Quick Contact

مفلس اپنے شہرمیں رہ کر بھی غریب الوطن ہوتا ہے، اور عجز ودرماندگی مصیبت ہے۔ حکمت 3

مقدمہ
حجۃ الاسلام سید العلماء مولانا سید علی نقی صاحب قبلہ قدس سرہ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْاَ نْبِیَآءِ وَ الْمُرْسَلِیْنَ وَ اٰلِہِ الطَّیِّبِیْنَ الطَّاھِرِیْنَ
نہج البلاغہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے کلام کا وہ مشہور ترین مجموعہ ہے جسے جناب سید رضیؒ برادر شریف مرتضیٰ علم الہدیٰ نے چوتھی صدی ہجری کے اواخر میں مرتب فرمایا تھا۔ اس کے بعد پانچویں صدی کے پہلے عشرہ میں آپ کا ا نتقال ہو گیا ہے اور نہج البلاغہ کے انداز تحریر سے پتہ یہ چلتا ہے کہ انہوں نے طویل جستجو کے ساتھ درمیان میں خالی اوراق چھوڑ کر امیر المومنین علیہ السلام کے کلام کو متفرق مقامات سے یکجا کیا تھا، جس میں ایک طویل مدت انہیں صرف ہوئی ہو گی اور اس میں اضافہ کا سلسلہ ان کے آخر عمر تک قائم رہا ہوگا۔ یہاں تک کہ بعض کلام جو کتاب کے یکجا ہونے کے بعد ملا ہے، اس کو تعجیل میں انہوں نے اس مقام کی تلاش کئے بغیر جہاں اسے درج ہونا چاہیے تھا، کسی اور مقام پر شامل کردیا ہے اور وہاں پریہ لکھ دیا ہے کہ یہ کلام کسی اور روایت کے مطابق اس کے پہلے کہیں پر درج ہوا ہے۔ یہ اندازِ جمع و تالیف خود ایک غیر جانبدار شخص کیلئے یہ پتہ دینے کے واسطے کافی ہے کہ اس میں خود سید رضیؒ کے ملکہ انشاء اور قوت تحریر کا کوئی دخل نہیں ہے، بلکہ انہوں نے صرف مختلف مقامات سے جمع آوری کرکے امیر المومنین علیہ السلام کے کلام کو یکجا کردینے پر اکتفا کی ہے۔ یہ پاشانی اور پریشانی جسے بحیثیت تالیف کے کتاب کا ایک نقص سمجھنا چاہیے، مقام اعتبار میں اس پر اعتماد پیدا کرنے والا ایک جوہر ہو گیا ہے۔ انہوں نے مختلف نسخوں اور مختلف راویوں کی یادداشت کے مطابق نقل الفاظ میں اتنی احتیاط کی ہے کہ بعض وقت دیکھنے والے کے ذوق پر بار ہو جاتا ہے کہ اس عبارت کے نقل کرنے سے فائدہ ہی کیا ہوا جبکہ ابھی ابھی ہم ایسی ہی عبارت پڑھ چکے ہیں۔ جیسے ’’ ذم اہل بصرہ‘‘ میں اس شہر کی غرقابی کے تذکرے میں اس کی مسجد کا نقشہ کھینچنے میں مختلف عبارات کبھی: ’’نَعَامَۃٍ جَاثِمَۃٍ‘‘ اور کبھی ’’ كَجُؤْجُؤِ طَیْرٍ فِیْ لُجَّۃِ بَحْرٍ‘‘ [۱]اور اس سے ملتے جلتے ہوئے اور الفاظ، یہ اسی طرح کا اہتمام صحت نقل میں ہے۔
جیسے موجودہ زمانہ میں اکثر کتابوں کی عکسی تصویر شائع کی جاتی ہے جس میں اغلاط کتابت تک کی اصلاح نہیں کی جاتی اور صرف حاشیہ پر لکھ دیا جاتا ہے کہ بظاہر یہ لفظ غلط ہے، صحیح اس طرح ہونا چاہیے۔ دیکھنے والے کا دل تو ایسے مقام پر یہ چاہتا ہے کہ اصل عبارت ہی میں غلط کو کاٹ کر صحیح لفظ لکھ دی گئی ہوتی، مگر صحت نقل کے اظہار کیلئے یہ صورت اختیار کی جایا کرتی ہے، جیسے قرآن مجید میں بعض جگہ تالیف عثمانی کے کاتب نے جو کتابت کی غلطیاں کردی تھیں جیسے ’’ لَا اَ ذبْحَنَّہٗ‘‘ میں ’’ لا‘‘ کے بعد ایک الف جو یقیناً غلط ہے، اس لئے کہ یہ ’’لائے نافیہ‘‘ نہیں،جس کے بعد ’’اَذْبَحَنَّہٗ‘‘ فعل آئے ، بلکہ ’’لام تاکید‘‘ ہے جس سے ’’اَذْبَحَنَّہٗ‘‘ فعل متصل ہے، مگر اس قسم کے اغلاط کو بھی دور کرنا بعد کے مسلمانوں نے صحت نقل کے خلاف سمجھا۔ اسی طرح اِملائے قرآن گویا ایک تعبدی شکل سے معین ہو گیا۔ بعض جگہ ’’رحمۃ‘‘ کی ’’ت‘‘ لمبی لکھی جاتی ہے، بعض جگہ ’’جنّٰت‘‘ بغیر الف کے لکھا جاتا ہے۔ بعض جگہ ’’یدعو‘‘ ایسے فعل واحد میں بھی وہ ’’الف‘‘ لکھا ہوا ہے کہ جو جمع کے بعد غیر ملفوظی ہونے کے باوجود لکھا جایا کرتا ہے۔ ان سب خصوصیات کی پابندی ضروری سمجھی جاتی ہے، جس سے مقصود وثاقتِ نقل میں قوت پیدا کرنا ہے۔ اسی طرح علامہ سیّد رضیؒ نے جس شکل میں جو فقرہ دیکھا اس کو درج کرنا ضروری سمجھا تاکہ کسی قسم کا تصرف کلام میں ہونے نہ پائے۔ یہ ایک درایتی پہلو ہے جو اس تصور کو بالکل ختم کر دیتا ہے کہ یہ کتاب سیّد رضیؒ رحمہ اللہ کی تصنیف کی حیثیت رکھتی ہو۔
دوسرا پہلو خطبوں کے درمیان کے ’’وَمِنْہَا، وَمِنْہُ‘‘ ہیں، جس میں عموماً بعد کا حصہ قبل سے بالکل غیر مرتبط ہوتا ہے، بلکہ ایسا بھی ہوا ہے کہ قبل کا حصہ قبل بعثت سے متعلق ہے یا اوائل بعثت سے اور بعد کا حصہ بعد وفات رسولؐ سے متعلق ہے۔ یہ بھی دیکھنے والے کے ذوق پر بار ہو جایا کرتا ہے، مگر اس سے بھی اس مقصد کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔ اگر سیّد رضیؒ کا کلام ہوتا تو فطری طورپر اس میں تسلسل ہوتا یا ا گر انہیں دو موضوعوں پر لکھنا ہوتا تو اسے وہ دو خطبوں میں مستقل طورپر تحریر کرتے، لیکن وہ کیا کرتے جبکہ انہیں کلام امیر المومنینؑ ہی کا انتخاب پیش کرنا تھا۔ اس لئے جہاں خطبہ کا پہلا جز اور آخر کا جز دو مختلف موضوعوں سے متعلق ہے اور درمیان کا حصہ کسی وجہ سے وہ درج نہیں کر رہے ہیں تو نہ وہ اس کو کلام واحد بنا سکتے ہیں نہ مستقل دو خطبے بلکہ انہیں ایک ہی کلام میں ’’وَ مِنْہَا‘‘ کے فاصلے قائم کرنا پڑتے ہیں۔
میرا خیال یہ ہے کہ یہ شکل بعض جگہ تو انتخاب کی وجہ سے ہوئی ہے اور بعض جگہ یہ بھی وجہ ہو سکتی ہے کہ سابق میں قلمی کتابوں کے سوا کوئی دوسری شکل مواد کے فراہم ہونے کی نہ ہوتی تھی اور قلمی کتابوں کے اکثر نسخے منحصر بفرد ہوتے تھے۔ اب اگر ان میں درمیان کا حصہ کرم خوردہ ہو گیا ہے یا اوراق ضائع ہو گئے ہیں یا رطوبت سے روشنائی پھیل جانے کی وجہ سے وہ ناقابل قرائت ہے تو علامہ سیّد رضیؒ اس موقع پر درمیان کا حصہ نقل کرنے سے قاصر رہے ہیں اور حرص جمع و حفاظت میں انہوں نے اس کے قبل یا بعد یا وسط کے وہ سطور تلاش کئے ہیں جو کسی مستقل مفاد کے حامل ہیں اور اس طرح درمیان کے حصوں میں انہوں نے ’’ وَ مِنْہَا‘‘ کہہ کر اس کے درج کرنے سے عاجزی ظاہر کی ہے۔ یہ بھی ہے کہ اس وقت علم کا ایک بڑاذخیرہ حفاظ و ادباء و محدثین کے سینوں میں ہوتا تھا۔ فرض کیجئے کسی اپنے استاد اور شیخ حدیث سے علامہ سیّد رضیؒ نے کسی موقع کی مناسبت سے خطبہ کا ابتدائی حصہ سن لیا اور انہوں نے اسے فوراً قلم بند کر لیا، پھر دوسرے موقعہ پر انہوں نے ان کی زبان سے اسی خطبہ کے کچھ دوسرے فقرات سنے اور انہیں محفوظ کر لیا اور اتنا موقعہ نہ مل سکا کہ درمیانی اجزا اِن سے دریافت کرکے لکھتے۔ اس طرح انہوں نے اس کی خانہ پری ’’ وَ مِنْہَا‘‘ کے ذریعہ سے کی۔ یہ بھی اس کی دلیل قوی ہے کہ انہوں نے اصل کلام امیر المومنینؑ کے ضبط و حفظ ہی کی کوشش کی ہے، قطعاً کوئی تصرف خود نہیں کرنا چاہا۔
تیسرا شاہد اس کا خود جناب رضیؒ کے وہ مختصر تبصرے ہیں جو کہیں کہیں کچھ خطبوں کے بعد انہوں نے اس کلام کے متعلق اپنے احساسات و تاثرات کے اظہار پر مشتمل درج کر دیئے ہیں یا بعض جگہ کچھ الفاظ کی تشریح ضروری سمجھی ہے۔ ان تبصروں کی عبارت نے ان خطبوں سے متصل ہو کر ہر صاحب ذوق عربی دان کیلئے یہ اندازہ قطعی طور پر آسان کردیا ہے کہ ان تبصروں کا انشاء پرداز وہ ہرگز نہیں ہو سکتا، جو ان خطبوں کا انشاء پرداز ہے۔ جس طرح خود علامہ رضیؒ نے اپنی مایہ ٴ ناز تفسیر حقائق التنزیل میں اعجازِ قرآن کے ثبوت میں پیش کیا ہے کہ باوجودیکہ امیر المومنینؑ کا کلام جو فصاحت و بلاغت میں ما فوق البشر ہے مگر جب خود حضرتؑ کے کلام میں کوئی قرآن کی آیت آ جاتی ہے تو وہ اس طرح چمکتی ہے جس طرح سنگریزوں میں گوہر شاہوار، بالکل اسی شکل سے اگرچہ علامہ سیّد رضیؒ اپنے دور کے افصح زمانہ تھے اور ادب عربی میں معراج کمال پر فائز تھے، مگر نہج البلاغہ میں امیر المومنین ؑکے کلام کے بعد جب ان کی عبارت آ جاتی ہے تو ہر دیکھنے والا محسوس کرتا ہے کہ اس کی نگاہ بلندیوں سے گر کر نشیب میں پہنچ چکی ہے۔ حالانکہ ان عبارتوں میں علامہ سیّد رضیؒ نے ادبیت صرف کی ہے اور اپنی حد بھر اپنی قابلیت دکھائی ہے، مگر سابق کلام کی بلندی کو ہر مطالعہ کرنے والے کیلئے ایک امرِ محسوس کی حیثیت سے ظاہر کردیا۔ یہ بھی ایک بہت بڑا داخلی شاہد ہے، اس تصور کے غلط ہونے کا کہ وہ علامہ سیّد رضیؒ کا کلام ہو۔
چوتھا امر یہ ہے کہ جناب سیّد رضیؒ اپنے دور کے کوئی گمنام شخص نہ تھے۔ وہ دینی و دنیوی دونوں قسم کے ذمہ دار منصبوں پر فائز تھے۔ یہ دور بھی وہ تھا جو مذہب و ملت کے علماء و فضلاء سے بھرا ہوا تھا۔ بغداد سلطنت عباسیہ کا دار السلطنت ہونے کی وجہ سے مرکز علم و ادب بھی تھا۔ خود سیّد رضیؒ کے استاد شیخ مفیدؒ بھی نہج البلاغہ کے جمع و تالیف کے دور میں موجود تھے۔ اس لئے کہ جناب شیخ مفیدؒ علامہ سیّد رضیؒ کی وفات کے بعد تک موجود رہے ہیں اور شاگرد کا انتقال استاد کی زندگی ہی میں ہو گیا تھا اور معاصرین کو تو ایک شخص کے متعلق الزامات کی تلاش رہتی ہے۔ پھر شریف رضیؓ سے تو خود حکومت وقت کو بھی مخاصمت پیدا ہو چکی تھی، اس محضر پر دستخط نہ کرنے کی وجہ سے جو فاطمیین مصر کے خلاف حکومت نے مرتب کیا تھا اور جس پر علامہ رضیؒ کے بڑے بھائی اور ان کے والد بزرگوار تک نے حکومت کے تشدد کی بنا پر دستخط کر دیئے تھے مگر علامہ سیّد رضیؒ نے عواقب و نتائج سے بے نیاز ہو کر اس پر دستخط سے انکار کردیا تھا۔ علاوہ اس کے کہ اس کردار کا شخص جو صداقت کو ایسے قوی ترین محرکات کے خلاف محفوظ رکھے اس طرح کی چھچھوری بات کر ہی نہیں سکتا کہ وہ ایک پوری کتاب خود لکھ کر امیر المومنین علیہ السلام کی جانب منسوب کر دے جس کا غلط ہونا علمائے عصر سے مخفی نہیں رہ سکتا تھا اور اگر بالفرض وہ ایسا کرتے بھی تو ان کے دور میں ان کے خلاف علمائے وقت اور ارکان حکومت کی طرف سے اس الزام کو شدت سے اچھالا جاتا اور سخت سے سخت نکتہ چینی کی جاتی۔ حالانکہ ہمارے سامنے خود ان کے عصر کے علماء کی کتابیں اور ان کے بعد کے کئی صدی تک کے مصنفین کی تحریرات موجود ہیں، ان میں سے کسی میں کمزور سے کمزور طریقہ پر بھی ان کے حالات زندگی میں اس قسم کے الزام کا عائد کیا جانا یا اس بارے میں ان پر کسی قسم کی نکتہ چینی کا ہونا موجود نہیں ہے۔
اس سے ظاہر ہے کہ یہ صرف بر بنائے جذبات نہج البلاغہ کے بعض مندرجات کوا پنے معتقدات کے خلاف پاکر کچھ متعصب افراد کی بعد کی کارستانی ہے جو انہوں نے نہج البلاغہ کو کلامِ سیّد رضی قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ ورنہ خود جناب سیّد رضی اعلیٰ اللہ مقامہ کے دور میں اس کے مندرجات کا کلام امیرالمومنینؑ ہونا بلا تفریق فرقہ و مذہب ایک مسلّم چیز تھی اور اسی لئے ان پر اس بارے میں کوئی الزام عائد نہیں کیا جا سکا۔
پانچواں امر یہ ہے کہ سیّد رضی اعلی اللہ مقامہ کے قبل ایسا نہیں ہے کہ امیر المومنین علیہ السلام کے خطبوں کا کوئی نام و نشان عالم اسلامی میں نہ پایا جاتا ہو، بلکہ کتب تاریخ و ادب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ایک مسلم الثبوت ذخیرہ بحیثیت خطب امیر المومنین ؑکے سیّد رضیؒ کے قبل سے موجود تھا۔ چنانچہ مؤرّخ مسعودی نے جو علامہ سیّد رضیؒ سے مقدم طبقہ میں ہیں، بلکہ ان کی ولادت کے قبل وفات پا چکے تھے (اس لئے کہ علامہ سیّد رضیؒ کا دور شباب ہی میں ۴۰۶ھ میں ا نتقال ہوا ہے اور مسعودی کی وفات ۳۴۰ھ میں ہو چکی تھی، جس وقت سیّد رضیؒ کے استاد شیخ مفیدؒ ہی نہیں، بلکہ ان کے بھی استاد شیخ صدوق محمد بن علی ابن بابویہ قمیؒ بھی زندہ تھے)، مسعودی نے اپنی تاریخ مروج الذہب میں لکھا ہے کہ:
وَ الَّذِیْ حَفِظَ النَّاسُ عَنْہُ مِنْ خُطُبِہٖ فِیْ سَآئِرِ مَقَامَاتِہٖ اَرْبَعَمِائَۃِ خُطْبَۃٍ وَّ نَیِّفٍ وَّ ثَمَانُوْنَ خُطْبَۃً یُّوْرِدُھَا عَلَی الْبَدِیْھَۃِ تَدَاوَلَ النَّاسَ ذٰلِکَ عَنْہُ قَوْلًا وَّ عَمَلًا.
لوگوں نے آپ ؑ(حضرت علیؑ ابن ابی طالبؑ) کے جو خطبے مختلف موقعوں کے محفوظ کر لئے ہیں، وہ چار سو اسی (۴۸۰)سے کچھ زیادہ تعداد میں ہیں جنہیں آپؑ نے فی البدیہ ارشاد فرمایا تھا، جنہیں لوگوں نے نقل قول کے طور بھی بتواتر نقل کیا ہے اور اپنے خطب و مضامین میں ان کے اقتباسات وغیرہ سے بکثرت کام بھی لیتے رہے ہیں۔[۲]
ظاہر ہے کہ یہ چار سو اسّی (۴۸۰)سے کچھ اوپر خطبے ا گر تمام و کمال یکجا کئے جائیں تو بلا شبہ نہج البلاغہ سے بڑی کتاب مرتب ہو سکتی ہے۔ جب یہ ا تنا بڑا ذخیرہ سیّد رضیؒ کی ولادت سے پہلے سے موجود تھا تو پھر علامہ سیّد رضیؒ کو اس کی ضرورت ہی کیا تھی کہ اس ذخیرہ سے کام نہ لیں اور اپنی طرف سے نہج البلاغہ ایسی کتاب کو تحریر کر دیں۔ ایسا اس شخص کیلئے کیا جاتا ہے جو گمنام ہو اور جس کا کارنامہ کوئی موجود نہ ہو اور اس کے اخلاف یا منتسبین خواہ مخواہ اس کو نمایاں بنانے کیلئے اس کی جانب سے کوئی کارنامہ تصنیف کر دیں۔
صرف علامہ مسعودی کا یہ قول ہی اس ذخیرہ کے ثبوت کیلئے کافی تھا، جبکہ اس سے یہ بھی ثابت ہے کہ وہ ذخیرہ آثار قدیمہ کے طورپر کسی دور دراز عجائب خانہ یا کسی ایک عالم کے متروکات میں شامل نہیں تھا جس تک رسائی کسی زحمت کی طلبگار ہوتی ہو، بلکہ ’’حَفِظَ النَّاسُ‘‘ اور ’’ تَدَاوَلَ النَّاسَ‘‘ کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ وہ عموماً اہل علم کے ہاتھوں میں موجود اور متد اول تھا۔ اس کے علاوہ دور عباسیہ کے یگانۂ روزگار کاتب عبد الحمید بن یحیی متوفی ۱۳۲ھ کا یہ مقولہ علامہ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں درج کیا ہے کہ:
حَفِظْتُ سَبْعِيْنَ خُطْبَةً مِّن خُطَبِ الْاَصْلَعِ فَفَاضَتْ ثُمَّ فَاضَتْ.
میں نے ستر خطبے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے ازبر کئے ہیں، جن کے فیوض و برکات میرے یہاں نمایاں ہیں۔[۳]
اس کے بعد ابن المقفع متوفی ۱۴۲ ھ کا اعتراف ہے جسے علامہ حسن الندوبی نے اپنے ان حواشی میں، جو کتاب ’’البیان والتبیین للجاحظ‘‘ پر لکھے ہیں۔ وہ ابن مقفع کے بارے میں لکھتے ہیں:
وَالظَّاهِرُ اَنَّهٗ تَخَرَّجَ فِی الْبَلَاغَةِ عَلٰى خُطَبِ الْاِمَامِ عَلِیٍّ ؑ وَلِذٰلِکَ كَانَ يَقُوْلُ: شَرِبْتُ مِنَ الْخُطَبِ رَيًّا وَّلَمْ اَضْبَطْ لَهَا رَوِيًّا فَفَاضَتْ ثُمَّ فَاضَتْ.
غالباً ابن مقفع نے بلاغت میں امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے خطبوں سے استفادہ کیا تھا اور اسی بنا پر وہ کہتے تھے کہ: میں نے خطبوں کے چشمہ سے سیراب ہوکر پیا ہے اور اسے کسی ایک طریقہ میں محدود نہیں رکھا ہے تو اس چشمہ کے برکات بڑھے اور ہمیشہ بڑھتے رہے۔[۴]
اس کے بعد ابن نباتہ متوفی ۳۷۴ھ۔ یہ بھی سیّد رضیؒ سے مقدم ہیں اور ان کا یہ قول ہے:
حَفِظْتُ مِنَ الْخِطَابَةِ كَنْزًا لَّا يَزِيْدُهُ الْاِنْفَاقُ اِلَّا سَعَةً وَّ كَثْرَةً، حَفِظْتُ مِائَةَ فَصْلٍ مِنْ مَوَاعِظِ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ ۔
میں نے خطابت کا ایک خزانہ محفوظ کیا ہے، جس سے جتنا زیادہ کام لیا جائے، پھر بھی اس میں برکت زیادہ ہی ہوتی رہے گی۔ میں نے سو فصلیں علیؑ ابن ابی طالبؑ کے مواعظ میں سے یاد کی ہیں۔[۵]
ابن نباتہ کے اس قول کا بھی ابن ابی الحدید نے تذکرہ کیا ہے۔
رجال کشی میں ابو الصباح کنانی کے حالات میں لکھا ہے کہ: زید بن علیؑ ابن الحسینؑ کہ جو ’’زید شہید‘‘ کے نام سے مشہور ہیں اور جن کی شہادت امام جعفر صادق علیہ السلام کے زمانۂ امامت میں ہوئی، وہ برابر امیرالمومنین علیہ السلام کے خطبوں کو سنا کرتے تھے۔ابو الصباح کہتے ہیں:
کَانَ يَسْمَعُ مِنِّیْ خُطَبَ اَمِيرِْ الْمُؤْمِنِيْنَ ؑ.
(زید شہید مجھ سے امیر المومنین علی علیہ السلام کے خطبات سنا کرتے تھے(۔[۶]
یہ دوسری صدی ہجری کا ذکر ہے اور اس سے بھی صاف ظاہر ہے کہ ایک ذخیرہ خطبوں کا اس وقت بھی موجود تھا جو مسلم طور پر حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی طرف نسبت رکھتا تھا۔
ان تمام مقامات پر بطور ارسال مسلمات، ’’خطب علیؑ‘‘ کہنا بتاتا ہے کہ اس زمانے میں اس بارے میں کوئی شک و شبہ بھی محسوس نہیں کیا جاتا تھا۔ ورنہ جیسا کئی صدی بعد جب کچھ اغراض کی بنا پر مصنفین نے اس حقیقت کو مشکوک بنانا ضروری سمجھا تو ’’اَلْمَنْسُوْبَۃُ اِلٰی عَلِیٍّ‘‘ کہنے لگے۔ دورِ اوّل میں اس قسم کے شک و شبہ کے اظہار کرنے والی کوئی لفظ پائی نہیں جاتی۔
رجال کبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ زید ابن وہب جہنی متوفی حدود ۹۰ھ نے جو خود حضرت امیر المومنینؑ کے رواۃِ احادیث میں سے ہیں، آپؑ کے خطبوں کو جمع کیا تھا اور اس کے بعد اور متعدد افراد ہیں، جنہوں نے سیّد رضیؒ سے پہلے حضرتؑ کے خطب و اقوال کو جمع کیا جیسے:
۱۔ ہشام ابن محمد ابن سائب کلبی متوفی ۱۴۶ھ۔ ان کے جمع و تالیف کا ذکر فہرست ابن ندیم ج،۷، ص ۲۵۱ میں موجود ہے۔
۲۔ ا براہیم ابن ظہیر فرازی۔ ان کا ذکر فہرست طوسیؒ میں یوں ہے:
صَنَّفَ كُتُبًا مِّنْهَا كِتَابُ الْمَلَاحِمِ، وَ كِتَابُ خُطَبِ عَلِىٍّ ؑ.
متعدد کتابیں تصنیف کیں، منجملہ ان کے کتاب ’’الملاحم ‘‘ اور کتاب ’’خطب علیؑ‘‘ ہے۔[۷]
اور رجال نجاشیؒ میں بھی ان کا تذکرہ ہے۔[۸]
۳۔ ابو محمد مسعدہ بن صدقہ عبدی۔ ان کے متعلّق رجال نجاشی میں ہے:
لَہٗ کُتُبٌ مِّنْھَا کِتَابُ خُطَبِ اَمِيْرِ الْمُؤْمِنِيْنَ ؑ.
ان کے متعدد تصنیفات ہیں جن میں سے ایک ’’کتاب خطب علیؑ ‘‘ہے۔[۹]
۴۔ ابو القاسم عبد العظیم ابن عبد اللہ حسنی جن کا مزار تہران سے تھوڑے فاصلہ پر ’’شاہ عبد العظیم‘‘ کے نام سے مشہور ہے، یہ امام علی نقی علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے۔ ان کے جمع کردہ خطبوں کاذکر رجال نجاشی میں اس طرح ہے:
لَهُ كِتَابُ خُطَبِ اَمِيْرِ الْمُؤْمِنِيْنَ ؑ۔
ان کی ایک کتاب ’’ خطب امیر المومنینؑ‘‘ ہے۔[۱۰]
۵۔ ابو الخیر صالح ابن ابی حماد رازی۔ یہ بھی امام علی نقی علیہ السلام کے اصحاب میں سے ہیں۔ نجاشی میں ہے:
لَهٗ كُتُبٌ مِّنْهَا كِتَابُ خُطَبِ اَمِيْرِ الْمُؤْمِنِيْنَ‏ ؑ۔
منجملہ آپ کی تالیفات کے کتاب ’’خطب امیر المومنینؑ‘‘ ہے۔[۱۱]
۶۔ علی ابن محمد ابن عبد اللہ مدائنی متوفی ۳۳۵ھ۔ انہوں نے حضرتؑ کے خطبوں کو اور ان مکاتیب کو جمع کیا جو حضرتؑ نے اپنے عمال کو تحریر فرمائے تھے۔ اس کا ذکر معجم الادباء، یاقوت حموی جزو ۵، ص ۳۱۳ میں ہے۔
۷۔ ابو محمد عبد العزیز جلودی بصری متوفی ۳۳۰ھ کے تصانیف میں کتاب خطب علیؑ،کتاب رسائل، کتاب مواعظِ علیؑ، کتاب خطب علیؑ فی الملاحم، کتاب دُعاء علیؑ موجود ہیں جن کا تذکرہ شیخ طوسیؒ نے فہرست میں اور نجاشیؒ نے ان کے طویل تصنیفات کے ذیل میں اپنے رجال میں کیا ہے۔
۸۔ ابو محمد حسن بن علی ابن شعبہ حلبی متوفی ۳۲۰ ھء نے اپنی مشہور کتاب ’’تحف العقول‘‘ میں امیر المومنین علیہ السلام کے کچھ کلمات، امثال اور خطب کو درج کرنے کے بعد لکھا ہے:
اِنَّنَا لَوِ اسْتَغْرَقْنَا جَمِيْعَ مَا وَصَلَ اِلَيْنَا مِنْ خُطُبِهٖ وَ كَلَامِهٖ فِی التَّوْحِيْدِ خَاصَّةً دَوْنَ مَا سِوَاهُ مِنَ الْمَعَانِیْ لَكَانَ مِثْلَ جَمِيْعِ هٰذَا الْكِتَابِ‏.
اگر ہم وہ سب لکھنا چاہیں جو ہم تک حضرت علی علیہ السلام کے خطبے اور آپؑ کا کلام صرف توحید کے بارے میں پہنچا ہے، علاوہ دوسرے موضوعات کے تو وہ پوری اس کتاب (تحف العقول(کے برابر ہو گا۔[۱۲]
اب مذکورہ بالا تفصیل پر نظر ڈالی جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ:
پہلی صدی میں ’’زید بن وہب جہنی‘‘ نے حضرتؑ کے خطبوں کا ایک مجموعہ تیار کیا تھا۔
دوسری صدی میں ’’عبد الحمید ابن یحیی کاتب‘‘ اور ’’ابن مقفع‘‘ کے دور میں وہ ذخیرہ مسلّم طورپر موجود تھا اور اس صدی کے وسطی دور دورکےمیں وہ خطبے پڑھے اور سنے جاتے تھے، جیسا کہ زید شہیدؒ کے واقعہ سے ظاہر ہوا اور ادباء اس کو زبانی حفظ کرتے تھے، جیسا کہ عبد الحمید اور ابن مقفّع کے تصریحات سے ظاہر ہوا۔
اور تیسری صدی میں متعدد مصنفین نے جو جو خطبے ان تک پہنچے تھے، ان کو مدوّن کیا۔ ایسی صورت میں جناب سیّد رضیؒ کو اس کی ضرورت ہی کیا تھی کہ وہ ان تمام ذخیروں کو نظر انداز کر کے یہ دماغی کاوش و کاہش گوارا کریں کہ وہ از خود کلام امیر المومنینؑ کے نام سے کوئی چیز تصنیف کریں۔
چھٹا امر یہ ہے کہ ان تمام ذخیروں کے سابق سے موجود ہونے کے بعد ظاہر ہے کہ علامہ سیّد رضیؒ کیلئے یہ تو قطعی ممکن نہیں تھا کہ وہ ان تمام ذخائر کو تلف کرا دیتے اور پھر اسی کی ترویج کرتے جو انہوں نے کلامِ امیر المومنینؑ قرار دیا تھا۔ یہ قطعی ناممکن تھا۔ اگر وہ ذخیرہ کسی ایک مصنف کے پاس، کسی ایک دور دراز جگہ ہوتا، تو یہ امکان بھی تھا، جیسا کہ مشہور ہے کہ شیخ ابو علی سینا نے فارابی کی تمام مصنفات کو کسی شخص سے حاصل کرکے انہیں تلف کر دیا اور ان چیزوں کو اپنی طرف منسوب کر لیا۔ یہاں یہ صورت قطعاً ناممکن تھی، جبکہ وہ کلام ادباء کے سینوں میں محفوظ تھا، اطراف و اقطار عالم اسلامی میں منتشر تھا اور بہت سے مصنّفین اس کی تدوین کر چکے تھے۔ پھر جبکہ سیّد رضیؒ کی تصنیف کے ساتھ ان ذخائر کا موجود ہونا لازمی تھا تو اگر سیّد رضیؒ کا جمع کردہ کلام اس ذخیرہ سے مختلف ہوتا یا اسلوب بیان میں اس سے جدا ہوتا تو وہ تمام ادبائے زمانہ، خطبائے روزگار، علمائے وقت جو اس کلام کود یکھے ہوئے، پڑھے ہوئے یا یاد کئے ہوئے تھے، صدائے احتجاج بلند کر دیتے، ان میں تلاطم ہو جاتا اور سیّد رضیؒ تمام دنیا میں اس کی وجہ سے بدنام ہو جاتے۔ کم از کم کوئی ان کے ہم عصر ادباء میں سے اس کی تنقید ہی کرتا ہوا ایک کتاب ہی اس موضوع پر لکھ دیتا کہ امیرالمومنین علیہ السلام کا جو کلام اب تک محفوظ رہا یہ سیّد رضیؒ کے جمع کئے ہوئے ذخیرہ سے مختلف ہے۔ خصوصاً جب وہ وجہ جو بعد میں ایک طبقہ کو اس باب میں انکار یا تشکیک کی موجب ہوئی، جس کی تفصیل کسی حد تک آئندہ درج ہو گی۔ وہ ایک مذہبی بنیاد تھی، یعنی یہ کہ نہج البلاغہ میں ان افراد کے بارے میں جنہیں سواد اعظم قابل احترام سمجھتا ہے کچھ تعریضات یا انتقادی کلمات ہیں۔
ظاہر ہے کہ نہج البلاغہ سلطنت عباسیہ کے دار السلطنت میں لکھی گئی جو اہل سنت کا علمی مرکز تھا۔ اس وقت بڑے بڑے علما، حفاظ، ادباء، خطباء، اہل سیر اور محدثین اہل سنت میں موجود تھے اور ان کا جم غفیر خاص بغداد میں موجود تھا۔ اگر امیر المومنین علیہ السلام کے وہ خطبات جو ابن مقفع، ابن نباتہ، عبدالحمید ابن یحیی، جاحظ اور دیگر مسلّم الثبوت ادباء کے دور میں موجود تھے، ان تعریضات سے خالی تھے اور اس قسم کے مضامین ان میں نہ تھے، بلکہ فطری طورپر اس صورت میں اس کے خلاف چیزوں پر انہیں مشتمل ہونا چاہیے تھا، تو اس وقت کے اہل سنت کے علماء اس پر قیامت برپا کر دیتے اور اس کو اپنے مذہب کے خلاف ایک عظیم حملہ تصور کر کے پورے طور سے اس کا مقابلہ کرتے اور اس کی دھجیاں اُڑا دیتے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا، کوئی دھیمی سی آواز بھی اس کے خلاف بلند نہیں ہوئی۔ یہ اس کا قطعی ثبوت ہے کہ سیّد رضیؒ کے جمع کردہ مجموعہ میں کوئی نئی چیز نہ تھی، بلکہ وہ وہی تھا جو اس کے پہلے مضبوط و مدون، متداول و محفوظ رہا تھا، علماء قطعاً اس سے اجنبیت نہ رکھتے تھے، بلکہ اس سے مانوس اور اس کے سننے کے اور یاد کرنے کے عادی تھے۔ وہ اس ادبی ذخیرہ کو اس کی ادبی افادیت کے اعتبار سے سر آنکھوں پر رکھتے تھے اور اس تنگ نظری میں مبتلا نہ تھے کہ چونکہ اس میں کچھ چیزیں ہمارے مذہب کے خلاف ہیں، اس لئے اس کا انکار کیا جائے یا اس سے اجنبیت برتی جائے۔
ساتواں امر یہ ہے کہ بہت سی کتابیں علامہ سیّد رضیؒ کے قبل کی اس وقت بھی ایسی موجود ہیں،جن میں امیر المومنین علیہ السلام کے اکثر مواقع کے کلام یا خطبات کو کسی مناسبت سے ذکر کیا ہے جیسے:
جاحظ متوفی ۲۵۵ ھ کی ’’البیان والتبیین‘‘
ابن قتیبہ دینوری متوفی ۲۷۶ ھ کی ’’عیون الاخبار و غریب الحدیث‘‘
ابن واضح یعقوبی متوفی ۲۷۸ ھ کی مشہور ’’تاریخ ‘‘
ابوحنیفہ دینوری متوفی ۲۸۰ ھ کی ’’الاخبار الطوال‘‘
ابوالعباس المبرد متوفی ۲۸۶ ھ کی ’’کتاب المبرد‘‘
مشہور مؤرخ ابن جریر طبری متوفی ۳۱۰ھ کی ’’تاریخ کبیر‘‘
ابن درید متوفی ۳۲۱ھء کی کتاب’’ المجتنی‘‘
ابن عبد ربہ متوفی ۳۲۸ ھ کی ’’عقد الفرید‘‘
ثقۃ الاسلام کلینی متوفی ۳۲۹ ھ کی مشہور کتاب ’’الکافی ‘‘
مسعودی متوفی ۳۴۶ ھ کی تاریخ ’’مروج الذہب‘‘
ابو الفرج اصفہانی متوفی ۳۵۶ ھ کی کتاب ’’اغانی ‘‘
ابو علی قالی متوفی ۳۵۶ ھ کی کتاب ’’النوادر ‘‘
شیخ صدوق متوفی ۳۸۱ ھ کی کتاب ’’التوحید ‘‘ اور ان کے دوسرے جوامع حدیث۔
شیخ مفید رحمہ اللہ، متوفی ۴۱۶ ھ (اگرچہ تاریخ وفات کے اعتبار سے جناب رضیؒ سے مؤخر ہیں مگر ان کے استاد ہونے کی وجہ سے طبقۃً مقدم ہیں( ان کی کتب ’’الارشاد ‘‘ اور ’’کتاب الجمل‘‘ و ......ہیں)۔
ان تمام کتابوں میں جو حضرت کے خطبے درج ہیں، ان کا جب مقابلہ علامہ سیّد رضیؒ کے مندرجہ خطب اور اجزاء کلام سے کیا جاتا ہے تو اکثر تو وہ بالکل متحد ہوتے ہیں اور نہج البلاغہ میں ایسا درج شدہ کلام اگر کوئی ہے جو ان کتابوں میں درج نہیں ہے یا ان کتابوں میں کوئی کلام ایسا ہے جو نہج البلاغہ میں مذکور نہیں ہے تو اسلوب بیان اور انداز کلام، تسلسل و بلند آہنگی، جوش و حقائق نگاری کے لحاظ سے یقیناًمتحد ہوتا ہے، جس میں کسی واقف عربیت کو شک نہیں ہو سکتا۔ امیر المومنین علیہ السلام کے اس کلام کا جو نہج البلاغہ میں درج ہے اس تمام کلام سے جو حضرتؑ کی طرف نسبت دے کر اور دوسری کتابوں میں درج ہے متحد الاسلوب ہونا، پھر اس پہلو کے ضمیمہ کے ساتھ جس کا پہلے تذکرہ ہو چکا ہے کہ وہ خود سیّد رضیؒ کے اس کلام سے جو نہج البلاغہ میں بطور مقدمہ یا تبصرہ موجود ہے، بالکل مختلف ہونا، ایک غیر جانبدار شخص کیلئے اس کا کافی ثبوت ہے کہ یہ واقعی امیر المومنین علیہ السلام ہی کاکلام ہے جسے علامہ سیّد رضیؒ نے صرف جمع کیا ہے۔
آٹھواں امر یہ ہے کہ خود علامہ سیّد رضیؒ کے معاصرین یا ان سے قریب العہد متعدد لوگوں نے بطور خود بھی کلام امیر المومنینؑ کے جمع کرنے کی کوشش کی ہے اور بعض نے اپنی کتابوں کے ضمن میں درج کیا ہے جیسے:ابن مسکویہ متوفی ۴۲۱ ھء نے ’’تجارب الامم‘‘ میں، حافظ ابو نعیم اصفہانی متوفی ۴۳۰ ھ نے ’’حلیۃ الاولیاء‘‘ میں، شیخ الطائفہ ابوجعفر طوسی متوفی ۴۶۰ ھ نے (جو شیخ مفید رحمہ اللہ سے تلمذ کی حیثیت سے علامہ رضیؓ کے ہم طبقہ اور علم الہدیٰ سیّد مرتضیٰ ؒکے شاگرد ہونے کی حیثیت سے اور نیز سال وفات کے ا عتبار سے ان سے ذرا مؤخر ہیں(اپنی کتاب، ’’تہذیب‘‘ اور کتاب ’’الامالی‘‘ میں، نیز عبد الواحد ابن محمد ابن عبد الواحد آمدی جواسی عصر کے تھے اپنی مستقل کتاب ’’غرر الحکم و درر الکلم‘‘ جو امیر المومنین علیہ السلام کے مختصر کلمات پر مشتمل ہے اور مصر وصیدا اور ہندوستان میں طبع ہو چکی ہے اور اس کا اردو میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے۔
نیز ابو سعید منصور ابن حسین آبی وزیر متوفی ۴۲۲ھ اپنی کتاب ’’نزہۃ الادب و نثر الدرر‘‘ میں جس کا ذکر ’’کشف الظنون‘‘ باب النون میں ہے اور قاضی ابو عبد اللہ محمد بن سلامہ قطاعی شافعی متوفی ۴۵۳ھ جن کی عظیم الشان کتاب اس موضوع پر ’’دستور معالم الحکم‘‘ کے نام سے ہے اور وہ مصر میں طبع ہو چکی ہے، یہ سب تقریباً سیّد رضیؒ کے معاصرین ہی ہیں، ان سب کی کاوشیں ہمارے سامنے موجود ہیں، سوائے ابو سعید منصور کی کتاب کے جس کا کشف الظنون میں تذکرہ ہے، باقی یہ سب کتابیں مطبوع و متداول ہیں، ان میں جو کلام مندرج ہے وہ بھی علامہ سیّد رضیؒ کے درج کردہ کلام سے عیناً متحد یا اسلوب میں متفق ہی ہے۔
پھر اگر سیّد رضیؒ کی نسبت یہ تصور کیا جائے کہ انہوں نے خود اس کلام کو تصنیف کردیا ہے تو ان تمام جامعین اور اپنی کتابوں کے ضمن میں درج کرنے والے دوسرے افراد کو کیا کہا جائے گا۔ پھر ان کی نسبت بھی یہی تصور کرنا چاہیے، جبکہ ان میں سے سب یا زیادہ افراد یقینا ًجلالت شان اور ورع و تقویٰ وغیرہ میں علامہ سیّد رضیؒ سے بالا تر نہیں معلوم ہوتے۔
اب اگر ان سب کی نسبت یہی خیال کیا جائے، تو خیر علامہ سیّد رضیؒ تو اشعر الطالبین تھے اور کتب سیرانہیں خود ادبیت اور فصاحت و بلاغت میں معراج کمال پر ظاہر کرتے ہیں ، مگر ان میں سے ہر شخص کی نسبت تو یہ تصور قطعی غلط ہے کہ وہ سب علامہ سیّد رضیؒ ہی کے ادبی حیثیت سے ہم پایہ تھے، پھر ایسے مختلف المرتبہ اشخاص کی ذہنی کاوشوں اور قلمی ثمرات میں اتنا ہی فرق کیوں نہیں ہے، جو خود ان اشخاص کے مبلغ علمی میں یقینی طورپر پایا جاتا ہے۔ اشخاص کہ جو کلام کے جمع کرنے والے ہیں، ان میں آپس میں زمین و آسمان کا فرق اور کلام جو انہوں نے جمع کیا ہے وہ سب ایک ہی مرتبہ ، ایک ہی شان کا، اسے دیکھتے ہوئے سوائے ایسے شخص کے جو جان بوجھ کر حقیقت کے انکار کرنے پر تلا ہوا ہو اور کسی کو اس میں شک و شبہ بھی باقی نہیں رہ سکتا کہ ان اشخاص کا کارنامہ صرف جمع و تالیف ہی ہے، جس میں ان کے سلیقہ اور ذوق کا اختلاف فقط شان ترتیب اور عنوان تالیف میں نمودار ہوتا ہے، لیکن اصل کلام میں ان کی ذاتی قابلیت، ذہانت اور مبلغ علمی اور معیار ادبی کو ذرّہ برابر بھی دخل نہیں ہے۔
نواں امر یہ ہے کہ مذکورہ بالا افراد اگرچہ اپنے زمانۂ حیات کے کچھ حصوں میں علامہ سیّد رضیؒ سے متحد ہیں، مگر ان میں سے متعدد افراد کے سال وفات کو دیکھتے ہوئے یہ یقین ہے کہ ان کا زمانہ جمع وتالیف نہج البلاغہ سے مؤخر ہے اور اس کے بعد ایک ایسا طبقہ ہے جو بالکل علامہ سیّد رضیؒ سے مؤخر ہی ہے۔ جیسے ابن ابی الحدید متوفی ۶۵۵ھ، سبط ابن جوزی متوفی ۶۰۶ھ اوراس کے بعد بہت سے مصنفین۔ ظاہر ہے کہ علامہ رضیؒ کی کتاب نہج البلاغہ گوشۂ گمنامی میں اور ان لوگوں سے مخفی نہ تھی۔ ان لوگوں کا محرک اس جمع و تالیف پر صرف یہ تھا کہ علامہ سیّد رضیؒ نے انتخاب سے کام لیتے ہوئے یا ماخذوں کی کمی سے یا ان نسخوں کے کرم خوردہ یا ناقص ہونے کی وجہ سے جو ان کے پاس تھے، بہت سے اجزائے کلام امیر المومنینؑ کے نقل نہیں بھی کئے تھے۔ اس لئے مصنفین کو مستدرک اور مستدرک در مستدرک کی ضرورت پڑتی رہی، جس کا سلسلہ ماضی قریب میں علامہ شیخ ہادی آل کاشف الغطاءؒ تک جاری رہا جنہوں نے ’’مستدرک نہج البلاغہ‘‘ تحریر فرمایا جو نجف اشرف میں طبع ہو چکا ہے۔
اگر علامہ سیّد رضیؒ کے قریب العہد یا ان کے بعد کے اہل قلم میں کسی کو بھی نہج البلاغہ کے مندرجہ کلمات و خطب میں یہ خیال ہوتا کہ یہ جناب سیّد رضیؒ نے تصنیف کر کے اس میں شامل کر دیئے ہیں تو وہ سب بالخصوص معاصرین جو کسی رعایت کیلئے کبھی تیار نہیں ہوتے، اپنی کتابوں کی وجہ تالیف میں اس کا تذکرہ ضروری سمجھتے کہ چونکہ اس کے قبل جو کتاب امیر المومنینؑ کے خطبوں پر مشتمل کہہ کر لکھی گئی ہے اس میں آپؑ کا اصل کلام موجود نہیں ہے، بلکہ وہ ساختہ و پرداختہ اور وضعی ہے، اس لئے ہمیں ضرورت محسوس ہوئی کہ ہم آپؑ کا اصلی کلام منظر عام پر لائیں، جبکہ ایسا نہیں ہوا اور یہ بالکل مشاہدہ ہے کہ ایسا نہیں ہوا تو ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ ان سب کے نزدیک علامہ سیّد رضیؒ نے جو کلام جمع کیا وہ بلاشبہ کلام امیر المومنینؒ کی حیثیت سے اس کے پہلے سے مدوّن و متداول تھا اور ان کو سیّد رضیؒ سے شکایت صرف بعض خطبوں کو چھوڑ دینے یا احاطہ و استقصاء نہ کرنے یا شان ترتیب و عنوان تالیف میں کسی مناسب تر صورت کو اختیار نہ کرنے ہی کی تھی جس کیلئے انہوں نے بھی اس بارے میں کوشش ضروری سمجھی، جس کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے اور ممکن ہے کہ بعض مصنفین اب بھی کسی خاص ترتیب سے نہج البلاغہ کے مندرجہ خطب کو دیکھنے کے متمنی ہوں۔ یہ دوسری چیز ہے اورا صل کلام کے بارے میں کسی شک و شبہ کا رکھنا دوسری چیز ہے۔
دسواں امر یہ ہے کہ تلاش کی جاتی ہے تو نہج البلاغہ کے مندرجہ خطب و اقوال کا پتہ اب بھی بعیون الفاظہا نہج البلاغہ کے قبل تالیف شدہ کتابوں میں مل جاتا ہے اور جبکہ اکثر حصہ اس کا قبل کی کتابوں میں مندرج موجود ہے تو تھوڑا سا حصہ اگر دستیاب نہ بھی ہو تو ایک معتدل ذہن میں اس سے کوئی شک و شبہ پیدا نہیں ہو سکتا، جبکہ یہ معلوم ہے کہ دنیا میں مختلف حوادث کے ذیل میں کتابوں کے اتنے ذخیرے تلف ہوئے ہیں جو اگر موجود ہوتے تو یقیناً موجودہ ذخائر سے بدرجہا زیادہ ہوتے۔ خود تاریخ نے کلام امیر المومنینؑ کے جن جمع شدہ ذخیروں کا پتا علامہ سیّد رضیؒ کے قبل ہم تک پہنچا دیا ہے وہی سب اس وقت کہاں موجود ہیں؟ اس لئے اگر بعض مندرجات رائج الوقت کتابوں میں نہیں بھی ملتے تو ذہن یہی فیصلہ کرتا ہے کہ ان کتابوں میں موجود ہوں گے، جن تک ہماری اس وقت دسترس نہیں ہے۔ نہج البلاغہ کے مندرجات کے ان حوالوں کو پہلے علامہ شیخ ہادی کاشف الغطاءؒ نے مستدرک نہج البلاغہ کے اثناء تالیف ہی میں مدارک نہج البلاغہ کے نام سے مرتب کیا تھا، جو غالباً مکمل شائع نہیں ہوا ہے اور ایک قابل قدر کوشش رامپور کے ایک سنی فاضل عرشی صاحب نے کی ہے جو ’’فاران ‘‘ کراچی میں مقالہ کی صورت میں شائع ہوئی ہے اور مزید تلاش کی جائے تو اس سلسلہ میں مزید کامیابی کا بھی امکان ہے۔
گیارہواں امریہ ہے کہ محققین علمائے شیعہ کا رویہ دیکھا جائے تو وہ ہر اس کتاب یا مجموعہ کو جو معصومین علیہ السلام میں سے کسی کی طرف منسوب ہو بلا چون و چرا صرف اس لئے تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہوجاتے کہ وہ معصومین علیہ السلام کی جانب منسوب ہے، بلکہ وہ پوری فراخ حوصلگی کے ساتھ محققانہ فریضہ کو انجام دیتے ہوئے۔ اگر وہ قابل انکار ہوتا ہے تو کھل کر اس کا انکار کر دیتے ہیں اور اگر مشکوک ہوتا ہے تو شک و شبہ کا اظہار کردیا کرتے ہیں اور اس طرح بہت سے وہ ذخیرے جو کلام معصومینؑ کے نام سے موجود ہیں، مقام اعتبار میں مختلف درجے اختیار کر چکے ہیں۔
مثلاً ’’دیوان امیر المومنینؑ‘‘ بھی تو بطور کلام علیؑ ہی رائج ہے مگر علمائے شیعہ بلا رو رعایت اسے غلط سمجھتے ہیں۔ اس سے بالاتر ذرا درجہ ’’تفسیر امام حسن عسکریؑ‘‘ کا ہے، حالانکہ وہ شہرت میں تقریباً نہج البلاغہ سے کم نہیں ہے اور شیخ صدوقؒ ایسے بلند مرتبہ قدیم محدث نے اس پر اعتماد کیا ہے مگر اکثر علمائے شیعہ اسے تسلیم نہیں کرتے، اثبات میں لکھ دیا ہے۔ ’’فقہ الرضاؑ‘‘، امام رضا علیہ السلام کی طرف منسوب ہے مگر اس کے اعتبار اور عدم اعتبار کی بحث ایک مہتم بالشان علمی مسئلہ بن گئی ہے جس پر مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں۔ اسی طرح ’’جعفریات‘‘ اور امام رضا علیہ السلام کا ’’رسالہ ذہبیہ‘‘ وغیرہ کوئی نقد و بحث سے نہیں بچا ہے۔
اس رویہ کے باوجود سیّد رضیؒ کے بعد سے اس وقت تک کسی دور میں بھی کسی شیعہ عالم کا نہج البلاغہ کے خلاف آواز بلند نہ کرنا اور اس میں ذرہ بھر بھی شک و شبہ کا اظہار نہ کرنا اس کا ثبوت قطعی ہے کہ ان سب کی نظر میں اس کی حیثیت ان تمام مجموعوں سے ممتاز اور جدا گانہ ہے۔ نہج البلاغہ کے ہم پلہ اس حیثیت سے اگر کوئی کتاب ہے تو صرف صحیفہ کاملہ جو اسی طرح مسلم طور پر امام زین العابدین علیہ السلام کے کلام کا مجموعہ ہے اور کوئی کتاب اس ذیل میں ان دونوں کے ہم مرتبہ نہیں ہے۔
مذکورہ بالاوجوہ کا نتیجہ یہ ہے کہ علامہ سیّد رضیؒ کے بعد تقریباً دو ڈھائی سو برس تک نہج البلاغہ کے خلاف کوئی آواز اٹھتے ہوئے معلوم نہیں ہوتی، بلکہ متعدد علمائے اہل سنت نے اس کی شرحیں لکھیں جیسے ابو الحسن علی ابن ابی القاسم بیہقی، متوفی ۵۶۵ھ، امام فخر الدین، متوفی ۶۰۶ھ، ابن ابی الحدید، متوفی ۶۵۵ ھ، علامہ سعد الدین تفتازانی وغیرہ۔
غالباً انہی علمائے اہل سنت کے شروح وغیرہ لکھنے کا یہ نتیجہ تھا کہ عوام میں نہج البلاغہ کا چرچا پھیلا اور اس کے ان مضامین کے بارے میں جو خلفائے ثلاثہ کے بارے میں ہیں اہلسنت میں بے چینی پیدا ہوئی اور اب آپس میں بحثیں شروع ہو گئیں اور اس کی وجہ سے علماء کو اپنے اصولِ عقائد سنبھالنے کیلئے اور عوام کو تسلی دینے کیلئے نہج البلاغہ کے بارے میں شکوک و شبہات اور رفتہ رفتہ انکار کی ضرورت پڑی۔ چنانچہ سب سے پہلے ابن خلکان متوفی ۶۸۱ ھ نے اس کو مشکوک بنانے کی کوشش کی اور علامہ سیّد مرتضیٰؒ کے حالات میں یہ لکھا کہ:
قَدِ اخْتَلَفَ النَّاسُ فِیْ كِتَابِ نَهْجِ الْبَلَاغَةِ الْمَجْمُوْعِ مِنْ كَلَامِ الْاِمَامِ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ رَضِىَ اللّٰهُ عَنْهُ ، هَلْ هُوَ جَمَعَهٗ ، اَمْ جَمَعَهٗ اَخُوْہُ الرَّضِیُّ ؟ وَقَدْ قِيْلَ : اِنَّهٗ لَيْسَ مِنْ كَلَامِ عَلِیٍّ، وَ اِنَّمَا الَّذِیْ جَمَعَهٗ وَ نَسَبَهٗ اِلَيْهِ هُوَ الَّذِیْ وَضَعَهٗ، وَاللّٰہُ اَعْلَمُ.
لوگوں میں کتاب نہج البلاغہ کے بارے میں جو امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے کلام کا مجموعہ ہے، اختلاف ہے کہ وہ انہی (سیّد مرتضیٰؒ(کا جمع کردہ ہے یا ان کے بھائی سیّد رضیؒ کا اور بعض کہتے ہیں کہ: یہ جناب امیرالمومنین علیہ السلام کا کلام ہی نہیں ہے، بلکہ جسے جامع سمجھا جاتا ہے اسی کی یہ تصنیف ہے۔ واللہ اعلم۔[۱۳]
یہ امر بہت قابل لحاظ ہے کہ نہج البلاغہ کے بارے میں اختلافی آواز ڈھائی صدی کے بعد بھی نہج البلاغہ کے تالیف کے مرکز یعنی بغداد یا ملک عراق کے کسی شہر سے بلند نہیں ہوئی، بلکہ مغربی مملکت جہاں بنی امیہ کی سلطنت تھی اور قیروان و قرطبہ میں جس سلطنت کے زیر اثر علماء کی پرورش ہو رہی تھی وہاں ابن خلکان مغربی کی زبان سے یہ آواز بلند ہورہی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ لوگ جنہیں ’’اِخْتَلَفَ النَّاسُ‘‘ کہا جا رہا ہے، یہ مسلمان دار الخلافہ کے کوئی ذمہ دار افراد نہیں ہیں ورنہ ’’اِخْتَلَفَ الْعُلَمَاءُ‘‘ ،’’اِخْتَلَفَ الْمُحَقِّقُوْنَ‘‘ ،’’اِخْتَلَفَ الْاُدَبَاءُ‘‘ ایسے کوئی وقیع الفاظ درج کئے جاتے ،بلکہ یہ ’’النَّاس‘‘ اموی سلطنت کے پرودرہ مملکت مغربیہ کے سنی عوام ہیں جنہیں یہ خبر تک نہیں ہے کہ یہ کتاب سید رضیؒ کی جمع کردہ ہے یا سید مرتضیٰ کی اور یہ جناب ابن خلکان کا تقیہ ہے کہ وہ خود اپنی اطلاعات کو جو اس کتاب اور اس کے جامع کے بارے میں یقیناً ان کو تھے، پیش نہیں کرتے، بلکہ عوام کے جذبات کی تسلی کیلئے خود انہی عوام کے اختلافات کی ترجمانی کر دینا مناسب سمجھتے ہیں کہ: ’’بعض لوگ اسے سید مرتضیٰ کا جمع کردہ کہتے ہیں اور بعض سید رضیؒ کا‘‘ اور خود ان کے ضمیر کا فیصلہ پہلے آ جاتا ہے کہ جمع کرنے والا کوئی بھی ہو، لیکن ہے وہ کلام امیر المومنینؑ ہی کا۔ اور پھر عوامی جذبات کو دھچکا پہنچنے کے اندیشے سے وہ بعض ان متعصب، مجہول الاسم و الرسم اشخاص کے اس عذر کو جو اس کے مضامین کے تسلیم کرنے سے گریز کیلئے وہ مقام مناظرہ میں پیش کرتے تھے کہ ہم اسے کلام علیؑ ہی تسلیم نہیں کرتے، وہ ’’قِيْلَ ‘‘ کہہ کے ذکر کر دیتے ہیں کہ: ’’بعض ایسا کہتے ہیں کہ یہ امیر المومنین علیہ السلام کا کلام ہے ہی نہیں، بلکہ جس نے جمع کیا ہے اسی نے اس کو تصنیف کردیا ہے‘‘۔ یہ خود ’’قِيْلَ‘‘ اس قول کے ضعف کیلئے کافی تھا لیکن خود ان کا ضمیر اس ’’قِيْلَ‘‘ سے چونکہ مطمئن نہیں ہے، لہٰذا آخر میں ’’وَ اللہُ اَعْلَمُ‘‘ کہہ کے وہ اس میں مزید شک و شبہے کا اظہار کر دینا چاہتے ہیں۔ اس سے صرف یہ پتا چلتا ہے کہ ابن خلکان اس بارے میں اپنے فیصلے کو ماحول کے دباؤ سے ظاہر کرنا نہیں چاہتے اور وہ صرف عوام کی باہمی چہ مگوئیوں کا تذکرہ کرکے اپنا دامن بچالے جانا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی تشکیک کا علمی دنیا میں کوئی وزن ہی نہیں مانا جا سکتا۔
ڈوبتے کو تنکے کا سہارا بہت ہوتا ہے۔ اگرچہ علامہ ابن خلکان نے اپنے ضمیر کی تحریک سے بہت حد تک اپنے کو نہج البلاغہ کے انکار کی ذمہ داری سے بچایا تھا، مگر اُن کے اِن الفاظ نے بعد والے میدان مناظرہ کے پہلوانوں کو آسانی سے یہ داوٴ بتا دیا کہ وہ نہج البلاغہ کے کلام امیر المومنینؑ ہونے کا انکار کر دیں۔ چنانچہ اس کے ایک صدی کے بعد ذہبی نے جو اپنے دور کے انتہائی متعصب شخص تھے، یہ جراٴت کی کہ وہ اس شک کو یقین کا درجہ دے دیں اور انہوں نے سید مرتضیٰ ؒکے حالات میں لکھ دیا کہ:
مَنْ طَالَعَ كِتَابَهٗ نَهْجَ الْبَلَاغَةِ جَزَمَ بِاَنَّهٗ مَكْذُوْبٌ عَلٰى اَمِيْرِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلِیٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَفِيْهِ السّبُّ الصَّرِیْحُ وَ الْحَطُّ عَلٰى السَّیِّدَیْنِ اَبِیْ بَكْرٍ وَّ عُمَرَ.
جو شخص ان کی کتاب نہج البلاغہ کو دیکھے وہ یقین کر سکتا ہے کہ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کی طرف اس کی نسبت بالکل جھوٹ ہے۔ اس لئے کہ اس میں کھلا ہوا سب و شتم اور ہمارے دونوں سرداروں ابوبکر و عمر کی تنقیص ہے۔[۱۴]
اب آپ ذرا اس عجیب رفتار کو دیکھئے کہ تالیف نہج البلاغہ سے دو ڈھائی سو برس بعد یعنی ابن خلکان کے عہد تک تو اختلاف یا شک و شبہ کا بھی نہج البلاغہ کے بارے میں پتہ نہیں چلتا۔ اس کے بعد ابن خلکان ملک مغرب میں بیٹھ کر عوام الناس کے اختلاف کا اس بارے میں اظہار کرتے ہیں کہ: یہ سیّد مرتضیٰؒ کی جمع کردہ کتاب ہے یا سیّد رضیؒ کی اور ایک ضعیف قول اس کا بیان کرتے ہیں کہ اس کی نسبت امیر المومنین علیہ السلام کی جانب غلط ہے اور پھر ’’واللہ اعلم‘‘ کہہ کر اس تغلیط کو مشکوک کرتے ہیں۔
یہ اس وقت جبکہ قرب عہد کی وجہ سے پھر بھی ذرائع اطلاع زیادہ ہو سکتے تھے اور اس کے ایک صدی کے بعد ذہبی پہلے تو بیک گردش قلم اس اختلاف کو جو جامع کے بارے میں تھا، ختم کر کے اسے سیّد مرتضیٰ ؒکا کارنامہ قرار دے دیتے ہیں اور پھر اس شک کو یقین کا درجہ دے کر یہ کہتے ہیں کہ جو بھی نہج البلاغہ کا مطالعہ کرے وہ ایسا ہی یقین کرے گا۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ ان کے وقت تک تین سو برس میں گویا کسی نے اس کتاب کا مطالعہ ہی نہ کیا تھا یا انہیں کوئی ایسی عینک ملی ہے جو اس سے پہلے کسی کے پاس نہ تھی اور اب وہ اسی عینک سے اپنے دور کے بعد ہر شخص کو نہج البلاغہ کے مطالعہ کی دعوت دے رہے ہیں۔ وہ عینک کیا ہے؟ اسے خود اپنے آخر کلام میں درج کر دیتے ہیں۔
علمی حیثیت سے، اصول روایت کے لحاظ سے، تنقیدی قوانین کے پیش نظر انہیں چاہیے تھا کہ اس کی نسبت غلط ہونے کے ثبوت میں امیر المومنینؑ کا وہ مسلّم کلام پیش کرتے جو سیّد رضیؒ کے علاوہ دوسرے مستند ماخذوں سے ان کے نزدیک مسلم ہوتا اور وہ سیّد رضیؒ کے مندرجہ مضامین سے مختلف ہوتا۔ خود سیّد رضیؒ کے زمانہ والے مصنفین کے انتقادات کا حوالہ دیتے کہ انہوں نے بھی اسے غلط قرار دیا ہے۔ اس تین سوبرس کی مدت میں دوسرے علماء و ناقدین نے جو کچھ اس کی ردّ و قدح کی ہوتی اسے پیش کرتے مگر ان کے جیب و دامن تحقیق میں کوئی ایسی سند موجود نہیں ہے۔
ان کی دلیل اس نسبت کے یقینی طورپر جھوٹ ہونے کی صرف یہ ہے کہ اس میں ان کے دو سرداروں کی تنقیص ہے۔ کیا علمی دنیا میں اس دلیل کی کوئی قیمت ہو سکتی ہے۔ یہ بالکل ایسا ہے جیسے قرآن نازل ہونے کے چند صدی بعد کوئی طبقہ مشرکین کا، قرآن کے کلام الٰہی ہونے سے صرف اس لئے انکار کرے کہ اس میں ان کے اٰلِہَہ کے خلاف تنقیص و مذمت کی آیتیں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ حقیقت کو اپنے جذبات کا تابع بناکر اگر جانچا جائے، تو کوئی حقیقت باقی ہی نہیں رہ سکتی ﴿وَلَوِ اتَّبَعَ الْحَـقُّ اَهْوَآءَهُمْ لَفَسَدَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ﴾ ©۱۵®۔
اس دروازہ کے کھل جانے کے بعد تمام اصول روایت و درایت معطل و بیکار ہوجاتے ہیں۔ اس لئے کہ ہر عقیدہ اور خیال کا انسان پھر ہر قوی سے قوی نص کو صرف اس بناپر ردّ کر دے گا کہ وہ اس کے عقیدہ اور خیال کے خلاف ہے۔ جہاں تک خلفائے ثلاثہ کے مقابل میں شیعوں کے استدلال کا تعلق ہے، وہ احادیث رسولؐ یہاں تک کہ صحاح ستہ میں درج شدہ اخبار و احادیث سے بھی اس میں تمسک کرتے ہیں اور نہج البلاغہ کے مندرجات سے کچھ کم وہ احادیث پیغمبرؐ سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ محتاط اور علمی اصول کے کسی حد تک پابند علمائے اہل سنت کا یہ طریقہ رہا کہ وہ ان احادیث کے مضامین و مطالب کے تاویلوں سے ہمیشہ کام لیتے رہے اور بالکل ان احادیث کے انکار کی جراٴت نہیں کی۔
مناظرانہ ضرورتوں سے انکارِ نصوص کا یہ رجحان جس کا مظاہرہ ذہبی نے کیا ہے، یہ بڑھتے بڑھتے مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے زمانہ میں یہاں تک آیا کہ شروع شروع عیسائی مبلّغین سے مناظرہ میں انہیں وفات مسیح کے خیال کو پیش کرنے کی ضرورت ہوئی۔ صرف اس جذبہ کے ما تحت کہ جناب عیسیٰ علیہ السلام کی یہ ایک طرح کی فضیلت عیسائی پیش کرتے ہیں کہ وہ زندہ ہیں، لہٰذا اس کو ختم کرنا چاہیے۔ انہوں نے اس مناظرانہ ترکیب کو اصل قرار دیا اور پھر جو اسلامی نصوص اور متفق علیہ احادیث اس بارے میں تھیں ان سب کا انکار کردیا اور آخر میں خود ان کے دعوائے مسیحیت کیلئے ایک راستہ بن گیا۔
یہی جذبہ ترقی کرکے اب اہل قرآن کے ہاتھوں، جن کی نمائندگی ’’طلوع اسلام‘‘ وغیرہ کررہے ہیں، یہاں تک پہنچاہے کہ وہ یہ دیکھتے ہوئے کہ طبری اور دوسرے مفسرین اور مؤرخین سب کے یہاں کچھ نہ کچھ شیعوں کے موافق باتیں موجود ہیں، اس لئے کلیۃً احادیث، تفاسیر اور تواریخ کے اعتبار پر انہوں نے ضرب لگا دی ہے اور ان سب کے انکار کی یہی بنیاد ہے کہ ان لوگوں نے شیعوں کے موافق چیزیں درج کی ہیں، لہٰذا یہ سب جھوٹ ہے۔ جو عمارت ایک غلط اساس پر قائم کی جاتی ہے، اس کا آخری انجام یہی ہوتا ہے۔ کاش! یہ لوگ حقیقت کو صرف حقیقت کے اعتبار سے دیکھتے اور پھر اپنے جذبات کو اس کے ماتحت لانے کی کوشش کرتے جو ایک عام مسلمان کا فریضہ ایمانی ہے، چہ جائیکہ وہ افراد جو اپنے کو علمائے اسلام قرار دیتے ہوں یا دنیا میں اس حیثیت سے متعارف ہوں۔
اس کے بعد کی صدیوں میں یہ دروازہ پاٹوں پاٹ کھل ہی گیا تھا۔ چنانچہ اب تو مناظرہ کے میدان کا یہ بہت ہی عام ہتھیار بن گیا کہ جب نہج البلاغہ کا کوئی کلام پیش ہو تو اسے غلط کہہ دیا جائے۔ اس کے بعد پھر موجودہ دور میں تو اور بھی بہت سے جذبات کارفرما ہوگئے ہیں: مثلاً تجدد پسند طبقے کا یہ رجحان کہ ’’عورت ہر بات میں مرد کے برابر ہے‘‘، جب نہج البلاغہ کے مندرجات سے مجروح ہوتا ہے تو اس جذبہ کے تحفظ کیلئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ حضرت علی علیہ السلام کا کلام نہیں ہے، اس لئے کہ اس میں عورتوں کی تنقیص ہے۔ اور موجودہ سائنس سے اس کے نظریات کو ٹکراتے ہوئے دیکھا جاتا ہے تو سائنس کو اصل قرار دے کر اس کا انکار کردیا جاتا ہے کہ یہ حضرت علی علیہ السلام کا کلام ہو۔ کبھی اس جذبہ کے ماتحت کہ اس میں ان علوم و فنون کی حقیقتوں کا اظہار ہے جسے بعد والے اپنے وقت کا کارنامہ سمجھتے ہیں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ کلام بعد کی پیداوار ہے۔ اس لئے کہ اس وقت عرب میں یہ علوم و فنون تھے ہی نہیں، یہاں تک کہ کسی ایک لفظ مثلاً ’’سلطان‘‘ بمعنی بادشاہ کو حادث قرار دے کر اس لفظ کے استعمال کو نہج البلاغہ میں اس کی دلیل بنایا جاتا ہے کہ یہ جناب امیر علیہ السلام کی زبان سے نہیں نکل سکتا، حالانکہ یہ سب باتیں صرف اپنی خواہشوں کی تکمیل کا ایک بہانہ ہیں اور اپنے مزعومات کو اصل قرار دے کر حقیقتوں کو ان کا تابع بنا لینے کا کرشمہ ہے۔
قرآن مجید میں درج شدہ حقائق کب ایسے ہیں جو اس وقت کے عربوں کو معلوم ہوں اور احادیث رسولؐ کے بہت سے معارف کب اس وقت کی دنیا کو معلوم تھے جو باب مدینۃ العلم کے اقوال میں کچھ ایسے علوم و فنون کے ا نکشاف پر تعجب کیا جائے، جن کو اس وقت کی دنیا کی خبر نہ تھی۔ ہر لفظ جس کیلئے کسی قدیم عربی شعر کو سند میں پیش کیا جاتا ہے، ظاہر ہے کہ اس شعر سے پہلے اس کے ماخذ کا ہمیں علم نہیں ہوتا، ورنہ اس شعر کو ہم سند ہی قرار دینے کی کیوں زحمت محسوس کرتے۔ تو کیا اس تصور کو حقیقت قرار دے کر کہ اس کے پہلے یہ لفظ کہیں نہیں ہے، ہم اس شعر کا انکار کر دیں گے یا صحیح طریقہ یہ ہو گا اور یہی اصول معمول بہ ہے کہ اس شعر میں اس لفظ کے وجود سے خود ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اس لفظ کا زبانِ عرب میں رواج تھا۔ اسی طرح ہم آخر لفظ ’’سلطان‘‘ میں یہ اصول کیوں اختیار کرتے ہیں کہ ہم اپنے اس مزعومہ کو وحی منزل قرار دیں کہ یہ لفظ حادث ہے اور کلام عرب میں موجود نہ تھا۔ خود جناب امیر علیہ السلام کے کلام میں اس کا وارد ہونا اس کا ثبوت کیوں نہ ہو کہ یہ لفظ چاہے عام اکثریت کی زبان پر جاری نہ ہو، لیکن وہ کلیۃً مفقود نہیں تھا اور اس کا شاہد یہی کلام امیر المومنینؑ کیوں قرار نہ پائے؟۔ پھر ’’السلطان‘‘ کو لفظی طور پر بمعنی ’’مَلِک‘‘ (بادشاہ( قرار دینے کی ضرورت ہی کیا ہے، جبکہ وہ بمعنی مصدری یعنی حکومت و اقتدار اور غلبہ یقینی موجود تھا اور قرآن مجید میں بھی اس کے نظائر موجود ہیں۔ ذریعۂ غلبہ ہونے ہی کی بناپر ’’دلیل‘‘ کو ’’سلطان‘‘ کہا گیا ہے جس طرح اسی اعتبار سے اس کو ’’حجت‘‘ کہا جاتا ہے اور یہی معنی مصدری بعد میں اسمی شکل اختیار کر کے بمعنی ’’مَلِک‘‘ (بادشاہ( ہو گئے ہیں تو اس میں کیا دشواری ہے کہ ’’اِذَا تَغَیَّرَ السُّلْطَانُ تَغَیَّرَ الزَّمَانُ‘‘©۱۶® میں ہم ’’السُّلْطَانُ‘‘ کو حاکم کے معنی میں نہیں، بلکہ حکومت و اقتدار کے معنی میں لیں جو ہماری زبان میں بھی بمعنی حاکم برابر رائج ہے۔ لفظی طورپر یہ معنی نہ کہیں کہ ’’جب بادشاہ بدلتا ہے تو زمانہ بدل جاتا ہے‘‘، بلکہ یہ معنی کہیں کہ ’’جب اقتدار بدلتا ہے تو زمانے میں بھی تغیر ہو جاتا ہے‘‘، نتیجہ وہی ایک ہے، مگر وہ ہمارا مزعومہ بھی اگر ہمیں بہت عزیز ہو تو اس صورت میں محفوظ رہتا ہے۔ غرض یہ سب بے بنیاد باتیں ہیں جو کسی اصول روایت و درایت پر منطبق نہیں ہوتیں۔
خلفاء کے بارے میں نہج البلاغہ میں ہر گز کوئی ایسی سخت بات نہیں ہے جو دوسری کتابوں میں موجود نہ ہو اور جناب امیر علیہ السلام کے ان رحجانات کے مطابق نہ ہو جو مسلم الثبوت حیثیت سے دوسری کتب اہلسنت میں بھی موجود ہیں۔ ایسی صورت میں اس قسم کے الفاظ کا حضرت ؑکی زبان پر آنا تو اس کا ثبوت ہے کہ وہ آپؑ کا کلام ہے۔ ہاں! اگر آپؑ کے واقعی رجحانات کے خلاف اس میں الفاظ ملتے تو اس پر تو غور کرنے کی بھی ضرورت ہوتی کہ وہ کس بناپر ہیں یا انہیں کسی مجبوری کا نتیجہ قرار دینا پڑتا۔ جیسے بعض علماء کے خیال کے مطابق ’’لِلّٰهِ بَلَآءُ فُلَانٍ‘‘ ©۱۷® والا خطبہ یہی نوعیت رکھتا ہے، مگر وہ کلام جو اپنے متکلم کے خیالات کا نمایاں طور پر آئینہ بردار ہو، اسے تو کسی حیثیت سے اس متکلم کی طرف نسبت صحیح ماننے میں تامل کا کوئی سبب ہی نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ باوجود ابن خلکان کے اس اظہارِ تذبذب اور ذہبی کے اس جسارتِ انکار کے پھر بھی منصف مزاج اور حقیقت پسند علماء و محققین بلا تفریق مذہب و ملت، نہج البلاغہ کے مندرجات کو کلام امیر المومنینؑ مانتے رہے اور اس کا اظہار کرتے رہے، جن میں سے کچھ افراد کا جو سردست پیش نظر ہیں، ذیل میں تذکرہ کیا جاتا ہے:
۱)علامہ شیخ کمال الدین محمد ابن طلحہ قریشی شافعی
علامہ شیخ کمال الدین محمد ابن طلحہ قریشی شافعی متوفی ۶۵۲ھ، اپنی کتاب ’’مطالب السوٴل فی مناقب آل الرسولؐ ’’میں جو لکھنو میں بھی طبع ہو چکی ہے علوم امیر المومنین ؑ کے بیان میں لکھتے ہیں:
وَ رَابِعُھَا: عِلْمُ الْبَلَاغَۃِ وَ الْفَصَاحَۃِ وَ کَانَ فِیْھَاۤ اِمَامًا لَّا یُشَقُّ غُبَارُہٗ وَ مُقَدَّمًا لَّا تُلْحَقُ اٰثَارُہٗ وَمَنْ وَقَفَ عَلٰی کَلَامِہِ الْمَرْقُوْمِ الْمَوْسُوْمِ بِنَہْجِ الْبَلَاغَۃِ صَارَ الْخَبَرُ عِنْدَہٗ عَنْ فَصَاحَتِہٖ عَیَانًا وَّ الظَّنُ بِعُلُوِّ مَقَامِہٖ فِیْہِ اِیْقَانًا.
چوتھے: علم فصاحت و بلاغت، آپؑ اس میں امام کا درجہ رکھتے تھے جن کے گرد قدم تک بھی پہنچنا ناممکن ہے اور ایسے پیشرو تھے جن کے نشان قدم کا مقابلہ نہیں ہو سکتا اور جو حضرتؑ کے اس کلام پر مطلع ہو جو ’’نہج البلاغہ‘‘ کے نام سے موجود ہے، اس کیلئے آپؑ کی فصاحت کی سماعی خبرمشاہدہ بن جاتی ہے اور آپؑ کی بلندی مرتبہ کا اس باب میں گمان یقین کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔©۱۸®
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
اَلنَّوْعُ الْخَامِسُ فِی الْخُطَبِ وَ الْمَوَاعِظِ مِمَّا نَقَلَتْہُ الرُّوَّاۃُ وَ رَوَتْہُ الثِّقَاتُ عَنْہُ ؑ قَدِ اشْتَمَلَ کِتَابُ نَھْجِ الْبَلَاغَۃِ الْمَنْسُوْبِ اِلَیْہِ عَلٰی اَنْوَاعٍ مِنْ خُطَبِہٖ وَ مَوَاعِظِہِ الصَّادِعَۃِ بِاَوَامِرِھَا وَ نَوَاھِیْہَا الْمُطْلِعَۃِ اَنْوَارَ الْفَصَاحَۃِ وَ الْبَلَاغَۃِ مُشْرِقَۃٌ مِّنْ اَلْفَاظِھَا وَ مَعَانِیْھَا الْجَامِعَۃِ حِکَمَ عُیُوْنِ عِلْمِ الْمَعَانِیْ وَ الْبَیَانِ عَلَی اخْتِلَافِ اَسَالِیْبِھَا.
پانچویں قسم ان خطب اور مواعظ کی شکل میں ہے جس کو راویوں نے بیان کیا ہے اور ثقات نے حضرتؑ سے ان کو نقل کیا ہے اور ’’نہج البلاغہ‘‘ کتاب جس کی نسبت حضرت ؑ کی طرف دی جاتی ہے وہ آپؑ کے مختلف قسم کے خطبوں اور موعظوں پر مشتمل ہے جو اپنے اوامر و نواہی کو مکمل طورپر ظاہر کرتے اور فصاحت و بلاغت کے انوار کو اپنے الفاظ و معانی سے تابندہ شکل میں نمودار کرتے اور فن معانی و بیان کے اصول اور اسرار کو اپنے مختلف انداز بیان میں ہمہ گیر صورت سے ظاہر کرتے ہیں۔
اس میں مندرجات نہج البلاغہ کو معتبر و ثقہ راویوں کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے یقینی طور پر کلام امیر المومنین علیہ السلام تسلیم کیا ہے۔ ایک جگہ جو ’’منسوب‘‘ کا لفظ ہے، اس سے کوئی غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے، وہ بحیثیت مجموعی کتاب بشکل کتاب سے متعلق ہے اور یہ ظاہر ہے کہ یہ کتاب امیر المومنینؑ کی جمع کردہ نہیں ہے۔ کتاب تو حقیقتاً سید رضیؒ ہی کی ہے مگر عوام مجازی طورپر یا ناواقفیت کی بنا پر یونہی کہتے ہیں کہ یہ امیر المومنینؑ کی کتاب ہے۔ یہ نسبت اس کلام کے لحاظ سے دی جاتی ہے جو اس کتاب میں درج ہے اور اسی لئے اس محل پر علامہ ابن طلحہ نے ’’منسوب‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے جو بالکل درست ہے۔ اس سے اصل کلام کے بارے میں ان کے وثوق و اطمینان کو کوئی دھچکا نہیں پہنچتا۔
۲) علامہ ابو حامد عبد لحمید ابن ہبۃ اللہ المعروف بابن ابی الحدید مدائنی بغدادی
علامہ ابو حامد عبد لحمید ابن ہبۃ اللہ المعروف بابن ابی الحدید مدائنی بغدادی متوفی ۶۵۵ ھ جنہوں نے اس کتاب کی مبسوط شرح لکھی ہے، وہ حضرت امیر علیہ السلام کے فضائل ذاتیہ میں فصاحت کے ذیل میں لکھتے ہیں:
اَمَّا الْفَصَاحَۃُ فَھَوَ اِمَامُ الْفُصَحَآءِ وَ سَیِّدُ الْبُلَغَآءِ وَ عَنْ کَلَامِہٖ قِیْلَ: دُوْنَ کَلَامِ الْخَالِقِ وَ فَوْقَ کَلَامِ الْمَخْلُوْقِیْنَ، وَ مِنْہُ تَعَلَّمَ النَّاسُ الْخِطَابَۃَ وَ الْکِتَابَۃَ.
فصاحت کی آپؑ کا یہ عالم ہے کہ آپ فصحاء کے امام اور اہل بلاغت کے سر گروہ ہیں، آپؑ ہی کے کلام کے متعلق یہ مقولہ ہے کہ وہ خالق کے کلام کے نیچے اور تمام مخلوق کے کلام سے بالاتر ہے اور آپؑ ہی سے دنیا نے خطابت و بلاغت کے فن کو سیکھا۔
اس کے بعد عبد الحمید بن یحیی اورا بن نباتہ کے وہ اقوال درج کئے گئے ہیں ،جن کا تذکرہ ہم پہلے کر چکے ہیں پھر لکھا ہے:
وَ لَمَّا قَالَ مِحْقَنُ بْنُ اَبِیْ مِحْقَنٍ لِّمُعَاوِيَةَ: جِئْتُكَ مِنْ عِنْدِ اَعْيَا النَّاسِ، قَالَ لَهٗ: وَيْحَكَ! كَيْفَ يَكُوْنُ اَعْيَا النَّاسِ، فَوَاللّٰهِ! مَا سَنَّ الْفَصَاحَةَ لِقُرَيْشٍ غَيْرُهٗ، وَ يَكْفِیْ هٰذَا الْكِتَابُ الَّذِیْ نَحْنُ شَارِحُوْهُ دَلَالَةً عَلٰى اَنَّهٗ لَا يُجَارٰى فِی الْفَصَاحَةِ وَ لَا يُبَارٰى فِی الْبَلَاغَةِ.
اور جب محقن بن ابی محقن نے (خوشامد میں(معاویہ سے کہا کہ: میں سب سے زیادہ گنگ شخص کے پاس سے آیا ہوں، معاویہ نے کہا کہ: وائے ہو تم پر! وہ گنگ کیونکر کہے جا سکتے ہیں، حالانکہ خدا کی قسم فصاحت کا راستہ قریش کو سوا ان کے کسی اور نے نہیں دکھایا ہے۔ اور یہی کتاب جس کی ہم شرح لکھ رہے ہیں اس امر کو ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ حضرتؑ فصاحت میں وہ بلند درجہ رکھتے ہیں کہ کوئی آپؑ کے ساتھ نہیں چل سکتا اور بلاغت میں آپؑ کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا۔
علامہ مذکور دوسرے موقعہ پر لکھتے ہیں:
اِنَّ کَثِیْرًا مِنْ فُصُوْلِہٖ دَاخِلٌ فِیْ بَابِ الْمُعْجَزَاتِ ا لْمُحَمَّدِیَّۃِ لِاشْتِمَالِھَا عَلَی الْاَخْبَارِ الْغَیْبِیَّۃِ وَ خُرُوْجِھَا مِنْ وُّسْعِ الطَّبِیْعَۃِ الْبَشَرِیَّۃِ.
اس کتاب کے اکثر مقامات حضرت رسول ﷺ کا معجزہ کہے جا سکتے ہیں۔ اس لئے کہ وہ غیبی خبروں پر مشتمل ہیں اور انسانی طاقت کے حدود سے باہر ہیں۔
حالانکہ علامہ ابن ابی الحدید اپنے معتقدات میں جو شیعیت کے خلاف ہیں پورے راسخ ہیں اور اس لئے نہج البلاغہ میں جہاں جہاں ان کے معتقدات کے خلاف چیزیں ہیں، ان کو کافی زحمت در پیش ہوئی ہے، مگر اس کے باوجود کسی ایک مقام پر بھی وہ اس شک و شبہ کا اظہار نہیں کرتے کہ یہ شاید امیر المومنینؑ کا کلام نہ ہو، بلکہ خطبہ شقشقیہ تک میں جو سب سے زیادہ ان کے جذبات کے خلاف مضامین پر مشتمل ہے، وہ اس امر کو بقوت تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ہے علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا کلام ضرور، اور اس کے خلاف ہر تصور کو دلائل کے ساتھ رد کر دیتے ہیں۔ انہوں نے خطبہ کی (شرح ہی(میں کہا کہ: {قَدَّمَ الْمَفْضُوْلَ عَلَی الْفَاضِلِ} : ’’خدا نے (معاذ اللہ!(کسی مصلحت سے غیر افضل کو افضل پر مقدم کر دیا‘‘، اور اسی طرح خطبہ شقشقیہ وغیرہ کی تشریحات میں انہوں نے اپنے معتقدات کا اظہار کر دیا ہے اور امیر المومنینؑ کے الفاظ کو معاذ اللہ! آپؑ کے بشری جذبات کا تقاضا قرار دیا ہے۔
یہ امور اس تصور کو ختم کردیتے ہیں کہ انہوں نے اس کتاب میں اس شیعہ رئیس کی خوشامد مدنظر رکھی ہے جس کے نام پر انہوں نے یہ شرح معنون کی تھی۔ ابن العلقمی شیعہ ضرور تھے، مگر وہ سلطنت بنی عباس کے وزیر تھے اور یہ کتاب دولت عباسیہ کے سقوط سے پہلے ان کے دور وزارت میں لکھی گئی ہے۔ اوّل تو اگر خوشامد مدنظر ہوتی تو وزیر کے بجائے خود خلیفہ کے جذبات کا لحاظ کرنا زیادہ ضروری ہوتا۔ دوسرے ظاہر ہے کہ سلطنت عباسیہ کے وزیر ہونے کی بناپر خود ابن العلقمی بھی کھل کر ایسے شخص کے خلاف کوئی اقدام نہیں کر سکتے تھے جو حکومت وقت کے مذہب کے موافق کوئی بات کہے نہ وہ خود ہی ایسے جذبات کا علانیہ اظہار کرتے تھے۔ پھر اگر ان کی خوشامد ہی پیش نظر ہوتی تو ابن ابی الحدید اسی کتاب میں شیعیت کی رد کیوں کرتے اور خلافت ثلاثہ کو شروع سے لے کر آخر تک بقدر امکان مضبوط کرنے کی کوشش کس لئے کرتے۔
ان کا یہ طرزِ عمل صاف بتا رہا ہے کہ انہوں نے اس کتاب میں اپنے حقیقی خیالات اور جذبات کو برابر پیش نظر رکھا ہے۔ وہ اگر نہج البلاغہ کی صحت میں ذرا سا شک و شبہ کا بھی اظہار کر دیتے تو وہ اس سے زیادہ ابن العلقمی کیلئے تکلیف دہ نہیں ہو سکتا تھا جتنا خدا کی طرف اس غلط کام کو منسوب کرنا کہ ’’وہ مفضول کو فاضل پر ترجیح دے دیتا ہے‘‘ یا امیر المومنین علیہ السلام کے اقوال کو معاذ اللہ! نفسانیت پر محمول کرنا جو خطبہ شقشقیہ وغیرہ کی شرح میں انہوں نے لکھ ڈالا ہے، بلکہ ایک شیعہ کیلئے ان الفاظ کے کلام امیر المومنینؑ ہونے سے انکار کر دینا اتنا صدمہ نہیں پہنچا سکتا اور حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی اتنی بڑی توہین نہیں ہے جتنا یہ تصور کرنا کہ حضرتؑ نے معاذ اللہ! حقیقت کے خلاف صرف اپنی ذاتی رنجش کی بنا پر یہ الفاظ فرما دیئے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہر گز ابن ابی الحدید کو ابن العلقمی کی کوئی خاطر داری اظہارِ خیالات میں پیش نظر نہ تھی اوراس کتاب پر ابن العلقمی نے اگر کوئی انعام دیا ہو تو یہ صرف ان کے وسعت صدر اور وسعت نظر اور تحمل کا ثبوت ہے کہ انہوں نے ایک مخالفِ مذہب کے ایک علمی کارنامے کی صرف علمی کارنامہ ہونے کی بنا پر قدر کی جو کہ ان کے خود عقائد و خیالات سے متضاد مضامین پر بھی مشتمل تھا۔ میرے خیال میں تو ابن ابی الحدید نے اپنی سنّیت کو اس کتاب میں اتنا ضرورت سے زیادہ طشت از بام کیا ہے کہ اس کے ساتھ کسی قسم کی رو رعایت کا تصور بھی پیدا ہونا غلط ہے۔
۳)ابو السعادات مبارک مجد الدین ابن اثیر جزری
ابو السعادات مبارک مجد الدین ابن اثیر جزری متوفی ۶۰۶ھ نے اپنی مشہور کتاب نہایہ میں جو احادیث و آثار کے لغات کی شرح کے موضوع پر ہے، کثیر التعداد مقامات پر نہج البلاغہ کے الفاظ کو حل کیا ہے۔ ابن اثیر کی حیثیت فقط ایک عام لغوی کی نہیں ہے بلکہ وہ محدث بھی ہیں۔ اگر صرف ادبی اہمیت کے لحاظ سے ان کو ان الفاظ کا حل کرنا ہی ضروری تھا تو وہ اس کو نہج البلاغہ کا نام لکھ کر درج کرتے، پھر واقعہ تویہ ہے کہ اگر اس کو وہ کلام امیر المومنینؑ سمجھتے ہی نہ، تو انہیں اس کتاب میں جو صرف احادیث اور آثار کے حل کیلئے لکھی گئی ہے، ان لغات کو جگہ ہی نہ دینا چاہئے تھی، کیونکہ اصطلاحی طور پر ’’اثر‘‘ صرف صحابہ اور ممتاز تابعین کی زبان سے نکلے ہوئے اقوال کو کہتے ہیں۔ کسی متاخر عالم کی کتاب کے الفاظ نہ ’’حدیث‘‘ میں داخل ہیں اور نہ ’’اثر‘‘ میں۔ان کا ان الفاظ کو جگہ دینا ہی اس کا ثبوت ہے کہ وہ اس کو سید رضیؒ کا کلام نہیں سمجھتے، بلکہ کلام امیر المومنینؑ قرار دیتے ہیں۔
پھر یہ کہ ان لغات کو درج کرنے میں ہر مقام پر تصریحاً وہ حدیث علیؑ کے لفظ کا استعمال کرتے ہیں، جیسے لغت ’’جوی‘‘ میں ’’مِنْہُ حَدِیْثُ عَلِیٍّ‘‘ ، یونہی ’’فَتْقَ الْاَجْوَاۗءِ وَ شَقَّ الْاَرْجَاۗءِ‘‘ ©19® میں زیادہ تر ان الفاظ کا تذکرہ ’’حَدِیْثُ عَلِیٍّ‘‘ کے لفظوں کے ساتھ ہے اور کہیں پر ’’خُطْبَۃُ عَلِیٍّ‘‘ ہے،جیسے لغت ’’لوط‘‘ میں ’’فِیْ خُطْبَۃِ عَلِیٍّ: وَ لَاطَهَا بِالْبِلَّةِ حَتّٰى لَزَبَتْ‘‘©۲۰® ، ایک جگہ لغت ’’ایم‘‘ میں یہ الفاظ ہیں: ’’کَلَامُ عَلِیٍّ: مَاتَ قَيِّمُهَا وَ طَالَ تَاَيُّمُهَا‘‘ ©۲۱®۔ اسی طرح لغت ’’اسل‘‘ میں ’’فِیْ کَلَامِ عَلِیٍّ‘‘ کے الفاظ ہیں اور ایسے ہی دو ایک جگہ اور باقی تمام مقامات پر ’’حَدِیْثُ عَلِیٍّ‘‘ لکھا ہے اور جو مکاتیب کے الفاظ ہیں انہیں ’’کِتَابُ عَلِیٍّ‘‘ کہہ کر درج کیا ہے۔ ان تمام مقامات کو استقصاء کے ساتھ ہم نے اپنی کتاب ’’نہج البلاغہ کا استناد‘‘ میں درج کیا ہے جو امامیہ مشن لکھنؤ سے شائع ہوئی ہے۔
۴)علامہ سعد الدین تفتازانی
علامہ سعد الدین تفتازانی متوفی ۷۹۱ ھ شرح مقاصد میں لکھتے ہیں:
وَ اَیْضًا ھُوَ اَفْصَحُھُمْ لِسَانًا عَلٰی مَا یَشْھَدُ بِہٖ کِتَابُ نَھْجِ الْبَلَاغَۃِ.
حضرت ؑسب سے زیادہ فصیح اللسان بھی تھے، جس کی گواہی کتاب ’’نہج البلاغہ‘‘ دے رہی ہے۔©۲۲®
۵)جمال الدین ابو الفضل محمد بن مکرم بن علی افریقی مصری
جمال الدین ابو الفضل محمد بن مکرم بن علی افریقی مصری متوفی ۷۱۱ھ، انہوں نے بھی نہایہ کی طرح اپنی عظیم الشان کتاب لسان العرب میں مندرجہ الفاظ کو ’’کَلَامُ عَلِیٍّ‘‘ کہتے ہوئے حل کیا ہے۔
۶)علامہ علاء الدین قوشجی
علامہ علاء الدین قوشجی متوفی ۸۷۵ھ شرح تجرید میں قول محقق طوسی ’’اَفْصَحُہُمْ لِسَانًا‘‘ کی شرح میں لکھتے ہیں:
عَلٰی مَایَشْھَدُ بِہٖ کِتَابُ نَھْجِ الْبَلَاغَۃِ وَ قَالَ الْبُلَغَآءُ :اِنَّ کَلَامَہٗ دُوْنَ کَلَامِ الْخَالِقِ وَ فَوْقَ کَلَامِ الْمَخْلُوْقِ.
جس کی شاہد ہے آپ کی کتاب ’’نہج البلاغہ‘‘ اور اہل بلاغت کا قول ہے کہ: ’’آپؑ کا کلام خالق کے نیچے اور تمام مخلوق کے کلام سے بالاتر ہے‘‘۔©۲۳®
۷)محمد بن علی بن طباطبائی معروف بہ ابن طقطقی
محمد بن علی بن طباطبائی معروف بہ ابن طقطقی اپنی کتاب تاریخ الفخری فی الآداب السلطانیہ والدول الاسلامیہ،مطبوعہ مصر، ص۹ میں لکھتے ہیں:
عَدَلَ نَاسٌ اِلٰی نَھْجِ الْبَلَاغَۃِ مِنْ کَلَامِ اَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلِیِّ ابْنِ اَبِیْ طَالِبٍ، فَاِنَّہُ الْکِتَابُ الَّذِیْ یُتَعَلَّمُ مِنْہُ الْحِکَمُ وَ الْمَوَاعِظُ وَالْخُطَبُ وَ التَّوْحِیْدُ وَالشَّجَاعَۃُ وَ الزُّھْدُ وَ عُلُوُّ الْھِمَّۃِ وَ اَدْنٰی فَوَآئِدِہِ الْفَصَاحَۃُ وَ الْبَلَاغَۃُ.
بہت سے لوگوں نے کتاب ’’نہج البلاغہ‘‘ کی طرف توجہ کی جو امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا کلام ہے، کیونکہ یہ وہ کتاب ہے کہ جس سے حکم اور مواعظ اور توحید اور زہد اور علو ہمت، ان تمام باتوں کی تعلیم حاصل ہوتی ہے اور اس کا سب سے ادنیٰ فیض فصاحت و بلاغت ہے۔
۸)علامہ محدث ملا طاہر فتنی گجراتی
علامہ محدث ملا طاہر فتنی گجراتی، انہوں نے بھی مجمع بحارالانوار،نہایہ کی طرح احادیث و آثار کے لغات ہی کی شرح میں لکھی ہے اور انہوں نے بھی الفاظ نہج البلاغہ کو کلام امیر المومنین علیہ السلام تسلیم کرتے ہوئے ان کی شرح کی ہے۔
۹)علامہ احمد بن منصور کازرونی
علامہ احمد بن منصور کازرونی اپنی کتاب مفتاح الفتوح میں امیر المومنین علیہ السلام کے حالات میں لکھتے ہیں:
وَمَنْ تَاَمَّلَ فِیْ کَلَامِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ خُطَبِہٖ وَ رِسَالَاتِہٖ، عَلِمَ اَنَّ عِلْمَہٗ لَا یُوَازِیْ عِلْمَ اَحَدٍ وَّ فَضَآئِلُہٗ لَا تُشَاکِلُ فَضَآئِلَ اَحَدٍ بَعْدَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ وَ مِنْ جُمْلَتِھَا کِتَابُ نَھْجِ الْبَلَاغَۃِ، وَ اَیْمُ اللّٰہِ! لَقَدْ وَقَفَ دَوْنہٗ فَصَاحَۃُ الْفُصَحَآءُ وَ بَلَاغَۃُ الْبُلَغَآءُ وَ حِکْمَۃُ الْحُکَمَآءُ.
جو حضرتؑ کے کلام اور خطوط اور خطبوں اور تحریروں پر غور کی نگاہ ڈالے، اسے معلوم ہو گا کہ حضرتؑ کا علم کسی دوسرے کے علم کی طرح اور حضرتؑ کے فضائل پیغمبرؐ کے بعد کسی دوسرے کے فضائل کے قبیل سے نہیں تھے۔ (یعنی بدرجہا زیادہ تھے (اور انہی میں سے کتاب ’’نہج البلاغہ‘‘ ہے۔©۲۴® اور خدا کی قسم! آپؑ کی فصاحت کے سامنے تمام فصحاء کی فصاحت اور بلیغوں کی بلاغت اور حکمائے روزگار کی حکمت مفلوج و معطل ہو کر رہ جاتی ہے۔
۱۰)علامہ یعقوب لاہوری
علامہ یعقوب لاہوری شرح تہذیب الکلام میں ’’افصح ‘‘ کی شرح میں لکھتے ہیں:
وَمَنْ اَرَادَ مُشَاھَدَۃَ بَلَاغَتِہٖ وَ مُسَامَعَۃَ فَصَاحَتِہٖ فَلْیَنْظُرْ اِلٰی نَھْجِ الْبَلَاغَۃِ وَ لَا یَنْبَغِیْۤ اَنْ یُّنْسَبَ ھٰذَا الْکَلَامُ الْبَلِیْغُ اِلٰی رَجُلٍ شِیْعِیٍّ.
جو شخص آپؑ کی فصاحت کو دیکھنا اور آپ کی بلاغت کو سننا چاہتا ہو،وہ ’’نہج البلاغہ‘‘ پر نظر کرے اور ایسے فصیح و بلیغ کلام کو کسی شیعہ عالم کی طرف منسوب کرنا بالکل غلط ہے۔
۱۱)علامہ شیخ احمد ابن المصطفی معروف بہ طاشکیری زادہ
علامہ شیخ احمد ابن المصطفیٰ معروف بہ طاشکیری زادہ اپنی کتاب ’’شقائق نعمانیہ فی علماء دولۃ عثمانیہ‘‘، قاضی قوام الدین یوسف کی تصانیف کی فہرست میں لکھتے ہیں:
وَ شَرْحُ نَھْجِ الْبَلَاغَۃِ لِلْاِمَامِ الْھُمَامِ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْھَہٗ.
۱۲)مفتی دیار مصریہ علامہ شیخ محمد عبدہ
مفتی دیار مصریہ علامہ شیخ محمد عبدہ متوفی ۱۳۲۳ھ جن کی اس سعی جمیل کے مشکور ہونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انہوں نے مصر اور بیروت وغیرہ اہل سنت کے علمی مرکزوں کو نہج البلاغہ کے فیوض سے بہرہ مند بنانے کا سامان کیا اور وہاں کے باشندوں کو ان کے سبب سے اس جلیل القدر کتاب کا تعارف ہو سکا، انہوں نے نہج البلاغہ کو اپنے تفسیری حواشی کے ساتھ مصر میں چھپوایا جس کے بہت سے ایڈیشن اب تک شائع ہو چکے ہیں، وہ اپنے اس مقدمہ میں جو شروع کتاب میں درج کیا ہے، اپنی اس دہشت و حیرت کا اظہار کرتے ہوئے جو نہج البلاغہ کے حقائق آگیں عبارات سے ان پر طاری ہوئی ہے، تحریر کرتے ہیں:
کَانَ يُخَيَّلُ اِلَیَّ فِیْ كُلِّ مَقَامٍ اَنَّ حُرُوْبًا شُبَّتْ، وَ غَارَاتٍ شُنَّتْ، وَ اَنَّ لِلْبَلَاغَةِ دَوْلةً وَّ لِلْفَصَاحَةِ صَوْلَةً، وَ اَنَّ لِلْاَوْهَامِ عَرَامَةً وَّ لِلرَّيْبِ دَعَارَةً، وَ اَنَّ جَحَافِلَ الْخِطَابَةِ، وَ كَتَآئِبَ الذَّرَابَةِ، فِیْ عُقُوْدِ النِّظَامِ، وَ صُفُوْفِ الْاِنْتِظَامِ، تَنَافَحَ بِالصَّفِيْحِ الْاَبْلَجِ وَ الْقَوِيْمِ الْاَمْلَجِ، وَ تَمْتَلِجُ الْمُهَجُ بِرَوَاضِعِ الْحُجَجِ، فَتَفَلَ مِنْ دَعَارَةِ الْوَسَاوِسِ وَ تُصِيْبُ مَقَاتِلَ الْخَوَانِسِ. فَمَا اَنَا اِلَّا وَ الْحَقُّ مُنْتَصِرٌ، وَ الْبَاطِلُ مُنْكَسِرٌ، وَ مَرَجَ الشَّكُّ فِیْ خُمُوْدٍ وَ هَرَجَ الرَّيْبُ فِیْ رُكُوْدٍ. وَ اَنَّ مُدَبِّرَ تِلْكَ الدَّوْلَةِ،وَ بَاسِلَ تِلْكَ الصَّوْلَةِ، هُوَ حَامِلُ لِوَآئِهَا الْغَالِبِ، اَمِيْرُ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ ؑ.
ہر مقام پر(اس کے اثناء مطالعہ میں(مجھے ایسا تصور ہو رہا تھا کہ جیسے لڑائیاں چھڑی ہوئی ہیں، نبرد آزمائیاں ہو رہی ہیں، بلاغت کا زور ہے اور فصاحت پوری قوت سے حملہ آور ہے، توہمات شکست کھا رہے ہیں، شکوک و شبہات پیچھے ہٹ رہے ہیں، خطابت کے لشکر صف بستہ ہیں، طلاقت لسان کی فوجیں شمشیر زنی اور نیزہ بازی میں مصروف ہیں، وسوسوں کا خون بہایا جا رہا ہے اور توہمات کی لاشیں گررہی ہیں اور ایک دفعہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ بس حق غالب آ گیا اور باطل کی شکست ہو گئی اور شک و شبہ کی آگ بجھ گئی اور تصورات باطل کا زور ختم ہو گیا اور اس فتح و نصرت کا سہرا اس کے علمبردار اسد اللہ الغالب علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے سر ہے۔
بَلْ كُنْتُ كُلَّمَا انْتَقَلْتُ مِنْ مَّوْضِعٍ اِلٰی مَوْضِعٍ اُحُسُّ بِتَغَيُّرِ الْمَشَاهِدِ، وَ تَحَوُّلِ الْمَعَاهِدِ:
بلکہ اس کتاب کے مطالعہ میں جتنا جتنا میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوا، میں نے مناظر کی تبدیلی اور مواقف کے تغیر کو محسوس کیا:
فَتَارَةً كُنْتُ اَجِدُنِیْ فِیْ عَالَمٍ يَّعْمَرُهٗ مِنْ الْمَعَانِیْ اَرْوَاحٌ عَالِيَةٌ، فِیْ حُلَلٍ مِّنَ الْعِبَارَاتِ الزَّاهِيَةِ، تَطُوْفُ عَلَی النُّفُوْسِ الزَّاكِيَةِ، وَ تَدْنُوْ مِنَ الْقُلُوْبِ الصَّافِيَةِ، تُوْحِیْۤ اِلَيْهَا رَشَادُهَا، وَ تَقُوْمُ مِنْهَا مُرَادُهَا، وَ تَنْفِرُ بِهَا عَنْ مَّدَاحِضِ الْمَزَالِ، اِلٰی جَوَادِ الْفَضْلِ وَ الْكَمَالِ.
کبھی میں اپنے کو ایسے عالم میں پاتا تھا جہاں معانی کی بلند روحیں خوش نما عبارتوں کے جامے پہنے ہوئے پاکیزہ نفوس کے گرد چکر لگاتی اور صاف دلوں کے نزدیک آ کر انہیں سیدھے رستے پر چلنے کا اشارہ کرتی اور نفسانی خواہشوں کا قلع قمع کرتی اور لغزشِ مقامات سے متنفر بناکر فضیلت و کمال کے راستوں کا سالک بناتی ہیں،
وَ طَوْرًا كَانَتْ تَتَكَشَّفُ لِیَ الْجُمَلُ عَنْ وُّجُوْهٍ بَاسِرَةٍ، وَ اَنْيَابٍ كَاشِرَةٍ، وَ اَرْوَاحٍ فِیْۤ اَشْبَاحِ النُّمُوْرِ، وَ مَخَالِبِ النُّسُوْرِ، قَدْ تَحْفَزَتْ لِلْوَثَّابِ، ثُمَّ انْقَضَتْ لِلِاخْتِلَابِ. فَخَلِبَتِ الْقُلُوْبَ عَنْ هَوَاهَا، وَ اَخَذَتِ الْخَوَاطِرَ دُوْنَ مَرْمَاهَا، وَ اغْتَالَتْ فَاسِدَ الْاَهْوَآءِ وَ بَاطِلَ الْاٰرَآءِ۔
اور کبھی ایسے جملے سامنے آ جاتے ہیں جو معلوم ہوتا ہے کہ تیوریاں چڑھائے ہوئے اور دانت نکالے ہوئے ہولناک شکلوں میں آگے بڑھ رہے ہیں اور ایسی روحیں ہیں جو چیتوں کے پیکروں میں اور شکاری پرندوں کے پنجوں کے ساتھ حملہ پر آمادہ ہیں اور ایک دم شکار پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور دلوں کو ان کے ہوا و ہوس کے مرکزوں سے جھپٹ کر لے جاتے ہیں اور ضمیروں کوپست جذبات سے زبر دستی علیحدہ کردیتے اور غلط خواہشوں اور باطل عقیدوں کا قلع قمع کردیتے ہیں۔
وَ اَحْيَانًا كُنْتُ اَشْهَدُ اَنَّ عَقْلًا نُوْرَانِيًّا لَّا يَشْبَهُ خَلْقًا جَسَدَانِيًّا، فَصَلَ عَنِ الْمَوْكِبِ الْاِلٰهِیِّ وَ اتَّصَلَ بِالرُّوْحِ الْاِنْسَانِیِّ، فَخَلَعَهٗ عَنْ غَاشِيَاتِ الطَّبِيْعَةِ، وَ سَمَا بِهٖ اِلَی الْمَلَكُوْتِ الْاَعْلٰی، وَ نَمَا بِهٖ اِلٰی مَشْهَدِ النُّوْرِ الْاَجْلٰی. وَ سَكَنَ بِهٖ اِلٰی عَمَارِ جَانِبِ التَّقْدِيْسِ، بَعْدَ اسْتِخَلَاصِهٖ مِنْ شَوَآئِبِ التَّلْبِيْسِ.
اور بعض اوقات میں ایسے مشاہدہ کرتا تھا کہ ایک نورانی عقل جو جسمانی مخلوق سے کسی حیثیت سے بھی مشابہ نہیں ہے، خداوندی بارگاہ سے الگ ہوئی اور انسانی روح سے متصل ہو کر اسے طبیعت کے پردوں سے اور مادیت کے حجابوں سے نکال لیا اور اسے عالم ملکوت تک پہنچا دیا اور تجلیات ربانی کے مرکز تک بلند کردیا اور لے جا کر عالم قدس میں اس کو ساکن بنا دیا۔
وَ اٰنَاتٍ كَاَنِّیْۤ اَسْمَعُ خَطِيْبَ الْحِكْمَةِ يُنَادِیْ بِاَعْلِيَآءِ الْكَلِمَةِ، وَ اَوْلِيَآءِ اَمْرِ الْاُمَّةِ، يُعَرِّفِهُمْ مَوَاقِعَ الصَّوَابِ، وَ يُبْصِرُهُمْ مَوَاضِعَ الْاِرْتِيَابِ، وَ يُحَذِّرُهُمْ مَزَالِقَ الْاِضْطِرَابِ، وَ يُرْشِدُهُمْ اِلٰی دَقَآئِقِ السِّيَاسَةِ، وَ يَهْدِيْهِمْ طُرُقَ الْكِيَاسَةِ، وَ يَرْتَفِعُ بِهِمْ اِلٰی مَنَصَّاتِ الرِّئَاسَةِ وَ يُصْعِدُهُمْ شَرَفَ التَّدْبِيْرِ، وَ يَشْرَفُ بِهِمْ عَلٰی حُسْنِ الْمَصِيْرِ.
اور بعض لمحات میں معلوم ہوتا تھا کہ حکمت کا خطیب صاحبان اقتدار اور قوم کے اہل حل و عقد کو للکار رہا ہے اور انہیں صحیح راستے پر چلنے کی دعوت دے رہا ہے اور ان کی غلطیوں پر متنبہ کر رہا ہے اور انہیں سیاست کی باریکیاں اور تدبر و حکمت کے دقیق نکتے سمجھا رہا ہے اور ان کی صلاحیتوں کو حکومت کے منصب اور تدبر و سیاست کی اہلیت پیدا کرکے مکمل بنا رہا ہے۔
اس میں علامہ محمد عبدہ نے جس طرح یقینی طور پر اس کو کلام امیر المومنین علیہ السلام تسلیم کیا ہے، اسی طرح اس کے مضامین کی حقانیت اور اس کے مندرجات کی سچائی کا بھی اعتراف کیا ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ اس کتاب کے مضامین حق کی فتح اورباطل کی شکست اور شکوک و اوہام کی فنا اور توہمات و وساوس کی بیخ کنی کا سبب ہیں اور وہ شروع سے آخر تک انسانی روح کیلئے روحانیت و طہارت اور جلال و کمال کی تعلیمات کی حامل ہیں۔
علامہ محمد عبدہ کو نہج البلاغہ سے اتنی عقیدت تھی کہ وہ اسے قرآن مجید کے بعد ہر کتاب کے مقابلہ میں ترجیح کا مستحق سمجھتے تھے اور انہوں نے اپنا یہ اعتقاد بتایا ہے کہ جامعہ اسلامیہ میں اس کتاب کی زیادہ سے زیادہ اشاعت ہونا اسلام کی ایک صحیح خدمت ہے اور یہ صرف اس لئے کہ وہ امیر المومنین علیہ السلام ایسے بلند مرتبہ مصلح عالم کاکلام ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
لَیْسَ فِیْ اَھْلِ ھٰذِہِ اللُّغَۃِ اِلَّا قَآئِلٌ بِاَنَّ کَلَامَ الْاِمَامِ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ ھُوَ اَشْرَفُ الْکَلَامِ وَ اَبْلَغُہٗ بَعْدَ کَلَامِ اللّٰہِ تَعَالیٰ وَ کَلَامِ نَبِیِّہٖ وَ اَغْزَرُہٗ مَادَّۃً وَ اَرْفَعُہٗ اُسْلُوْبًا وَ اَجْمَعُہٗ لِجَلَآئِلِ الْمَعَانِیْ، فَاَجْدَرُ بِالطَّالِبِیْنَ لِنَفَآئِسِ اللُّغَۃِ وَ الطَّامِعِیْنَ فِی التَّدَرُّجِ لِمَراقِیِّھَا اَنْ یَّجْعَلُوْا ھٰذَا الْکِتَابَ اَھَمَّ مَحْفُوْظَھُمْ وَ اَفْضَلَ مُاْثُوْرِھُمْ مَعَ تَفَھُّمِ مَعَانِیْہِ فِی الْاَغْرَاضِ الَّتِیْ جَآءَتْ لِاَجْلِھَا وَ تَاَمُّلِ اَلْفَاظِہٖ فِی الْمَعَانِی الَّتِیْ صِیْغَتْ لِلدَّلَالَۃِ عَلَیْھَا، لِیَصِیْبُوْا بِذٰلِکَ اَفْضَلَ غَایَۃٍ وَ یَنْتَھُوْۤا اِلٰی خَیْرِ نِھَایَۃٍ.
اس عربی زبان والوں میں کوئی ایسا نہیں جو اس کا قائل نہ ہو کہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا کلام، کلام خدا و کلامِ رسولؐ کے بعد ہر کلام سے بلند تر، زیادہ پر معانی اور زیادہ فوائد کا حامل ہے۔ لہٰذا زبانِ عربی کے نفیس ذخیروں کے طلاب کیلئے یہ کتاب سب سے زیادہ مستحق ہے کہ وہ اسے اپنے محفوظات اور منقولات میں اہم درجہ پر رکھیں اور اس کے ساتھ ان معانی و مقاصد کے سمجھنے کی کوشش کریں جو اس کتاب کے الفاظ میں مضمر ہیں۔
یہ واقعہ ہے کہ علامہ محمد عبدہ کی یہ کوشش پورے طور پر بار آور بھی ہوئی۔ ایسے تنگ نظری کے ماحول میں جبکہ علمی دنیا کا یہ افسوسناک رویہ ہے کہ خود اہل سنت کی وہ کتابیں جو اہل بیت معصومین علیہ السلام سے یا حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے متعلق ہیں، انہیں زیادہ تر ایران کے شیعی مطبعوں نے شائع کیا ہے مگر مصر و بیروت وغیرہ کے علمی مرکزوں نے انہیں کبھی قابل اشاعت نہ سمجھا۔ مثلا: ’’سبط ابن جوزی‘‘ کتب سیر میں پوری علمی جلالت سے یاد کئے گئے ہیں، مگر ان کی کتاب ’’تذکرہ‘‘ صرف اس لئے سوادِ اعظم کی بارگاہ میں درخور اعتنا نہیں سمجھی گئی کہ اس میں اہل بیت رسول ﷺ کے حالات زیادہ ہیں۔ اسی طرح حافظ نسائی کی خصائص وغیرہ۔ مگر نہج البلاغہ اپنے تمام مندرجات کے باوجود جن سے سواد اعظم کو اختلاف ہو سکتا ہے، پھر بھی مصر اور بیروت کے علمی حلقوں میں پوری پوری مقبولیت اور مرکزیت رکھتی ہے۔ اس کے مسلسل ایڈیشن شائع ہوتے ہیں اور مدارس اور یونیورسٹیوں کے نصابوں میں داخل ہے۔ یہ صرف ہندوستان یا پاکستان کی مناظرانہ ذہنیت اور اس کی مسموم فضا ہے کہ یہاں کے مدارس میں اکثر اس کے ساتھ وہ سلوک کیا جاتا ہے جو خالص شیعی کتاب سے ہونا چاہیے۔
علامہ شیخ محمد عبدہ نے نہ صرف اس کتاب پر حواشی لکھ دیئے اور اسے طبع کر دیا بلکہ وہ اپنی گفتگوؤں میں برابر اس کی تبلیغ کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ ’’مجلّۃ الہلال‘‘ مصر نے اپنی جلد نمبر ۳۵ کے شمارہٴ اول بابت نومبر ۱۹۲۶ء کے صفحہ ۷۸ پر چار سوالات علمی طبقہ کی توجہ کیلئے شائع کئے تھے جن میں پہلا سوال یہ تھا کہ:
مَا ھُوَ الْکِتَابُ اَوِ الْکُتُبُ الَّتِیْ طَالَعْتُمُوْھَا فِیْ شَبَابِکُمْ، فَاَفَادَتْکُمْ وَ كَانَ لَھَااَثَرٌ فِیْ حَیَاتِکُمْ؟
وہ کونسی کتاب یا کتابیں ہیں، جن کا آپ نے دور شباب میں مطالعہ کیا تو انہوں نے آپ کو فائدہ پہنچایا اور ان کا آپ کی زندگی پر اثر پڑا؟
اس سوال کا جواب استاد شیخ مصطفی عبد الرزاق نے دیا ہے جو شمارہٴ دوم بابت دسمبر ۱۹۲۶ھ کے صفحہ ۱۵۰ پر شائع ہوا ہے۔ اس میں وہ لکھتے ہیں:
طَالَعْتُ بِاِرْشَادِ الْاُسْتَاذِ الْمَرْحُوْمِ الشَّیْخِ مُحَمَّد عَبْدُہٗ دِیْوَانَ الْحِمَاسَۃِ وَ نَھْجَ الْبَلَاغَۃِ.
میں نے استاد مرحوم شیخ محمد عبدہ کی ہدایت سے دیوان حماسہ اور نہج البلاغہ کا مطالعہ کیا۔
عبد المسیح انطاکی نے بھی جن کی رائے اس کے بعد آئے گی، اس کا ذکر کیا ہے کہ علامہ محمد عبدہ نے مجھ سے فرمایا کہ :‘‘ اگر تم چاہتے ہو کہ انشا پردازی کا درجہ حاصل کرو تو امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام کو اپنا استاد بناؤ اور ان کے کلام کو اپنے لئے چراغ ہدایت قرار دو‘‘۔
موصوف کا یہ عقیدہ نہج البلاغہ کے متعلق کہ وہ تمام و کمال امیر المومنین علیہ السلام کا کلام ہے، اتنا نمایاں تھا کہ ان کے تمام شاگرد جو ان کے بعد سے اب تک مصر کے بلند پایہ اساتذہ میں رہے، اس حقیقت سے واقف تھے۔ چنانچہ استاد محمد محی الدین عبد الحمید مدرس کلیہ لغت عربیہ جامعہ ازہر جن کے خود خیالات ان کی عبارت میں اس کے بعد پیش ہوں گے، اپنے شائع کردہ ایڈیشن کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:
عَسَيْتُ اَنْ تَسْئَلَ عَنْ رَّاْىِ الْاُسْتَاذِ الْاِمَامِ الشَّيْخِ مُحَمَّد عَبْدُهٗ فِىْ ذٰلِكَ، وَ هُوَ الَّذِىْ بَعَثَ الْكِتَابَ مِنْ مَّرْقَدِهٖ، وَ لَمْ يَكُنْ اَحَدٌ اَوْسَعَ مِنْهُ اطِّلَاعًا ، وَ لَاۤ اَدَقَّ تَفْكِيْرًا، وَ الْجَوَابُ عَلٰى هٰذَا التَّسَاؤُلِ: اَنَّا نَعْتَقِدُ اِنَّهٗ رَحِمَهُ اللّٰهُ كَانَ مُقْتَنِعًا بِاَنَّ الْكِتَابَ كُلَّهٗ لِلْاِمَامِ عَلِىٍّ رَّحِمَهُ اللّٰهُ.
ممکن ہے تم اس بارے میں استاد امام شیخ محمد عبدہ کی رائے دریافت کرنا چاہتے ہو جنہوں نے اس کتاب کو خوابِ گمنامی سے بیدار کیا اور ان سے بڑھ کر کوئی وسعتِ اطلاع اور باریکیٴ نگاہ میں مانا بھی نہیں جاسکتا تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اس کتاب کو تمام و کمال امیر المومنین علیہ السلام کا کلام سمجھتے تھے۔
علامہ محمد عبدہ کا یہ مقدمہ جس کے اقتباسات ہم نے درج کئے ہیں، خوددنیائے ادبیت میں کافی اہمیت رکھتا ہے۔ چنانچہ سیّد احمد ہاشمی نے اپنی کتاب ’’جواہر الادب‘‘ حصہ اول میں صفحہ ۳۱۷،۳۱۸ پر اسے تمام و کمال درج کردیا ہے اور اس پر عنوان قائم کیا ہے: وَصْفُ نَہْجِ الْبَلَاغَۃِ لِلْاِمَامِ الْمَرْحُوْمِ الشَّیْخِ مُحَمَّدٍ عَبْدُہُ الْمُتَوَفّٰی ۱۳۲۲ھـ۔
۱۳)شیخ مصطفی غلائینی
ملک عرب کے مشہور مصنف، خطیب اور انشاء پرداز شیخ مصطفیٰ غلائینی استاذ التفسیر و الفقہ و الادب العربیۃ فی الکلیۃ الاسلامیۃ بیروت، اپنی کتاب اریج الزہر میں زیر عنوان ’’نہج البلاغۃ و اسالیب الکلام العربی‘‘ ایک مبسوط مقالہ کے تحت میں تحریر کرتے ہیں:
مِنْ اَحْسَنِ مَا یَنْبَغِیْ مُطَالَعَتُہٗ لِمَنْ یَّتَطَلَّبُ الْاُسْلُوْبَ الْعَالِیَ کِتَابُ نَہْجِ الْبَلَاغَۃِ لِلْاِمَامِ عَلِیٍّ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ، وَ ھُوَ الْکِتَابُ الَّذِیْ اُنْشِئَتْ ھٰذَا الْمَقَالَ لِاَجْلِہٖ، فَاِنَّ فِیْہِ مِنْ بَلِیْغِ الْکَلَامِ وَ الْاَسَالِیْبِ الْمُدْھِشَۃِ وَ الْمَعَانِی الرَّآئِقَۃِ وَ مَنَاحِی الْمَوْضُوْعَاتِ الْجَلِیْلَۃِ مَا یَجْعَلُ مُطَالِعَہٗ اِذْ اَزَاوَلَہٗ مُزَاوَلَۃً صَحِیْحَۃً، بَلِیْغًا فِیْ کِتَابَتِہٖ وَ خِطَابَتِہٖ وَ مَعَانِیْہِ.
بہترین چیز جس کا مطالعہ بلند معیار ادبی کے طلبگاروں کو لازم ہے، وہ امیرالمومنین علی علیہ السلام کی کتاب نہج البلاغہ ہے اور یہی وہ کتاب ہے جس کیلئے خاص طور پر یہ مقدمہ لکھا گیا ہے۔ اس کتاب میں بلیغ کلام اور ششدر کر دینے والے طرز بیان اور خوش نما مضامین اور مختلف عظیم الشان مطالب ایسے ہیں کہ مطالعہ کرنے والا اگر ان کی صحیح مزاولت کرے تو وہ اپنی انشاپردازی، اپنی خطابت اور اپنی گفتگو میں بلاغت کے معیار پر پورا اتر سکتا ہے۔
اس کے بعد لکھتے ہیں کہ اس کتاب سے کثیر التعداد افراد بلکہ اقوام نے استفادہ کیا ہے جن میں سے ایک کاتب الحروف بھی ہے۔ میں ان تمام افراد کو جو عربی کے بلند اسلوبِ تحریر کے طالب اور کلام بلیغ کے جویا ہوں، اس کتاب کے حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔
۱۴)استاد محمد کرد علی
استاد محمد کرد علی رئیس مجمع علمی دمشق نے الہلال کے چار سوالات کے جواب میں، جن میں سے تیسرا سوال یہ تھا کہ: ’’مَا ھِیَ اْلکُتُبُ الَّتِیْ تَنْصَحُوْنَ لِشُبَّانِ الْیَوْمِ بِقَرَآئَتِھَا؟‘‘: ’’وہ کونسی کتابیں ہیں جن کے پڑھنے کی موجودہ زمانہ کے نوجوانوں کو آپ ہدایت کرتے ہیں؟‘‘ اس سوال کے جواب میں لکھا ہے:
اِذَا طُلِبَ الْبَلَاغَۃُ فِیْۤ اَتَمِّ مَظَاھِرِھَا وَ الْفَصَاحَۃِ الَّتِیْ لَمْ تَشْبَھْھَا عَجْمَۃٌ، فَعَلَیْکَ بِنَھْجِ الْبَلَاغَۃِ، دِیْوَانِ خُطَبِ اَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ ؑ وَ رَسَآئِلِہٖ اِلٰی عُمَّالِہٖ، یُرْجَعُ اِلٰی فَصْلِ الْاِنْشَآءِ وَ الْمُنْشِئِیْنَ فِیْ کِتَابِیْ ‘‘الْقَدِیْمُ وَ الْحَدِیْثُ’’.
اگر بلاغت کا اس کے مکمل ترین مظاہرات کے ساتھ مشاہدہ مطلوب ہو اور اس فصاحت کو جس میں ذرہ بھر بھی زبان کی کوتاہی شامل نہیں ہے، دیکھنا ہو تو تم کو نہج البلاغہ کا مطالعہ کرنا چاہیے جو امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے خطب و مکاتیب کا مجموعہ ہے۔ تفصیل کیلئے ہماری کتاب ‘‘القدیم و الحدیث’’ مطبوعہ مصر ۱۹۲۵ء، ’’فَصْلُ الْاِنْشَآءِ وَ الْمُنْشِئِیْنَ‘‘ دیکھنا چاہیے۔
یہ جواب ’’الہلال‘‘ کی جلد نمبر ۳۵ کے شمارہ نمبر ۵ بابت ماہ مارچ ۱۹۲۷ء میں صفحہ ۵۷۲ پر شائع ہوا ہے۔
۱۵)استاد محمد محی الدین
استاد محمد محی الدین المدرس فی کلیۃ اللغۃ العربیۃ با لجامعۃ الازہر جنہوں نے نہج البلاغہ پر تعلیقات تحریر کئے ہیں اور علامہ شیخ محمد عبدہ کے حواشی برقرار رکھتے ہوئے بہت سے تحقیقات و شرح کا اضافہ کیا ہے اور ان حواشی کے ساتھ یہ کتاب مطبع استقامۃ مصر میں طبع ہوئی ہے ،انہوں نے اس ایڈیشن کے شروع میں اپنی جانب سے ایک مقدمہ بھی تحریر کیا ہے جس میں نہج البلاغہ کے استناد و اعتبار پر ایک سیر حاصل بحث کی ہے۔ اس کے ضروری اجزا یہاں درج کئے جاتے ہیں:
وَ بَعْدُ! فَھٰذَا کِتَابُ نَھْجِ الْبَلَاغَۃِ، وَ ھُوَ مَا اخْتَارَہُ الشَّرِیْفُ الرَّضِیُّ اَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ الْمُوْسَوِیُّ مِنْ کَلَامِ اَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلِیِّ ابْنِ اَبِیْ طَالِبٍ الَّذِیْ جَمَعَ بَیْنَ دَفَّتَیْہِ عُیُوْنَ الْبَلَاغَۃِ وَ فُنُوْنَھَا وَ تَھَیَّائَتْ بِہٖ لِلنَّاظِرِ فِیْہِ اَسْبَابُ الْفَصَاحَۃِ وَ دَنَا مِنْہُ قُطَّافُھَا، اِذْ كَانَ مِنْ كَلَامِ اَفْصَحِ الْخَلْقِ- بَعْدَ الرَّسُوْلِ ﷺ مَنْطِقًا، وَ اَشَدِّهِمْ اقْتِدَارًا، وَ اَبْرَعِهِمْ حُجَّةً، وَ اَمْلَكِهِمْ لُغَةً، يُدِيْرُهَا كَيْفَ شَآء. اَلْحَكِيْمُ الَّذِیْ تَصْدُرُ الْحِكْمَةُ عَنْ بَيَانِهٖ، وَ الْخَطِيْبُ الَّذِیْ يَمْلَاُ الْقَلْبَ سِحْرُ لِسَانِهٖ، اَلْعَالِمُ الَّذِیْ تَهَيَّاَ لَهٗ مِنْ خِلَاطِ الرَّسُوْلِ وَ كِتَابَةِ الْوَحْىِ، وَ الْكِفَاحُ عَنِ الدِّيْنِ بِسَيْفِهٖ وَ لِسَانِهٖ، مُنْذُ حَدَاثَتِهٖ مَا لَمْ يَتَهَيَّاْ لِاَحَدٍ سِوَاهُ. ھٰذَا کِتَابُ نَھْجِ الْبَلَاغَۃِ وَ اَنَا بِہٖ حَفِیٌّ مُّنْذُ طَرَآئَۃِ السِّنِّ وَ مَیْعَۃِ الشَّبَابِ، فَلَقَدْ کُنْتُ اَجِدُ وَالِدِیْ کَثِیْرَ الْقَرَآئَۃِ فِیْہِ وَ کُنْتُ اَجِدُ عَمِّیَ الْاَکْبَرَ یَقْضِیْ مَعَہٗ طَوِیْلَ السَّاعَاتِ یُرَدِّدُ عِبَارَاتِہٖ وَ یَسْتَخْرِجُ مَعَانِیْھَا وَ یَتَقَیَّلُ اُسْلُوْبَہٗ وَ كَانَ لَھُمَا مِنْ عَظِیْمِ التَّاْثِیْرِ عَلٰی نَفْسِیْ مَا جَعَلَنِیْ اَقْفُوْ اَثَرَھُمَا، فَاَحَلُّہٗ مِنْ قَلْبِی الْمَحَلَّ الْاَوَّلَ وَ اَجْعَلُہٗ سِمِیْرِیَ الَّذِیْ لَا یُمِلُّ وَ اَنِیْسِیَ الَّذِیْ اَخْلُوْۤا اِلَیْہِ اِذَا عَزَّ الْاَنِیْسُ.
یہ کتاب نہج ا لبلاغہ امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے کلام کا وہ انتخاب ہے جو شریف رضی ابو الحسن محمد بن حسن موسوی نے کیا ہے۔ یہ وہ کتاب ہے جو اپنے دامن میں بلاغت کے نمایاں جوہر اور فصاحت کے بہترین مرقعے رکھتی ہے اور ایسا ہونا ہی چاہیے کیونکہ وہ ایسے شخص کا کلام ہے جو رسول اللہ ﷺ کے بعد تمام خلق میں سب سے زیادہ فصیح البیان، سب سے زیادہ قدرتِ کلام کا مالک اور قوت استدلال میں زیادہ اور الفاظ لغت عربی پر سب سے زیادہ قابو رکھنے والا تھا کہ جس صورت سے چاہتا انہیں گردش دے دیتا تھا اور وہ بلند مرتبہ حکیم جس کے بیان سے حکمت کے سوتے پھوٹتے ہیں اور وہ خطیب جس کی جادو بیانی دلوں کو بھر دیتی ہے، وہ عالم جس کیلئے پیغمبر خدا ﷺ کے ساتھ انتہائی روابط اور وحی کی کتابت اور دین کی نصرت میں شمشیر و زبان دونوں سے جہاد کے ابتدائی عمرسے وہ مواقع حاصل ہوئے جو کسی دوسرے کو ان کے سوا حاصل نہیں ہوئے، یہ ہے کتاب نہج البلاغہ! اور میں اپنے عنفوانِ شباب اور ابتدائے عمر ہی سے اس کا گرویدہ رہا ہوں، کیونکہ میں اپنے والد کو دیکھتا تھا کہ وہ اکثر اس کتاب کو پڑھتے تھے اور اپنے بڑے چچا کو بھی دیکھتا کہ وہ گھنٹوں پڑھتے رہتے، اس کے معانی کو سمجھتے رہتے اور اس کے ا نداز بیان پر غور کرتے رہتے اور ان دونوں بزرگواروں کا میرے دل پر اتنا بڑا اثر تھا جس نے مجھے بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کیلئے مجبور کردیا اور میں نے اس کتاب کو اپنے قلب میں سب سے مقدم درجہ دے دیا، اسے اپنا مونس تنہائی قرار دیا جو ہمیشہ میرے لئے دلبستگی کا باعث ہے۔
اس کے بعد علامہ مذکور نے ان اشخاص کاذکر کیا ہے جن کا رجحان یہ ہے کہ وہ اسے شریف رضیؒ خود کا کلام قرار دیتے ہیں، ان کے خیالات کا جائزہ لیتے ہوئے موصوف رقمطراز ہیں:
کہتے ہیں کہ سب سے اہم اسباب جو اس کتاب کے کلام امیر المومنینؑ نہ ہونے سے متعلق پیش کئے جاتے ہیں، صرف چار ہیں:
پہلے: یہ کہ اس میں اصحاب رسولؐ کی نسبت ایسی تعریضات ہیں جن کا حضرت علی علیہ السلام سے صادر ہونا تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ خصوصاً معاویہ ،طلحہ، زبیر، عمرو بن عاص اوران کے اتباع کے بارے میں سبّ و شتم تک موجود ہے۔
دوسرے: اس میں لفظی آرائش اور عبارت میں صنعت گری اس حد پر ہے جو حضرت علی علیہ السلام کے زمانے میں مفقود تھی۔
تیسرے: اس میں تشبیہات و استعارات اور واقعات و مناظر کی صورت کشی اتنی مکمل ہے جس کا پتہ صدر اسلام میں اور کہیں نہیں ملتا۔ اس کے ساتھ حکمت و فلسفہ کی اصطلاحیں اور مسائل کے بیان میں اعداد کا پیش کرنا یہ باتیں اس زمانہ میں رائج نہ تھیں۔
چوتھے: اس کتاب کی اکثر عبارتوں سے علم غیب کے اِدّعا کا پتا چلتا ہے جو حضرت علی علیہ السلام ایسے پاکباز انسان کی شان سے بعید ہے۔
موصوف ان خیالات کو ردّ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
خدا گواہ ہے کہ ہمیں ان اسباب میں سے کسی ایک میں اور ان سب میں مجموعی طور پر بھی کوئی واقعی دلیل، بلکہ دلیل نما شکل بھی اس دعوے کے ثبوت میں نظر نہیں آتی جو ان لوگوں کا مدعا ہے، بلکہ انہیں تو ایسے شکوک و شبہات کا درجہ بھی نہیں دیا جاسکتا جو کسی حقیقت کے ماننے میں تھوڑا سا دغدغہ بھی پیدا کرسکتے ہوں اور جن کے رفع کرنے کی ضرورت ہو۔
پھر انہوں نے ایک ایک کر کے ہر بات کو ردّ بھی کیا ہے۔ پہلی بات کے متعلق جو کچھ انہوں نے کہا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول ﷺ کے بعد مسئلہ خلافت میں طرز عمل ہی ایسا اختیار کیا گیاجس سے فطرتاً حضرت علی علیہ السلام کو شکایت ہونا ہی چاہیے تھی اور آپؑ کی خلافت کے دور میں اہل شام نے آپؑ کے خلاف جو بغاوت کی اس سے آپ علیہ السلام کو تکلیف ہونا ہی چاہیے۔ ہر دور کے متعلق آپؑ کے جس طرح کے الفاظ ہیں وہ بالکل تاریخی حالات کے مطابق ہیں، اس لئے اس میں شک و شبہ کا کیا محل ہے؟
دوسری اور تیسری دلیل کا جواب یہ ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کا سامرتبہ فصاحت اور حکمت دونوں میں کسی اور شخص کو حاصل نہیں تھا، تو پھر آپؑ کے کلام کی خصوصیتیں اس دور میں کسی اور کے یہاں مل ہی کیونکر سکتی ہیں۔ رہ گیا سجع و قافیہ کا التزام، وہ آپؑ کے یہاں اس طرح نہیں جس سے آورد ظاہر ہو یا معانی پر اس کا اثر پڑے اور اس حد تک قافیہ وغیرہ کا التزام اس دور میں عموماً رائج تھا۔
چوتھی دلیل کے جواب میں علامہ مذکور نے جو کہا ہے وہ ہمارے مذہبی عقائد کے بے شک مطابق نہیں ہے مگر وہ خود ان کے نقطۂ نظر کا حامل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جسے علم غیب سے تعبیر کیا جاتا ہے، اسے ہم فراست اور زمانہ کی نبض شناسی کا نتیجہ سمجھتے ہیں جو علی علیہ السلام ایسے حکیم انسان سے بعید نہیں ہے۔ جیسا کہ ہم نے کہا، یہ جواب انہوں نے مادی ذہنیت کے مطابق دیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اگر خدا کے دیئے ہوئے علم غیب کا مظاہرہ باعث انکارِ قرار دیا جائے تو اکثر احادیث نبویہ بھی اس زد میں آ جائیں گی اور خدا کی طرف سے علمِ غیب کا مظاہرہ تو اکثر قرآن کی آیات سے نمودار ہی ہے۔ پھر قرآن کی آیتوں کابھی انکار کرنا چاہیے اور اگر علم الٰہی کی بناپر ان آیات کو تسلیم کیا جائے تو اس کے عطا کردہ علم سے علی علیہ السلام ایسے عالم ربانی کے کلام میں اس طرح کی باتوں کے تذکرہ پر بھی کسی حرف گیر ی کا موقع نہیں ہے۔
۱۶)استاد شیخ محمد حسن نائل المرصفی
استاد شیخ محمد حسن نائل المرصفی نے بھی نہج البلاغہ کی ایک شرح لکھی ہے، جو دار الکتب العربیہ سے شائع ہوئی ہے۔ اس کے مقدمہ میں ’’کلمۃ فی اللغۃ العربیۃ‘‘ کا عنوان قائم کر کے لکھتے ہیں:
وَ لَقَدْ کَانَ الْمَجَلّٰی فِیْ ھٰذِہِ الْحُلْبَۃِ عَلِیٌّ صَلَوَاتُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَ مَا حَسَبَنِیْ اَحْتَاجَ فِیْۤ اِثْبَاتِ ھٰذَا اِلٰی دَلِیْلٍ اَکْثَرَ مِنْ نَھْجِ الْبَلَاغَۃِ، ذٰلِکَ الْکِتَابِ الَّذِیْ اَقَامَہُ اللّٰہُ حُجَّۃً وَاضِحَۃً عَلٰۤی اَنَّ عَلِیًّا رَّضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَدْ کَانَ اَحْسَنَ مِثَالٍ حَیٍّ لِّنُوْرِ الْقُرْاٰنِ وَ حِکْمَتِہٖ وَ عِلْمِہٖ وَ ھِدَایَتِہٖ وَ اِعْجَازِہٖ وَ فَصَاحَتِہٖ، اِجْتَمَعَ لِعَلِیٍّ ؑ فِیْ ھٰذَا الْکِتَابِ مَا لَمْ یَجْتَمِعْ لِکِبَارِ الْحُکَمَآءِ وَ اَفْذَاذِ الْفَلَاسِفَۃِ وَ نَوَابِغِ الرَّبَّانِیِّیْنَ مِنْ اٰیَاتِ الْحِکْمَۃِ السَّامِیَۃِ وَ قَوَاعِدِ السِّیَاسَۃِ الْمُسْتَقِیْمَۃِ وَ مِنْ کُلِّ مَوْعِظَۃٍ بَاھِرَۃٍ وَّ حُجَّۃٍ بَالِغَۃٍ تَشْھَدُ لَہٗ بِالْفَضْلِ وَ حُسْنِ الْاَثَرِ. خَاضَ عَلِیٌّ ؑ فِیْ ھٰذَا الْکِتَابِ لُجَّۃَ الْعَلْمِ وَ السِّیَاسَۃِ وَ الدِّیْنِ، فَكَانَ فِیْ کُلِّ ھٰذِہِ الْمَسَآئِلِ نَابِغَۃً مُّبَرَّزًا.
اس میدان میں سب سے آگے حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام تھے اور اس دعویٰ کا سب سے بڑا ثبوت نہج البلاغہ ہے، جسے اللہ نے ایک واضح حجت اس کی بنایا ہے کہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام قرآن کے نور اور حکمت اور علم اور ہدایت اور اعجاز اور فصاحت کی بہترین زندہ مثال تھے۔ اس میں حضرت علی علیہ السلام کی زبان سے اتنی چیزیں یکجا ہیں جو بڑے حکماء اور یکتائے زمانہ فلاسفہ اور شہرہٴ آفاق علمائے ربانیین، ان سب کی زبانی ملا کر بھی یکجا نہیں ملتیں، حکمت کی بلند نشانیاں اور صحیح سیاست کے قواعد، حیرت خیز موعظہ اور مؤثر استدلال۔ اس کتاب میں علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے علم سیاست اور دین کے ہر دریا کی غواصی کی ہے اور یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپؑ ان میں سے ہر شعبہ میں یکتائے روزگار تھے۔
۱۷)استاد محمد الزہری الغمراوی
استاد محمد الزہری الغمراوی جنہوں نے مرصفی کی مذکورہ بالا شرح پر ایک مقدمہ تحریر کیا ہے، اس میں ’’طبقات الفصحاء‘‘ کے عنوان کے تحت وہ لکھتے ہیں:
وَ لَمْ یُنْقَلْ عَنْ اَحَدٍ مِّنْ اَھْلِ ھٰذِہِ الطَّبَقَاتِ مَا نُقِلَ عَنْ اَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ کَرَّمَ اللّٰہُ وَجْھَہٗ، فَقَدِ اشْتَمَلَتْ مَقَالَاتُہٗ عَلَی الْمَوَاعِظِ الزُّھْدِیَّۃِ وَ الْمَنَاھِجِ السِّیَاسِیَّۃِ وَ الزَّوَاجِرِ الدِّیْنِیَّۃِ وَ الْحِکَمِ النَّفِیْسَۃِ وَ الْاٰدَابِ الْخُلُقِیَّۃِ وَ الدُّرَرِ التَّوْحِیْدِیَّۃِ وَ الْاِشَارَاتِ الْغَیْبِبَّۃِ وَ الرُّدُوْدِ عَلٰی الْخُصُوْمِ وَ النَّصَآئِحِ عَلٰی وَجْہِ الْعُمُوْمِ وَ قَدِ احْتَوٰی عَلٰی غُرَرِ کَلَامِہٖ کَرَّمَ اللّٰہُ وَجْھَہٗ کِتَابُ نَھْجِ الْبَلَاغَۃِ الَّذِیْ جَمَعَہٗ وَ ھَذَّبَہٗ اَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ طَاھِرٍ الْمَشْھُوْرِ بِالشَّرِیْفِ الرَّضِیْ رَحِمَہُ اللّٰہُ وَ اَثَابَہٗ وَ اَرْضَاہُ.
ان تمام طبقات کے لوگوں میں سے کسی ایک سے بھی وہ کارنامہ نقل ہوکر ہم تک نہیں پہنچا جو امیر المومنین علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کی زبانی پہنچا ہے۔ آپؑ کے مقالات، زاہدانہ مواعظ، سیاسی مسلک اور دینی ہدایات، نفیس فلسفی بیانات، اخلاقی تعلیمات، توحید کے جواہر ،غیبی اشارات، مخالفین کی ردّ و قدح اور عمومی نصائح پر مشتمل ہیں اور آپؑ کے کلام کے روشن اقتباسات پر مشتمل کتاب نہج البلاغہ ہے جسے ابو الحسن محمد ابن طاہر مشہور بہ شریف رضی رحمہ اللہ نے جمع کیا ہے۔
۱۸)الاستاذ عبد الوہاب حمودہ
الاستاذ عبد الوہاب حمودہ استاذ الادب الحدیث بکلیۃ الادب جامعۃ فواد الاول مصر نے اپنے مقالہ ’’الآراء الاجتماعیہ فی نہج البلاغۃ‘‘ میں جو رسالۃ الاسلام قاہرہ کی جلد۳، عدد۳، بابت ماہ رمضان ۱۳۷۰ھ مطابق جولائی ۱۹۵۱ء میں شائع ہوا ہے، لکھا ہے کہ:
وَ قَدِ اجْتَمَعَ لَہٗ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ فِیْ کِتَابِ نَھْجِ الْبَلَاغَۃِ مَا یَجْتَمِعُ لِکِبَارِ الْحُکَمَآءِ وَ اَفْذَاذِ الْفَلَاسِفَۃِ وَ نَوَابِغِ الرَبَّانِیِّیْنَ مِنْ اٰیَاتِ الْحِکْمَۃِ السَّامِیَۃِ ،قَوَاعِدُ السَّیِاسِیَّۃِ الْمُسْتَقِیْمَۃِ وَ مِنْ کُلِّ مَوْعِظَۃٍ بَاھِرَۃٍ، وَ حُجَّۃٍ بَالِغَۃٍ وَّ اٰرَآءٍ اجْتِمَاعِیَّۃٍ،وَ اُسَسٍ حَرَبِیَّۃٍ، مِمَّا یَشْھَدُ لِلْاِمَامِ بِالْفَضْلِ وَ حُسْنِ الْاَثَرِ.
حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی زبان سے کتاب نہج البلاغہ میں تن تنہا وہ تمام چیزیں اکٹھا ہو گئی ہیں جو اکابر علماء اور یکتائے روزگار فلاسفہ اور سربرآوردہ علمائے ربانیین سے مجموعی طور پر یکجا کی جا سکتی ہیں، بلند حکمت کی نشانیاں اور صحیح سیاست کے قواعد اور ہر طرح کا حیرت خیز موعظہ اور مؤثر استدلال اور اجتماعی تصورات، یہ سب امیرالمومنینؑ کی فضیلت اور بہترین کار گزاری کے بین گواہ ہیں۔
۱۹)علامہ ابو نصر
علامہ ابو نصر پروفیسر بیروت یونیورسٹی نے اپنی کتاب ’’علیؑ ابن ابی طالبؑ‘‘ کی فصل ۳۱ میں امیرالمومنینؑ کے آثار عربی میں نہج البلاغہ کا ذکر کیا ہے اور اس ذیل میں لکھا ہے کہ :’’یہ کتاب علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی عظیم شخصیت کی مظہر ہے‘‘۔
۲۰)قاضی علی ابن محمد شوکانی
قاضی علی ابن محمد شوکانی صاحب نیل الاوطار نے اپنی کتاب ’’اتحاف الاکابر باسانیدالدفاتر‘‘ طبع حیدر آباد (باب النون)میں نہج البلاغہ کیلئے اپنی سندِ متصل درج کرتے ہوئے لکھا ہے: نَہْجُ الْبَلَاغَۃِ مِنْ کَلَامِ عَلِیٍّ ؓ: (نہج البلاغہ حضرت علی علیہ السلام کا کلام ہے)
یہ وہ حقیقت ہے ،جس کا متعدد عیسائی محققین نے بھی اعتراف کیا ہے:
۱)عبد المسیح انطاکی صاحب جریدہ ’’العمران’’ مصر ،جنہوں نے امیر المومنین علیہ السلام کی سیرت میں اپنی مشہور کتاب ’’شرح قصیدہ علویہ’’ تحریر کی ہے اور وہ مطبع رعمسیس فجالہ مصر میں شائع ہوئی ہے، وہ اس کے ص۵۳۹، پر تحریر کرتے ہیں:
لَا جِدَالَ اَنَّ سَیِّدَنَا عَلِیًّا اَمِیْرَ الْمُؤْمِنِیْنَ ھُوَ اِمَامُ الْفُصَحَآءِ وَ اُسْتَاذُ الْبُلُغَآءِ وَ اَعْظَمُ مِنْ خُطُبٍ وَّ کُتُبٍ فِیْ حِرَفِ اَھْلِ ھٰذِہِ الصَّنَاعَۃِ الْاَلِبَّآءِ، وَ ھٰذَا کَلَامٌ قَدْ قِیْلَ فِیْہِ بِحَقٍ: اِنَّہٗ فَوْقَ کَلَامِ الْخَلْقِ وَ تَحْتَ کَلَامِ الْخَالِقِ، قَالَ ھٰذَا کُلُّ مَنْ عَرَفَ فُنُوْنَ الْکِتَابَۃِ وَ اشْتَغَلَ فِیْ صَنَاعَۃِ التَّحْبِیْرِ وَ التَّحْرِیْرِ بَلْ ھُوَ اُسْتَاذُ الْکُتَّابِ الْعَرَبِ وَ مُعَلِمُّھُمْ بِلَا مَرَآءٍ، فَمَا مِنْ اَدِیْبٍ لَّبِیْبٍ حَاوَلَ اِتْقَانَ صَنَاعَۃَ التَّحْرِیْرِ اِلَّا وَ بَیْنَ یَدَیْہِ الْقُرْاٰنُ وَ نَھْجُ الْبَلَاغَۃِ، ذٰلِکَ کَلَامُ الْخَالِقِ وَ ھٰذَا کَلامُ اَشْرَفِ الْمَخْلُوْقِیْنَ، وَ عَلَیْھِمَا یُعَوِّلُ فِی التَّحْرِیْرِ وَ التَّحْبِیْرِ اِذَا اَرَادَ اَنْ یَّکُوْنَ فِیْ مَعَاشِرِ الْکَتَبَۃِ الْمَجِیْدِیْنَ، وَ لَعَّل اَفْضَلَ مَنْ خَدَمَ لُغَۃَ قُرَیْشٍ الشَّرِیْفُ الرَّضِیْ الَّذِیْ جَمَعَ خُطَبَ وَ اَقْوَالَ وَ حِکَمَ وَ رَسَآئِلَ سَیِّدِنَا اَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَفْوَاہِ النَّاسِ وَ اَمَالِیْھِمْ وَ اَصَابَ کُلَّ الْاِصَابَۃِ بِاِطْلَاقِہٖ عَلَیْہِ اسْمَ ‘‘نَھْجِ الْبَلَاغَۃِ’’ وَ مَا ھٰذَا الْکِتَاب اِلَّا صِرَاطَھَا الْمُسْتَقِیْمَ لِمَنْ یُّحَاوِلُ الْوُصُوْلَ اِلَیْھَا مِنْ مَّعَاشِرِ الْمُتَاَدِّبِیْنَ.
اس میں کوئی کلام نہیں ہو سکتا کہ سیدنا حضرت علی امیر المومنین علیہ السلام فصیحوں کے امام اور بلیغوں کے استاد اور عربی زبان میں خطابت اور کتابت کرنے والوں میں سب سے زیادہ عظیم المرتبت ہیں اور یہ وہ کلام ہے جس کے بارے میں بالکل صحیح کہا گیا ہے کہ: یہ کلام خلق سے بالا اور خالق کلام سے نیچے ہے۔ یہ ہر اس شخص کا قول ہوگا، جس نے انشاء پردازی کے فنون سے واقفیت حاصل کی ہو اور تحریر کا مشغلہ رکھا ہو،بلکہ آپؑ بلاشبہ تمام عرب انشاء پردازوں کے استاد اور معلم ہیں۔ کوئی ادیب ایسا نہیں ہے جو تحریر کے فن میں کمال حاصل کرنا چاہے، مگر یہ کہ اس کے سامنے قرآن ہوگا اور نہج البلاغہ کہ ایک خالق کا کلام ہے اور دوسرا اشرف المخلوقین کا اور انہی پر اعتماد کرے گا ہر وہ شخص جو چاہے گا کہ اچھے لکھنے والوں میں اس کا شمار ہو۔غالباً زبان عربی کی خدمت کرنے والوں میں سب سے بڑا درجہ شریف رضیؒ کا ہے جنہوں نے امیرالمومنینؑ کے یہ خطبے اور اقوال اور حکیمانہ ارشادات اور خطوط لوگوں کے محفوظات اور مخطوطات سے یکجا کئے ہیں اور انہوں نے اس کا نام ’’نہج البلاغہ‘‘ بھی بہت ٹھیک رکھا۔ بلاشبہ یہ بلاغت کا صراط مستقیم ہے ہر اس شخص کیلئے جو اس منزل تک پہنچنا چاہے۔©۲۵®
اس کے بعد انہوں نے شیخ محمد عبدہ کی رائے بیان کی ہے اور اس کے بعد لکھا ہے کہ:
ایک مرتبہ شیخ ابراہیم یازجی نے جو اس آخری دور میں متفقہ طور پر عربی کے کامل انشاء پرداز اور امام اساتذۂ لغت مانے گئے ہیں، مجھ سے فرمایا کہ: مجھے اس فن میں جو مہارت حاصل ہوئی ہے، وہ صرف قرآن مجید اور نہج البلاغہ کے مطالعہ سے۔ یہ دونوں عربی زبان کے وہ خزانۂ عامرہ ہیں جو کبھی ختم نہیں ہو سکتے۔
۲) فواد افرام البستانی، استاذ الآداب العربیہ فی کلیۃ القدیس یوسف (بیروت)۔ انہوں نے ایک سلسلہ تعلیمی کتابوں کا روائع کے نام سے شروع کیا ہے، جس میں مختلف جلیل المرتبہ مصنفین کے آثار قلمی اور تصانیف سے مختصر انتخابات، مصنف کے حالات، کمالات، کتاب کی تاریخی تحقیقات وغیرہ کے ساتھ چھوٹے چھوٹے مجموعوں کی صورت میں ترتیب دیئے ہیں اور وہ کیتھولک عیسائی پریس (بیروت)میں شائع ہوئے ہیں۔ اس سلسلہ کا پہلا مجموعہ امیرالمومنینؑ اور نہج البلاغہ سے متعلق ہے جس کے بارے میں موٴلف نے اپنے مقدمہ میں تحریر کیا ہے:
اِنَّنَا نَبْدَاُ الُیَوْمَ بِنَشْرِ مُنَتَخَبَاتٍ مِّنْ نَھْجِ الْبَلَاغَۃِ لِلْاِمَامِ عَلِیِّ ابْنِ اَبِیْ طَالِبٍ اَوَّلِ مُفَکِّرِی الْاِسْلَامِ.
ہم سب سے پہلے اس سلسلہ کی ابتدا کرتے ہیں کچھ انتخابات کے ساتھ نہج البلاغہ کے جو اسلام کے سب سے پہلے مفکر امام علیؑ ابن ابی طالبؑ کی کتاب ہے۔
اس کے بعد وہ سلسلہ شروع ہوا ہے جو سلسلہٴ روائع کی پہلی قسط ہے۔ اس کا پہلا عنوان ہے: ’’علی ابن ابی طالبؑ ‘‘ جس کے مختلف عناوین کے تحت میں امیر المومنینؑ کی سیرت اور حضرتؑ کی خصوصیات زندگی پر روشنی ڈالی گئی ہے جو ایک عیسائی کی تحریر ہوتے ہوئے پورے طور سے شیعی نقطۂ نظر کے موافق نہ سہی لیکن پھر بھی حقیقت و انصاف کے بہت سے جوہر اپنے دامن میں رکھتی ہے۔ دوسرا عنوان ہے: ’’نہج البلاغہ‘‘ اوراس کے ذیلی عناوین میں ایک عنوان ہے ’’ جَمْعُہٗ ‘‘ اور دوسرا عنوان ہے ’’ صِحَّۃُ نِسْبَتِہٖ ‘‘، اس کے تحت میں لکھا ہے ’’نہج البلاغہ‘‘ کے جمع و تالیف کو بہت زمانہ نہیں گزرا تھا کہ بعض اہل نظر اور مؤرخین نے اس کی صحت میں شک کرنا شروع کیا،ان کا پیشرو ابن خلکان ہے، جس نے اس کتاب کو اس کے جامع کی طرف منسوب کیا ہے اور پھر صفدی وغیرہ نے اس کی پیروی کی اور پھر شریف رضیؒ کے بسا اوقات اپنے دادا مرتضیٰؒ کے لقب سے یاد کئے جانے کی وجہ سے بعض لوگوں کو دھوکہ ہو گیا اور وہ ان میں اور ان کے بھائی علی بن طاہر معروف بہ ’’سید مرتضیٰ‘‘ متولد ۹۶۶ء متوفیٰ ۱۰۴۴ء میں فرق کو نہ سمجھ سکے اور انہوں نے نہج البلاغہ کے جمع کو ثانی الذکر کی طرف منسوب کردیا جیسا کہ جرجی زیدان نے کیا ہے اور بعض لوگوں نے جیسے مستشرق کلیمان نے یہ طرہ کیا کہ اصل مصنف کتاب کا سید مرتضیٰ ہی کو قرار دے دیا۔ ہم جب اس شک کے وجوہ و اسباب پر غور کرتے ہیں تو وہ ہر پھر کے پانچ امر ہوتے ہیں۔
اس کے بعدانہوں نے شک کے وہی اسباب تقریباً تحریر کئے ہیں جو اس کے پہلے محی الدین عبد الحمید شارح نہج البلاغہ کے بیان میں گزر چکے ہیں اور پھر انہوں نے ان وجوہ کو رد کیا ہے۔
۳)بیروت کے شہرہٴ آفاق مسیحی ادیب اور شاعر پولس سلامہ اپنی کتاب ’’اول ملحمۃ عربیۃ عید الغدیر‘‘ میں جو مطبعۃ النسر بیروت میں شائع ہوئی ہے، صفحہ ۷۱، ۷۲پر لکھتے ہیں:
نہج البلاغہ مشہور ترین کتاب ہے ، جس سے امام علی علیہ السلام کی معرفت حاصل ہوتی ہے اور اس کتاب سے بالاتر سوا قرآن کے اور کسی کتاب کی بلاغت نظر نہیں آتی۔
اس کے بعد حسب ذیل اشعار نہج البلاغہ کی مدح میں درج کئے ہیں:
هٰذِهِ الْکَفُّ لِلْمَعَارِفِ بَابٌ مُشْرِعٌ مِّنْ مَّدِيْنَةِ الْاَسْرَارِ
تَنْثُرُ الدُّرُّ فِیْ كِتَابٍ مُّبِيْنٍ سِفْرِ نَهْجِ الْبَلَاغَةِ الْمُخْتَارِ
هَوَ رَوْضٌ مِّنْ كُلِّ زَهْرٍ جَنِیٍّ اَطْلَعَتْهُ السَّمَآءُ فِیْ نُوَّارِ
فِيْهِ مِنْ نَّضْرَةِ الْوَرْدِ الْعَذَارٰى وَ الْخَزَامٰى وَ الْفُلِّ وَ الْجُلَّنَارِ
فِیْ صَفَآءِ الْيَن ْبُوْعِ يَجْرِیْ زُلَالًا كَوْثَرًا رَآئِقًا بَعِيْدِ الْقَرَارِ
تَلْمَحُ الشَطُّ وَ الضِفَافُ وَ لٰكِنْ يَا لِعَجْزِ الْعُيُوْنِ فِی الْاَغْوَارِ
یہ معارف و علوم کا مرکز اور اسرار و رموز کا کھلا ہوا دروازہ ہے۔
یہ نہج البلاغہ کیا ہے ، ایک روشن کتاب میں بکھرے ہوئے موتی۔
یہ چنے ہوئے پھولوں کا ایک باغ ہے، جس میں پھولوں کی لطافت،
چشموں کی صفائی اور آبِ کوثر کی شیرینی ۔
جس نہر کی وسعت اور کنارے تو آنکھوں سے نظر آتے ہیں
مگر تہہ تک نظریں پہنچنے سے قاصر ہیں۔
مذکورہ بالا ادباء اور محدثین کے کلام سے ’’نہج البلاغہ‘‘ کی لفظی اور معنوی اہمیت بھی ضمناً ثابت ہو گئی ہے۔ اب اس کے متعلق مزید کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں۔
اب رہ گیا ہمارے فنی اصول سے اس کتاب کا وہ درجہ جس اعتبار سے ہم اس سے استدلال کر سکتے ہیں تو مجموعی طور پر ہمارے نزدیک اس کتاب کے مندرجات کی نسبت امیر المومنین علیہ السلام کی جانب اسی حد تک ثابت ہے جیسے صحیفہ کاملہ کی نسبت امام زین العابدین علیہ السلام کی جانب یاکتب اربعہ کی نسبت ان کے مصنفین کی طرف یامعلقات سبعہ کی نسبت ان کے نظم کرنے والوں کی جانب۔ رہ گیا خصوصی عبارات اور الفاظ میں سے ہر ایک کی نسبت اطمینان، وہ اسلوب کلام اور انداز بیان سے وابستہ ہے اور ان مندرجات کی مطابقت کے ا عتبار سے ہے، ان ماخذوں کے ساتھ جو صحیح طورپر ہمارے یہاں مسلم الثبوت ہیں۔
اصطلاحی حیثیت سے قدماء کی تعریف کے مطابق جو صحت خبر کیلئے وثوق بالصدور کو کافی سمجھتے ہیں ان شرائط کے بعد اس کا ہر جز صحیح کی تعریف میں داخل ہے اور متاخرین کی اصطلاح کے مطابق جو صحت کو باعتبار صفات راوی قرار دیتے ہیں، نہج البلاغہ کے مندرجات کو مرسلات کی حیثیت حاصل ہے۔ مرسلات کی اہمیت ارسال کرنے والے کی شخصیت کے اعتبار سے ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ ابن ابی عمیر اور بعض جلیل القدر اصحاب کے بارے میں علماء نے یہ رائے قائم کر لی ہے کہ ان تک جب خبر کی صحت ثابت ہو جائے تو پھر ان کے آگے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے کہ کون راوی ہے۔ اس لئے کہ ان کا نقل کرنا خود اس کے اعتبار کی دلیل ہے اور اسی لئے کہا گیا ہے کہ مرسلات ابن ابی عمیر حکم مسند میں ہیں۔ اس بنا پر خود جناب سیّد رضی اعلی اللہ مقامہ کی جلالت قدر ضرور اسے عام مرسلات سے ممتاز کر دیتی ہے۔ پھر بھی مواعظ و تواریخ وغیرہ کا ذکر نہیں جس میں عقیدہ و عمل ایسی اہمیت نہیں ہے، لیکن مقام اعتقاد و عمل میں ہم نہج البلاغہ کے مندرجات کو اور ادلہ کے ساتھ جو اس باب میں موجود ہوں، اصول تعادل و تراجیح کے معیار پر جانچیں گے اور بعض موقعوں پر ممکن ہے جو مسند حدیث اس موضوع میں موجود ہو اس پر نہج البلاغہ کی روایت کو ترجیح ہو جائے اور بعض مقامات پر ممکن ہے تکافوٴ ہو جائے اور بعض جگہ شاید ان دوسرے ادلہ کو ترجیح ہو جائے، لیکن اس سے نہج البلاغہ کی مجموعی حیثیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس کا وزن اسی طرح برقرار رہتا ہے جس طرح کافی کی بعض حدیثوں کو کسی وجہ سے نظر انداز کرنے کے بعد بھی کافی کا وزن مسلم ہے۔
بہر صورت نہج البلاغہ کی علمی و ادبی و مذہبی اہمیت اور اس کے حقائق آگیں مضامین اور اخلاقی مواعظ کا وزن ناقابل انکار ہے، مگر ظاہر ہے کہ نہج البلاغہ سے صحیح فائدہ وہی افراد اٹھا سکتے ہیں کہ جو عربی زبان میں مہارت رکھتے ہوں۔ غیر عربی داں اس خزینۂ عامرہ سے فیض حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ اسی لئے ایرانی فضلاء و علماء کو اس کی ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ اس کے فارسی ترجمے شائع کریں۔ چنانچہ متعدد ترجمے ایران میں اس کے شائع ہوتے رہے اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ اردو زبان میں ابھی تک نہج البلاغہ کا کوئی قابل اطمینان ترجمہ نہیں ہوا ہے۔ بعض ترجمے جو شائع ہوئے، ان میں سے کسی میں اغلاط بہت زیادہ تھے اور کسی میں عبارت آرائی نے ترجمہ کے حدود کو باقی نہیں رکھا، نیز حواشی میں کبھی خالص مناظرانہ انداز کی بہتات ہو گئی اور کبھی اختصار کی شدت نے ضروری مطالب نظر انداز کر دیئے۔
جناب مولانا مفتی جعفر حسین صاحب جو ہندوستان و پاکستان میں کسی تعارف کے محتاج نہیں اور اپنے علمی کمالات کے ساتھ بلندی سیرت اور سادگی معاشرت میں جن کی ذات ہندوستان و پاکستان میں ایک مثالی حیثیت رکھتی ہے ان کی یہ کوشش نہایت قابل قدر ہے کہ انہوں نے اس کتاب کے مکمل ترجمہ اور شارحانہ حواشی کے تحریر کا بیڑا اٹھایا اور کافی محنت و عرق ریزی سے اس کام کی تکمیل فرمائی۔ بغیر کسی شک و شبہ کے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب تک ہماری زبان میں جتنے ترجمے اس کتاب کے اور حواشی شائع ہوئے ہیں، ان سب میں اس ترجمہ کا مرتبہ اپنی صحت، سلاست اور حسن اُسلوب میں یقیناً بلند ہے اور حواشی میں بھی ضروری مطالب کے بیان میں کمی نہیں کی گئی اور زوائد کے درج کرنے سے احتراز کیا گیا ہے۔
بلا شبہ نہج البلاغہ کے ضروری مندرجات اور اہم نکات پر مطلع کرنے کیلئے اس تالیف نے ایک اہم ضرورت کو پورا کیا ہے جس پر مصنف ممدوح قابل مبارکباد ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ صاحبانِ ذوق ہر طبقہ کے اس کتاب کا ویسا ہی خیر مقدم کریں گے جس کی وہ مستحق ہے۔
جَزَی ا للّٰہُ مُؤَلِّفَہٗ فِی الدَّارَیْنِ خَیْرًا!
علی نقی النقوی
(۴جمادی الثانی ۱۳۷۵ھ)
[۱]۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ۱۳۔
[۲]۔ مروج الذہب، ج ۲، ص ۳۳، طبع مصر۔
[۳]۔ شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج ۱، ص ۲۴۔
[۴]۔ البیان و التبیین، ج ۱، حاشیہ بر حالات عبد اللہ بن المقفع
[۵]۔ شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج ۱، ص ۲۴۔
[۶]۔ رجال کشی، ص ۲۲۴۔
[۷]۔ الفہرست، ص ۳۵۔
[۸]۔ رجال نجاشی، ص ۱۵۔
[۹]۔ رجال نجاشی، ص ۱۵۔
[۱۰]۔ رجال نجاشی، ص ۲۴۷۔
[۱۱]۔ رجال نجاشی، ص ۱۹۸۔
[۱۲]۔ تحف العقول، ص ۱۳، طبع ایران۔
[۱۳]۔ وفیات الاعیان، ابن خلکان، ج ۳، ص ۳۱۳، مطبوعہ دار الثقافۃ، بیروت، ۱۹۷۲ ء۔
[۱۴]۔ میزان الاعتدال، ذہبی، دار المعرفۃ للطباعۃ و النشر، بیروت، الطبعۃ الاولیٰ، ۱۳۸۲ ھ، ج ۳، ص ۱۲۴۔
[۱۵]۔ سورۂ مومنون، آیت ۷۱۔
[۱۶]۔ نہج البلاغہ، مکتوب نمبر ۳۱۔
[۱۷]۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ۲۲۸۔
[۱۸]۔ مطالب السؤل فی مناقب آل الرسولؐ، طبع لکھنو۔
[۱۹]۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ۱۔
[۲۰]۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ۱۔
[۲۱]۔ نہج البلاغہ، خطبہ نمبر ۶۹۔
[۲۲]۔ شرح مقاصد، ص ۵، ص ۲۹۹۔
[۲۳]۔ شرح تجرید، قوشجی، ص ۳۷۸۔
[۲۴]۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ: مصنف کے پیش نظر یہ حقیقت تھی کہ حضرتؑ کے کلام کا ذخیرہ ”نہج البلاغہ“ کے علاوہ بھی کثرت کے ساتھ موجود ہے اور یہ صرف اس کا ایک جز ہے۔
[۲۵]۔ ملحمۃ الامام علیؑ، عبد المسیح الانطاکی، ص ۶۹۹، طبع موسسۃ العلمی للمطبوعات، بیروت، ۱۹۹۱ ء۔

   
جملہ حقوق © 2020 محفوظ ہیں۔
info@balagha.org