خدا تم پر رحم کرے! شاید تم نے حتمی و لازمی قضاء و قدر سمجھ لیا ہے (کہ جس کے انجام دینے پر ہم مجبور ہیں)۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر نہ ثواب کا کوئی سوال پیدا ہوتا نہ عذاب کا، نہ وعدے کے کچھ معنی رہتے نہ وعید کے۔ حکمت 78
(١٥) وَ کَانَ عَلَیْهِ السَّلَامُ
ہدایت(۱۵)
یَقُوْلُ اِذَا لَقِىَ الْعَدُوَّ مُحَارِبًا:
جب لڑنے کیلئے دشمن کے سامنے آتے تھے تو بارگاہ الٰہی میں عرض کرتے تھے:
اَللّٰهُمَّ اِلَیْكَ اَفْضَتِ الْقُلُوْبُ، وَ مُدَّتِ الْاَعْنَاقُ، وَ شَخَصَتِ الْاَبْصَارُ، وَ نُقِلَتِ الْاَقْدَامُ، وَ اُنْضِیَتِ الْاَبْدَانُ.
بار الٰہا! دل تیری طرف کھنچ رہے ہیں، گردنیں تیری طرف اٹھ رہی ہیں، آنکھیں تجھ پر لگی ہوئی ہیں، قدم حرکت میں آ چکے ہیں اور بدن لاغر پڑ چکے ہیں۔
اَللّٰهُمَّ قَدْ صَرَّحَ مَكْنُوْنُ الشَّنَاٰنِ، وَ جَاشَتْ مَرَاجِلُ الْاَضْغَانِ.
بار الٰہا! چھپی ہوئی عداوتیں ابھر آئی ہیں اور کینہ و عناد کی دیگیں جوش کھانے لگی ہیں۔
اَللّٰهُمَّ اِنَّا نَشْكُوْۤا اِلَیْكَ غَیْبَةَ نَبِیِّنَا، وَ كَثْرَةَ عَدُوِّنَا، وَ تَشَتُّتَ اَهْوَآئِنَا.
خداوندا! ہم تجھ سے اپنے نبیؐ کے نظروں سے اوجھل ہو جانے، اپنے دشمنوں کے بڑھ جانے اور اپنی خواہشوں میں تفرقہ پڑ جانے کا شکوہ کرتے ہیں۔
﴿رَبَّنَا افْتَحْ بَیْنَنَا وَ بَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ اَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْنَ﴾.
’’پروردگارا! تو ہی ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان سچائی کے ساتھ فیصلہ کر اور تو سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا ہے‘‘۔