جس کی جڑ زمین میں اور شاخیں آسمان تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اب کون ہے جو اس نسبت و امتیاز سے مثاثر ہو کر ان کے علو و رفعت کا قائل نہ ہو گا۔
مَنْ لَّمْ يَكُنْ عَلَوِيًّا حِيْنَ تَنْسُبُهٗ
فَمَا لَهٗ فِیْ قَدِيْمِ الدَّهْرِ مُفْتَخَرٌ
(ترجمہ:’’جس شخص کا نسب حضرت علی علیہ السلام سے نہ ملے تو اس کیلئے بھلا فخر کیسا!‘‘)۔(عیون اخبار الرضاؑ، ج۲، ص۱۴۳)
۲دنیا میں ایسے انسان خال خال ہی نظر آتے ہیں کہ جن میں ایک آدھ صفت کمال کے علاوہ کوئی اور بھی فضیلت نمایاں ہو، چہ جائیکہ تمام متضاد صفتیں کسی کے دامن میں جمع ہو جائیں، کیونکہ ہر طبیعت میں ہر کمال کے پھلنے پھولنے اور ہر صفت کے اُبھرنے کی صلاحیت نہیں ہوا کرتی، بلکہ ہر فضیلت ایک طبیعتِ خاص اور ہر کمال ایک مزاج مخصوص رکھتا ہے جو انہی اوصاف و کمالات سے سازگار ہو سکتا ہے جو اس سے یکسانیت و ہمرنگی رکھتے ہوں اور جہاں ہم آہنگی کے بجائے تضاد کی سی صورت ہو وہاں پر طبعی تقاضے روک بن کر کسی اور فضیلت کو اُبھرنے نہیں دیا کرتے۔ مثلاً جود و سخا کا تقاضا یہ ہے کہ انسان میں رحمدلی و خدا ترسی کا ولولہ ہو، کسی کو فقر و افلاس میں دیکھے تو اُ س کا دل کڑھنے لگے اور دوسروں کے دکھ درد سے اس کے احساسات تڑپ اٹھیں۔ اور شجاعت و نبرد آزمائی کا تقاضا یہ ہے کہ طبیعت میں نرمی و رحمدلی کے بجائے خونریزی و سفاکی کا جذبہ ہو، ہر گھڑی لڑنے اُلجھنے کیلئے تیار اور مرنے مارنے کیلئے آمادہ نظر آئے اور ان دونوں تقاضوں میں اتنا بُعد ہے کہ کرم کی تبسم ریزیوں میں شجاعت کے کڑے تیوروں کو سمویا نہیں جا سکتا اور نہ حاتم سے شجاعتِ رستم کی امید اور نہ رستم سے سخاوتِ حاتم کی توقع کی جا سکتی ہے۔
۲؂مگر علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی طبیعت ہر فضیلت سے پوری مناسبت اور ہر کمال سے پورا لگاؤ رکھتی تھی اور کوئی صفتِ حسن و کمال ایسی نہ تھی جس سے اُن کا دامن خالی رہا ہو اور کوئی خلعتِ خوبی و جمال ایسا نہ تھا جو ان کے قد و قامت پر راست نہ آیا ہو اور سخاوت و شجاعت کے متضاد تقاضے بھی ان میں پہلو بہ پہلو نظر آتے تھے۔ اگر وہ داد و دہش میں ابر باراں کی طرح برستے تھے تو پہاڑ کی طرح جم کر لڑتے اور دادِ شجاعت بھی دیتے تھے۔ چنانچہ ان کے جود و کرم کی یہ حالت تھی کہ فقر و افلاس کے زمانے میں بھی جو دن بھر کی مزدوری سے کماتے تھے اس کا بیشتر حصہ ناداروں اور فاقہ کشوں میں بانٹ دیتے تھے اور کبھی کسی سائل کو اپنے گھر سے ناکام واپس نہ جانے دیتے تھے، یہاں تک کہ اگر میدانِ جنگ میں دشمن نے تلوار مانگ لی تو آپؑ نے اپنے زورِ بازو پر بھروسا کرتے ہوئے تلوار اس کے آگے پھینک دی۔
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
اور ہمت و شجاعت کا یہ عالم تھا کہ فوجوں کے ریلےآپؑ کے ثباتِ قدم کو جنبش نہ دے سکتے تھے اور ہر معرکہ میں فتح و کامرانی کا سہرا آپؑ کے سر رہتا تھا اور بہادر سے بہادر نبرد آزما بھی آپؑ کے مقابلے میں آ کر اپنی جان کو صحیح و سالم بچا کر لے جانے میں کامیاب نہ ہو سکتا تھا۔
چنانچہ ابن قتیبہ نے ’’المعارف‘‘ میں لکھا ہے کہ:
لَمْ یُصَارِعْ قَطُّ اَحَدٌ اِلَّا صَرَعَہٗ.
جس سے بھڑے اُسے پچھاڑے بغیر نہیں چھوڑا۔ (شرح ابن ابی الحدید، ج۱، ص۲۱)
شجاعوں کی من چلی طبیعتیں سوچ بچار کی عادی نہیں ہوا کرتیں اور نہ مصلحت بینی و مآل اندیشی سے انہیں کوئی لگاؤ ہوتا ہے، مگر آپؑ میں شجاعت کے ساتھ ساتھ سوجھ بوجھ کا مادہ بھی بدرجۂ اَتَم پایا جاتا تھا۔ چنانچہ امام شافعی کا قول ہے کہ:
مَاۤ اَقُوْلُ فِیْ شَخْصٍ اجْتَمَعَتْ لَہٗ ثَلَاثَۃٌ مَّعَ ثَلَاثَۃٍ لَّا یَجْتَمِعُھُنَّ قَطُّ لِاَحَدٍ مِّنْۢ بَنِیْۤ اٰدَمَ: الْجُوْدُ مَعَ الْفَقْرِ، وَ الشَّجَاعَۃُ مَعَ الرَّاْیِ، وَ الْعِلْمُ مَعَ الْعَمَلِ.
میں اس ہستی کے بارے میں کیا کہوں جن میں تین صفتیں ایسی تین صفتوں کے ساتھ جمع تھیں جو کسی بشر میں جمع نہیں ہوئیں: فقر کے ساتھ سخاوت، شجاعت کے ساتھ تدبر ورائے اور علم کے ساتھ عملی کار گزاریاں۔ (فواتح میبذی، فاتحہ ہفتم)[۲]
اسی اصابتِ فکر و صحت رائے کا نتیجہ تھا کہ جب پیغمبر ﷺ کی وفات کے بعد کچھ لوگوں نے آپؑ کو تلوار اٹھانے کا مشورہ دیا اور فوجوں کے فراہم کرنے کا وعدہ کیا تو آپ نے ان کی رائے کو ٹھکرا دیا، حالانکہ ایسے موقعہ پر من چلے بہادروں کو ذرا سا سہارا بھی اُبھارنے کیلئے کافی ہوا کرتا ہے۔ مگر آپؑ کی طبع دور اندیش نے فوراً یہ نتیجہ اخذ کر لیا کہ اگر اس وقت معرکۂ کار زار گرم ہو گیا تو اسلام کی آواز تلواروں کی جھنکار میں دَب کر رہ جائے گی اور پھر کامیابی حاصل ہو بھی گئی تو کہنے میں یہی آئے گا کہ تلوار کے زور سے اس منصب کو حاصل کیا، ورنہ کوئی استحقاق نہ تھا۔ لہٰذا آپؑ نے تلوار کو روک کر ایک طرف اسلام کی حفاظت کا سرو سامان کیا اور دوسری طرف اپنے حق کو خونریزیوں سے داغ دار نہ ہونے دیا۔
جہاں رگ و پے میں شجاعت کا خون دوڑ رہا ہو اور سینہ میں غیض و غضب کی چنگاریاں بھڑک رہی ہوں وہاں ولولۂ انتقام کو دبا کر عفو و بخشش کا طرزِ عمل اختیار کرنا اور طاقت و اختیار کے ہوتے ہوئے در گزر سے کام لینا بڑی کٹھن آزمائش ہے۔ مگر ایسے ہی موقعوں پر آپؑ کی سیرت کے جوہر نکھرا کرتے تھے اور دامن عفو کی پہنائیوں میں خون کے پیاسوں تک کیلئے گنجائش نکل آیا کرتی تھی۔ چنانچہ جنگِ جمل کے خاتمہ پر آپؑ نے ایک اعلانِ عام فرمایا کہ کسی پیٹھ پھرانے والے، ہتھیار ڈال دینے والے اور ہمارے دامن میں پناہ لینے والے پر ہاتھ نہ اٹھایا جائے اور مروان بن حکم اور عبد اللہ بن زبیر ایسے دشمنوں کو بغیر انتقام و سرزنش کے چھوڑ دیا اور اُمّ المومنین کے ساتھ جو حسنِ سلوک کیا وہ آپؑ کی شرافت نفس اور بلندیٔ کردار کا بے نظیر نمونہ ہے کہ باوجود عناد و دشمنی کے کھلم کھلا مظاہروں کے آپؑ نے اُ ن کے شایانِ شان انتظامات کے ساتھ انہیں محمد ابن ابی بکر کے ہمراہ مدینہ روانہ کر دیا۔
انسان اپنی ذاتی رنجشوں کو اصولی اختلاف کا لباس پہنا کر نہ صرف دوسروں کو فریب دیا کرتا ہے، بلکہ خود اپنے نفس کو بھی دھوکے میں رکھنے کی کوشش کیا کرتا ہے اور ایسے حالات میں ایسی نازک صورتیں بھی آ جاتی ہیں کہ انسان ذاتی اور اصولی رنجش میں امتیاز کر کے ایک کو دوسرے سے الگ نہیں کر سکتا اور بآسانی ایک کو دوسرے میں سمو کر یہ سمجھ لیتا ہے کہ اُس نے حکم الٰہی کا امتثال کیا ہے اور ہوتا یہ ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ اپنے انتقامی جذبے کو بھی فرو کر لیا کرتا ہے۔ مگر امیر المومنین علیہ السلام کی حد شناس نظریں نہ کبھی فریب کھاتی تھیں اور نہ جان بوجھ کر اپنے کو فریب دیتی تھیں۔ چنانچہ ایک موقعہ پر جب دشمن کو پچھاڑ کر اُس کے سینے پر سوار ہوئے تو اس نے آپؑ کے چہرے پر تھوک دیا۔ بشری تقاضا تو یہ تھا کہ اشتعال بڑھ جاتا، ہاتھ کی حرکت تیز ہو جاتی، مگر مشتعل ہونے کی بجائے اُس کے سینہ سے اُتر آئے کہ کہیں اس عمل میں خواہش نفس کی آمیزش نہ ہو جائے۔ جب غصہ فرو ہو گیا تو اُسے قتل کیا۔
جنگ و پیکار اور زہد و ورع میں بھی کوئی مناسبت نظر نہیں آتی، کیونکہ ایک سے ہمت و دلیری کا مظاہرہ ہوتا ہے اور ایک سے عجز و فروماندگی ٹپکتی ہے۔ مگر آپؑ ان دونوں صفتوں کے اجتماع کا نادر نمونہ تھے کہ وقفِ دُعا رہنے والے ہاتھوں کو مشغولِ کارزار بھی رکھتے تھے اور گوشۂ اعتکاف میں بیٹھنے کے ساتھ میدانِ جنگ کا بھی طواف کرتے تھے۔ چنانچہ لیلۃ الہریر کا وہ منظر تو انسانی عقلوں کو حیرت و استعجاب میں ڈال دیتا ہے کہ جب آپؑ نے گرد و پیش سے آنکھیں بند کر کے خونی ہنگاموں میں مصلّٰی بچھا دیا تھا اور سکونِ خاطر و اطمینانِ قلب سے نماز میں مشغول ہو گئے تھے اور تیر تھے کہ کبھی آپؑ کے سر کے اوپر سے اور کبھی دائیں سمت سے اور کبھی بائیں جانب سے سنسناتے ہوئے گزر رہے تھے، مگر آپؑ بغیر کسی خوف و ہراس کے ذکرِ خدا میں محو رہے اور جب فارغ ہوئے تو ہاتھ تلوار کے قبضہ پر رکھا اور پھر جس قیامت کا رَن پڑا ہے تاریخ اس کی مثال پیش نہیں کر سکتی۔ عالم یہ تھا کہ ہر طرف ایسی چیخ و پکار اور بھگدڑ مچی ہوئی تھی کہ کان پڑی آواز نہ سنائی دیتی تھی۔ البتہ لحظہ بہ لحظہ آپؑ کی صدائے تکبیر فضا میں بلند ہو کر کانوں میں گونج اُٹھتی تھی اور ہر تکبیر ایک دشمن کیلئے پیغامِ اَجل لیکر آتی تھی۔ گننے والوں نے اِن تکبیروں کو شمار کیا تو ان کی تعداد پانچ سو تیئیس (۵۲۳) تھی۔
نبرد آزمائی و صَف آرائی کے مشغلوں کے ساتھ علم و عرفان کا ذوق جمع نہیں ہوا کرتا، مگر آپؑ رزم آرائیوں کے ساتھ علم و معارف کی محفلیں بھی آراستہ کرتے تھے اور خون کی ندیاں بہانے کے ساتھ حقائق و معارف کے سر چشموں سے کشت زارِ اسلام کی آبیاری بھی فرماتے تھے۔
جہاں علمی کمال ہو وہاں عمل سے تہی دامنی نہ سہی مگر عملی کوتاہیوں میں تو کوئی شبہ نہیں کیا جا سکتا، لیکن آپؑ کے قدم، علم و عمل کے میدان میں یکساں اٹھتے تھے۔ جیسا کہ امام شافعی کے قول میں اشارہ ہو چکا ہے۔
یونہی قول و عمل کی ہمنوائی کی مثالیں بھی کم ملتی ہیں، مگر آپؑ کا عمل پہلے ہوتا تھا اور قول بعد میں۔ جیسا کہ خود فرماتے ہیں:
اَيُّهَا النَّاسُ! اِنِّیْ وَ اللّٰهِ! مَاۤ اَحُثُّكُمْ عَلٰى طَاعَةٍ اِلَّا وَ اَسْبِقُكُمْ اِلَيْهَا وَ لَاۤ اَنْهَاكُمْ عَنْ مَّعْصِيَةٍ اِلَّا وَ اَتَنَاهٰى قَبْلَكُمْ عَنْهَا۔
اے لوگو! بخدا! میں تمہیں کسی عمل کی دعوت نہیں دیتا مگر یہ کہ تم سے پہلے اس کی طرف بڑھتا ہوں اور کسی چیز سے تمہیں نہیں روکتا مگر یہ کہ پہلے اس سے اپنا دامن بچاتا ہوں۔ (نہج البلاغہ، خطبہ نمبر۱۷۳)
جہاں کسی زاہد و متورع انسان کا تصور ہوا وہاں ایک شکنوں بھرا چہرہ نظروں کے سامنے آ جاتا ہے، کیونکہ پرہیزگارانہ زندگی کیلئے خشک مزاجی و ترش روئی ایسا لازمی جزو بن کر رہ گئی ہے کہ کسی پرہیزگار و پارسا کے ہونٹوں کیلئے مسکراہٹ کا تصور بھی جرم سمجھا جانے لگا ہے۔ مگر آپؑ کمالِ تقویٰ و پرہیزگاری کے باوجود ہمیشہ اس طرح دکھائی دیئے کہ شگفتہ مزاجی و خندہ روئی آپؑ کے خد و خال سے جھلکتی اور مسکراہٹ لبوں پر کھیلتی تھی اور کبھی خشک زاہدوں کی طرح تیوری پر بَل اور جبیں پر شکن نہ آنے پاتی تھی۔ یہاں تک کہ جب دنیا والوں کو آپؑ میں کوئی عیب نظر نہ آیا تو اسی طبیعت کی لطافت کو عیب کی صورت میں پیش کیا جانے لگا اور درشت طبعی و تند خوئی کو حُسن سمجھ لیا گیا۔
اگر انسان میں زندہ دلی و خوش طبعی کی جھلک ہو تو اس کا رُعب و دبدبہ دلوں سے اُٹھ جایا کرتا ہے، مگر حضرتؑ کے بشاش چہرے پر جلال و تمکنت کا یہ عالم تھا کہ نگاہیں ان کے سامنے اٹھ نہ سکتی تھیں۔ چنانچہ ایک دفعہ معاویہ نے طنزاً یہ کہا کہ: ’’خدا ابو الحسنؑ پر رحم کرے، وہ ایک خوش مذاق آدمی تھے‘‘ تو قیس ابن سعد نے کہا کہ:
اَمَا وَ اللّٰهِ! لَقَدْ كَانَ مَعَ تِلْكَ الْفُكَاهَةِ وَ الطَّلَاقَةِ اَهْيَبَ مِنْ ذِیْ لَبْدَتَيْنِ قَدْ مَسَّهُ الطُّوٰى، تِلْكَ هَيْبَةُ التَّقْوٰى لَيْسَ كَمَا يَهَابُكَ طَغَامُ اَهْلِ الشَّامِ۔
خدا کی قسم! وہ اس خوش مذاقی اور خندہ روئی کے باوجود بھوکے شیر سے بھی زیادہ پُر ہیبت تھے اور یہ ان کے تقویٰ کا رعب تھا، نہ ویسا جیسا شام کے چند اوباش تمہارا رُعب مانتے ہیں۔ (شرح ابن بی الحدید، ج۱، ص۲۵)
جہاں سطوت و حکومت ہو وہاں حشم و خدم کے جھرمٹ، تزک و احتشام کے پہرے اور کر و فر کے ساز و سامان نظر آیا کرتے ہیں۔ مگر آپؑ کا دورِ فرماں روائی انتہائی سادگی کا نمونہ تھا اور اہلِ عالم کی نگاہوں نے ہمیشہ تاج سروری کی جگہ بوسیدہ عمامہ، حلۂ خسروی کے بجائے پیوند دار پیراہن اور مسند جہاں بانی کی جگہ فرشِ خاک ہی دیکھا۔ نہ آپؑ نے کبھی شان و شکوہ کو پسند کیا اور نہ ظاہری ٹھاٹھ باٹھ کی نمائش گوارا کی۔ چنانچہ ایک موقعہ پر گھوڑے پر سوار ہو کر گزر رہے تھے کہ حرب ابن شرحبیل گفتگو کرتا ہوا آپؑ کے ہمرکاب ہو لیا تو آپؑ نے اس سے فرمایا:
اِرْجِـعْ، فَاِنَّ مَشْیَ مِثْلِكَ مَعَ مِثْلِیْ فِتْنَةٌ لِّلْوَالِیْ وَ مَذَلَّةٌ لِّلْمُؤْمِنِ۔
پلٹ جاؤ، کیونکہ تم ایسے شخص کا یوں میرے ساتھ پیادہ پا چلنا والی کیلئے فتنہ اور مومن کیلئے ذِلّت کا باعث ہے۔
(نہج البلاغہ، حکمت ۳۲۲)
غرض یہ وہ جامع شخصیت تھی جس میں مختلف و متضاد صفات سمٹ کر جمع ہو گئے تھے اور تمام محاسن اخلاق اپنی پوری تابندگیوں کے ساتھ جلوہ گر تھے۔ گویا ان کی ایک زندگی کئی زندگیوں کا مجموعہ اور ہر زندگی صفتِ کمال کا وہ نادر مرقع تھی جس سے فضیلت کے بے داغ خد و خال اُبھر کر سامنے آتے تھے اور جس کے ہر کمال پر نظریں جم کر رہ جاتی تھیں۔
ز فرق تا بقدم ہر کجا کہ می نگرم
کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ جا اینجا است

[۱]۔ سورۂ بقرہ، آیت ۲۳۔
[۲]۔ کشف الاسرار فی شرح الاستبصار، ج ۱، ص ۳۴۶۔

   
جملہ حقوق © 2020 محفوظ ہیں۔
info@balagha.org